قیصروکسریٰ قسط(98)

283

عاصم نے کہا۔ ’’ایرانی لشکر کے سپہ سالار سے زیادہ آپ کے ساتھیوں کی حفاظت کا ذمہ اور کون لے سکتا ہے۔ آئیے میں آپ کو ان کے پاس لے چلتا ہوں‘‘۔

’’سپہ سالار کہاں ہیں؟‘‘

’’وہ یہاں سے چند قدم کے فاصلے پر ایک خیمے میں آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ اگر آپ کے ساتھی جہاز سے اُترنے میں کوئی خطرہ محسوس کرتے ہیں تو مجھے یرغمال کے طور پر جہاز پر بھیج دیجیے‘‘۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’نہیں نہیں، مجھے تمہارے متعلق کوئی بد اعتمادی نہیں اور اب شاید قیصر بھی یہاں آنے کے لیے یرغمال کی ضرورت محسوس نہ کریں۔ میں صرف تمہاری زبان سے یہ سننا چاہتا تھا کہ تمہیں میرے ساتھیوں کی حفاظت کے متعلق پورا اطمینان ہے؟‘‘

عاصم نے جواب دیا۔ ’’اگر مجھے یہ اطمینان نہ ہوتا تو سمندر کے کنارے آگ نہ جلاتا۔ یہاں پہنچ کر مجھے اپنی توقع سے زیادہ کامیابی ہوئی ہے۔ سپہ سالار بڑی بے چینی سے تمہارا انتظار کررہے ہیں۔ تمہارے دوسرے ساتھی کون ہیں‘‘۔

کلاڈیوس نے جواب دینے کی بجائے عاصم کا بازو پکڑ کر سرگوشی کے انداز میں کہا۔ ’’کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ کے ساتھی ایک طرف ہٹ جائیں۔ میں ان کے سامنے ہر سوال کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا‘‘۔

عاصم نے فارسی زبان میں سپاہیوں سے کچھ کہا اور وہ بھاگتے ہوئے ایک طرف چلے گئے۔ پھر اس نے کلاڈیوس کی طرف متوجہ ہو ہو کر کہا۔ ’’اس احتیاط کی ضرورت نہ تھی۔ یہ سپاہی سین نے اپنے انتہائی وفادار ساتھیوں میں سے منتخب کیے تھے۔ اور اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ ان میں سے کوئی رومی زبان کا ایک لفظ بھی نہ جانتا ہو‘‘۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’میری احتیاط کی ایک معقول وجہ ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میرے ساتھی کون ہیں؟‘‘

’’نہیں لیکن میں اتنا ضرور سمجھ سکتا ہوں کہ وہ کسی معمولی حیثیت کے لوگ نہیں ہوں گے۔ بہرحال آپ انہیں یہ پیغام بھیج سکتے ہیں کہ وہ پورے اطمینان کے ساتھ یہاں تشریف لاسکتے ہیں‘‘۔

کلاڈیوس نے قدرے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ ’’عاصم فرض کرو۔ اگر آج رات قیصر بذاتِ خود میرے ساتھ آنے کے لیے تیار ہوجاتا تو تم کس حد تک اس کی حفاظت کا ذمہ لے سکتے تھے؟‘‘

عاصم کچھ دیر بدحواس سا ہو کر کلاڈیوس کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اس نے کہا۔ ’’میں تمہاری تسلی کے لیے صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایرانی سپاہیوں کا جو دستہ اس وقت یہاں موجود ہے وہ سپہ سالار کے انتہائی جاں نثار آدمیوں پر مشتمل ہے۔ تاہم اگر قیصر کو تمہارے ساتھ دیکھ کر کسی کی نیت بد ہوجاتی تو تم لوگوں سے کہیں زیادہ ایران کے سپہ سالار کو اپنے معزز مہمان کی جان بچانے کی فکر ہوتی جس سین کو میں جانتا ہوں اس کے متعلق میں پورے اطمینان کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ قیصر کی حفاظت کے لیے اپنی جان پر کھیل جائے گا‘‘۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’میں سین کو نہیں جانتا۔ تاہم تمہاری باتوں سے مجھے یہ اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ وہ یقیناً کوئی بڑا آدمی ہوگا۔ ایک دغا باز آدمی اپنے ساتھی کے دل میں اتنا یقین اور اعتماد پیدا نہیں کرسکتا۔

