ننھے جاسوس۔ ڈبل ایجنٹ

188

جمال اور کمال بہت خوش بھی تھے اور افسردہ بھی۔ انسپکٹر حیدر علی اپنی اعلیٰ کارگردگی کی وجہ سے اپنے محکمے کی آنکھ کا تارا بن چکے تھے۔ اسی بنیاد پر ان کا تبادلہ قریب کے ایک بڑے شہر میں کر دیا گیا تھا۔ اس بات کا افسوس صرف جمال اور کمال ہی کو نہیں بلکہ بستی والوں کو بھی تھا۔ بے شک بستی کے سارے لوگ حیدر علی کے تبادلے پر نا خوش ضرور تھے لیکن اس بات پر بہت خوش تھے کہ ان کے تھانے کے ایک انسپکٹر کا تبادلہ کسی شکایت یا ناقص کار کردگی کی بنیاد پر نہیں اچھی کارکردگی پر ہوا تھا لیکن وہ فکر مند تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس پرسکون انداز میں بستی کے لوگ زندگی گزار رہے ہیں اس میں کوئی فرق آ جائے۔ لوگ انسپکٹر حیدر علی کو اس لیے بھی پسند کرنے لگے تھے کہ ان کی بستی کا تھانہ انھیں روایتی پولیس والوں کی طرح نہیں لگتا تھا بلکہ یہاں کے انسپکٹر ان کے بہت سارے ذاتی مسائل کو حل کروانے میں بھی بہت معاونت کرتے تھے حتیٰ کے لوگ اپنے لڑائی جھگڑے کے سلسلے میں بھی ان سے رجوع کرنے لگے تھے۔ اس قسم کے تنازعات کے سلسلے میں ان کے مشورے اور فیصلے سب ہی مان لیا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے تھانے کی حدود میں رہنے والے بہت خوش اور مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ سب ہی سوچ رہے تھے کہ نہ جانے اب اس تھانے میں جو نئے انسپکٹر، جن کا نام ملک احمد خان ہے، آئے ہیں ان کا رویہ بستی کے لوگوں کے ساتھ کیسا ہوگا اور کیا وہ اسی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے جس کارکردگی کا مظاہرہ حیدر علی کرتے رہے ہیں۔ جانے سے قبل انسپکٹر حیدر علی رات کے پچھلے پہر نہایت خاموشی کے ساتھ جمال اور کمال کے گھر آئے تھے لیکن ان کی ملاقات صرف ان کے والد سے ہی ہو سکی تھی کیونکہ جمال اور کمال اس وقت گہری نیند سو رہے تھے۔ اگلے دن ان کے والد نے جب ان کو بتایا کہ رات کے پچھلے پہر انسپکٹر حیدر علی ان سے ملنے آئے تھے،انھوں نے تمہارے لیے یہ پیغام چھوڑا کہ ان کا تبادلہ بستی کے ایک اور بڑے شہر کے تھانے میں ہو گیا ہے اور ان کی جگہ انسپکٹر ملک احمد خان کی پوسٹنگ کی گئی ہے لیکن تم دونوں کو ان سے ذرا محتاط ہی رہنا ہوگا۔ قانونی اور محکمہ جاتی لحاظ سے اس قسم کی کوئی بھی بات کرنا گوکہ کسی بھی طرح درست نہیں کیونکہ اس سے محکمے کا اعتبار مجروح ہوتا ہے لیکن کیونکہ مجھے ذاتی طور پر جمال اور کمال سے اپنے بچوں کی طرح کا پیار ہے اس لیے میں اس بات کو جیسے ایک دینی اور اخلاقی فرض سمجھتے ہوئے بتا رہا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اس بات کو آپ اور آپ کے بچے اپنے سینے میں ہی محفوظ رکھیں گے۔ یہ بات میں اس لیے بتا رہا ہوں کہ انسپکٹر ملک احمد خان کا محکمے میں کوئی بہت اچھا ریکارڈ نہیں۔ اسے یہاں پوسٹ کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ یہاں اسی کارکردگی کا مظاہرہ کرے جیسا کہ میں کرتا رہا ہوں بصورتِ دیگر محکمہ ان کے متعلق اور فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔ در اصل محکمے کو ان پر خفیہ سرگرمیوں کا شک ہے لیکن ابھی تک محکمے کو ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا ہے جس کی وجہ سے وہ محکمہ جاتی کارروائی سے بچا ہوا ہے۔ یہ سب باتیں میں آپ کو اس لیے بتا رہا ہوں تاکہ جمال اور کمال جو بھی کام کریں وہ محتاط رہ کر کریں نیز یہ کہ میں جو کچھ معلومات بھی آپ کو فراہم کر رہا ہوں اپنے اعلیٰ حکام کو اعتماد میں لے کر فراہم کر رہا ہوں اس لیے میں محکمہ جاتی راز کو آپ کے سامنے رکھ کر کوئی قانونی جرم بھی نہیں کر رہا۔
جمال اور کمال کے والد نے تقریباً تمام باتیں جو ان تک انسپکٹر حیدر علی نے بیان کی تھیں، ان کے گوش گزار کرادیں تاکہ وہ جس قسم کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیں، سوچ سمجھ کر لیں۔
دو چار دن ہی گزرے تھے کہ جمال نے کمال سے کہا کہ کیا تم میری طرح کچھ عجیب اور ان ہونی سی بات محسوس کر رہے ہو؟۔ جب ہم اسکول جا رہے ہوتے ہیں یا واپس آ رہے ہوتے ہیں یا گھر سے باہر کھیلنے، نماز پڑھنے یا گھر کے کسی کام سے جا رہے ہوتے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے خفیہ آنکھیں ہماری نگرانی کر رہی ہوں۔ کمال نے کہا کہ ابھی ابھی میں خود تم سے یہی سب کچھ کہنے والا تھا۔ کیا تمہیں اس پر تعجب نہیں کہ جب جب بھی میں یا تم، اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اس بات کا اندازہ کریں کہ آخر کون ہے جو ہمارے تعاقب میں ہے تو ہمیں دور دور تک کوئی سایہ تک نظر نہیں آتا۔ بازار کی اور بات ہے، وہاں تو درجنوں لوگ آ جا رہے ہوتے ہیں اس لیے کسی تعاقب کرنے والے کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہوتا ہے لیکن اپنی گلی میں داخل ہونے سے لے کر گھر کے دروازے تک ایسا ہی لگنا کہ جیسے سائے کی طرح کوئی ہمارے پیچھے پیچھے ہو لیکن مڑ کر دیکھنے کے بعد کسی کا بھی دکھائی نہ دینا کتنے تعجب کی بات ہے۔ جمال اور کمال نے ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہوئے ایک دوسرے کی تائید کی اور کہا کہ اس سے پہلے تو کبھی ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ لگتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے اس لیے نہ صرف ہمیں محتاط رہنا چاہیے بلکہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو لوگ بھی ہماری جستجو میں ہیں انھیں کہیں سے یہ خبر مل گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قدرتی طور پر کچھ ایسی صلاحیتیں دی ہیں جو عام بچوں کے پاس ہی نہیں، بڑے بڑے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں اور یہ کہ ہم ان صلاحیتوں کی مدد سے یہاں کی مقامی پولیس کی مدد بھی کرتے رہے ہیں۔ اب دو باتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو کوئی گروہ ہماری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں اغوا کر کے فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہوگا یا پھر ممکن ہے کہ ہمیں راستے سے ہی ہٹادے۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ انسپکٹر حیدر علی، جو کہ ہمارے متعلق سب کچھ جان چکے ہیں اور ہماری ہی ہمدردی کی وجہ سے انھوں نے ہمارے والد صاحب کو محکمہ جاتی راز تک بتانے سے گریز نہیں کیا تھا، انھوں نے ہماری حفاظت کے لیے ایسے اہل کار ہماری نگرانی کے لیے مقرر کر وائے ہوں جو اتنے پھرتیلے اور چالاک ہوں کہ ہماری نگرانی بھی کرتے ہوں اور باوجود کوشش، ہماری نگاہوں سے بھی اوجھل رہتے ہوں۔ بہر حال جو صورت بھی ہو، ہمیں اب ہر قدم پھونک پھونک کر ہی اٹھانا ہوگا۔ (جاری ہے)

حصہ