میرے دوست اب رُوم اور انسانیت کی تقدیر تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اور تمہارے لیے یہ بات سوچنے کے لیے بہت تھوڑا وقت ہے کہ تم اس عطیم ذمہ داری سے کہاں تک عہدہ برآ ہوسکتے ہیں۔ تھوری دیر تک وہ قیصر جسے دنیا ہرقل کے نام سے پکارتی ہے۔ تمہارے سپہ سالار کے سامنے کھڑا ہوگا۔ اگر ایک شکست خوردہ حکمران کی یہ جسارت تمہاری توقع سے زیادہ ہے اور تم کوئی خدشہ محسوس کرتے ہو تو میں اب بھی واپس جانے کے لیے تیار ہوں‘‘۔

عاصم کچھ دیر خاموش کھڑا رہا بالآخر اس نے کہا۔ مجھے کوئی خدشہ نہیں تاہم مجھے یہ اعتراف ہے کہ قیصر کی یہ جرأت میری توقع سے کہیں زیادہ ہے۔ سین کو تو یہ بات بھی بعیدازقیاس معلوم ہوتی تھی کہ کسی حالت میں بھی وہ ان کے پاس آنے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوجائے گا‘‘۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’قیصر کا یہ فیصلہ میرے لیے بھی غیر متوقع تھا۔ ہم جہاز کے بادبان کھول رہے تھے، کہ ان کا ایلچی بندرگاہ پر پہنچا اور اس نے اطلاع دی کہ وہ اسقفِ اعظم کے ساتھ تشریف لارہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ جہاز پر سوار ہوچکے تھے۔ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ابھی آپ کا ہمارے ساتھ جانا مناسب نہیں لیکن انہوں نے کہا۔ اگر سین ایک شریف دشمن ہے تو مجھے اس کے پاس جانے کے لیے کسی احتیاط کی ضرورت نہیں۔ اور اگر اس کی نیت ٹھیک نہ ہوئی تو مجھے گرفتار کرنے کے لیے وہ ایک کی بجائے ایک ہزار آدمیوں کو بھی قربان کرسکتا ہے۔ میں نصف سے زیادہ فاصلہ طے کرلینے کے بعد بھی یہ محسوس کرتا تھا کہ وہ اچانک ہمیں واپسی کا حکم دیں گے۔ لیکن آج پھر وہ اس جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کررہے تھے جو انہیں آوار کے خاقان کے پاس لے گئی تھی۔ اور مجھے یہ بات ناقابل یقین معلوم ہوتی تھی کہ کچھ مدت قبل وہ قسطنطنیہ کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ کر قرطاجنہ کی طرف فرار ہونے کا ارادہ کرچکے تھے۔ میں نے اسقفِ اعظم سے قیصر کی اس ذہنی کایا پلٹ کے متعلق استفسار کیا تھا اور وہ یہ کہتے تھے کہ قدرت کا یہ معجزہ لاکھوں بے بس انسانوں کی دعائوں کا نتیجہ ہے‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’آپ انہیں لے آئیں۔ میں سپہ سالار کو اطلاع دیتا ہوں مجھے یقین ہے کہ قیصر کے استقبال کے لیے وہ بذاتِ خود یہاں آنا زیادہ پسند کریں گے‘‘۔

’’لیکن قیصر کسی اطلاع کے بغیر ان کے سامنے پیش ہونا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سین کے ساتھ اچانک ملاقات زیادہ موثر ثابت ہوگی‘‘۔ یہ کہہ کر کلاڈیوس اپنے ساتھی کی طرف متوجہ ہوا۔ ولیریس تم انہیں لے آئو‘‘۔

ولیریس بھاگ کر کشتی پر سوار ہوگیا اور چار ملاحوں نے چپو اُٹھالیے۔ عاصم اور کلاڈیوس کچھ دیر سمندر کی طرف دیکھتے رہے۔ بالآخر کلاڈیوس نے کہا۔ ’’عاصم تم نے اپنی فسطینہ کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔ وہ کہاں ہے‘‘؟

عاصم نے جواب دیا۔ ’وہ پاس ہی قلعہ میں ہے۔ میں اس سے مل چکا ہوں اور تمہاری تسلی کے لیے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اب ہمارے درمیان کوئی پہاڑ، صحرا یا سمندر حائل نہیں۔ اور وہ نادان لڑکی اس بات پر مسرور نظر آتی ہے کہ ایک بھٹکا ہوا مسافر زمانے کی خاک چھاننے کے بعد دوبارہ اس کے دروازے پر آنکلا ہے۔ اب اُسے دیکھتے اس کے ساتھ باتیں کرتے یا اس کے متعلق سوچتے ہوئے مجھے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ میں اپنے آپ کو فریب دے رہا ہوں۔ کلاڈیوس میں اپنے مستقبل کے متعلق بہت زیادہ پرامید نہیں لیکن اب میں اس سے بھاگنے کی کوشش نہیں کروں گا۔ میرے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ ہمارے درمیان زمان و مکان کے پردے حائل نہیں ہوسکے‘‘۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’اگر وہ ابھی تک تمہاری راہ دیکھ رہی تھی تو میں اسے نادان نہیں کہہ سکتا‘‘۔

سپہ سالار کے خیمے کی طرف سے کوئی مشعل اٹھائے نمودار ہوا اور عاصم نے کہا۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ سپہ سالار خود اس طرف تشریف لارہے ہیں‘‘۔

وہ چند قدم آگے بڑھے۔ سین اور اس کے دو محافظ مشعل بردار کے پیچھے آرہے تھے۔

سین نے عاصم کو دیکھتے ہی شکایت کے لہجے میں کہا۔ ’’تم نے ہمیں بہت پریشان کیا‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’جناب یہ کلاڈیوس ہیں۔ میں آپ سے ان کا ذکر کرچکا ہوں۔ اور ان کے دوسرے ساتھی جہاز سے اُترنے سے قبل مجھ سے اطمینان حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ان کے لیے کشتی بھیج دی گئی ہے۔ وہ ابھی پہنچ جائیں گے‘‘۔

سین نے کلاڈیوس کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہم عاصم کے ہر دوست کو اپنا دوست خیال کرتے ہیں‘‘۔

کلاڈیوس نے احسان مندی سے سرجھکاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’یہ میری خوش قسمتی ہے‘‘۔

سین کچھ اور کہے بغیر آگے بڑھا اور الائو کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہوگیا۔

عاصم نے کہا۔ ’’یہاں ٹھنڈی ہوا میں آپ کو تکلیف ہوگی۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ کشتی کے واپس آنے تک خیمے میں آرام فرمائیں‘‘۔

سین نے جواب دیا۔ ’’نہیں میرے لیے یہ آگ زیادہ آرام دہ ہے۔ لیکن ہمارے آدمی کہاں چلے گئے؟‘‘

’’جناب وہ یہیں آس پاس کھڑے ہیں، میں نے عمداً انہیں یہاں سے ہٹادیا ہے‘‘۔

سین کلاڈیوس کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’تم ہمیں بتا سکتے ہو کہ صلح کی شرائط طے کرنے کے لیے قیصر نے اپنے بچوں کو کس حد تک اختیارات دیے ہیں‘‘۔

’’جناب قیصر اپنی رعایا کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے آپ کی ہر ایسی شرط ماننے کے لیے تیار ہے جسے پورا کرنا اس کے بس میں ہو۔ اور میں آپ کو، یہ یقین دلاسکتا ہوں کہ میرے ساتھی اپنے حکمران کی طرف سے پورے اختیارات لے کر آئے ہیں‘‘۔

سین کچھ دیر خاموشی سے کلاڈیوس کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اس نے کہا۔ ’’تم جانتے ہو کہ کسریٰ نے صلح کی بات چیت کے لیے مجھے کوئی اختیار نہیں دیا۔ میرا تم لوگوں کے استقبال کے لیے یہاں آنا بھی اس کے حکام کی خلاف ورزی ہے‘‘۔

کلاڈیوس نے مایوس سا ہو کر جواب دیا۔ ’’مجھے معلوم ہے لیکن آپ ایک ڈوبتے ہوئے انسان کو تنکوں کا سہارا لینے سے منع نہیں کرسکتے۔ روم کا شکست خوردہ حکمران آپ کیو ساطت سے ایران کے عظیم فاتح کے کانوں تک صرف یہ آواز پہنچانا چاہتا ہے کہ میں ہار مان چکا ہوں۔ اور یہ اُمید ہمارا آخری سہارا ہے کہ شاید وہ ایک گرے ہوئے دشمن پر آخری ضرب لگانے کی ضرورت محسوس نہ کریں‘‘۔

’’مجھے معلوم نہیں کہ وہ کان جو تلواروں کی جھنکار اور زخمیوں کی چیخیں سننے کے عادی ہوچکے ہیں تمہاری فریاد سے کہاں تک متاثر ہوں گے۔ بہرحال میں تمہارے قیصر کو مایوس نہیں کروں گا۔ لیکن تمہارے ساتھی کب آئیں گے‘‘۔

’’شاید وہ آرہے ہیں‘‘۔ عاصم نے سمندر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

ان کی نگاہیں سمندر کی طرف مبذول ہوگئیں۔ تھوڑی دیر بعد کشتی کنارے کے قریب پہنچ چکی تھی۔

(جاری ہے)

حصہ