انسانی فطرت کے منفی جبلت اور اس کے اثرات

641

انسان خیر و شر کا مجموعہ ہے۔ نبیوں اور رسولوں کے علاوہ کوئی معصوم نہیں۔ حجت الاسلام امام غزالیؒ نے اپنی کتاب ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’انسان کے خمیر میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں، شیطان، درندوں اور حیوانوں کے خمیر ملائے ہیں مگر انسان کو صفاتِ ملکوتی کے حصول کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘

سورۃ الشمس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’مجھے اس نفس کی قسم جس کو میں نے پیدا کیا اور ہموار کیا اس پر فجور اور تقویٰ کو واضح کردیا۔‘‘سورہ بقراء میں ارشاد ہے’’دین میں کوئی تنگی نہیں اللہ نے ہدایت اور گمراہی واضح کر دی ہے۔‘‘

ہمارے جسم میں تین نفوس ہیں۔ نفس عمارہ ، نفس لواما ، نفس مطمئنہ۔ نفس امارہ بدی کی طرف بلاتا ہے دراصل یہی شیطانی وسوسوں کا گھر ہے۔نفس لواما جو ضمیر ہے اور نیکی کی دعوت دیتا ہے۔ نفس مطمئنہ راضی بہ رضا رکھتا ہے جو انسان کے لیے بڑی سعادت ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک صاحب ایمان پھر کیوں آج گمراہی اور بدعات و خرافات اور بدی کے راستے پر گامزن ہے۔انسان کے اندر نسلی، نسبی، مورثی اعتبار سے جسمانی ساخت، فطری جبلت ( عادات) اور بیماریاں رنگ و روپ نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔

میں اس مضمون میں صرف منفی جبلیات کا ذکر کروں گا جس نے مسلم معاشرے کو تباہ کر دیا ہے اور ہر طرح کی برائی بدرجہ فتنہ بلا کی طرح معاشرے کے تمام اخلاقی اقدار کو بہا لے جا رہی ہے۔ پہلی جبلت غرور و تعصب ہے۔جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے‘ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پیروں تلے کچلا ہے۔ غرور اور تعصب چاہے نسلی، نسبی، لسانی، علاقائی، طبقاتی یا قبائلی ہوں‘ اس کا انجام صرف اور صرف تباہی و بربادی اور قتل انسانی کا پیش خیمہ ہے۔ یہ ایک متبادل دین ہے۔

بتانِ رنگ و بو کو چھوڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی

سورہ النسا میں ارشاد ہے ’’اے انسانو! اللہ سے ڈرو جس نے تم کو ایک آدم اور اسی سے اس کی جورو کو پیدا کیا اور ان دونوں سے لا تعداد مرد و زن پیدا ہوئے۔‘‘

شیطان جس کو فرشتوں کی سرداری حاصل تھی اور جنت کا مکین تھا۔ صرف تخلیقی غرور نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے روکا اور ابلیس بنا۔

تکبر عزازیل را خار کر
بہ زندہ لعنت گرفتار کر

٭
حبابِ بحر کو دیکھو کہ کیسا سر اٹھاتا ہے
تکبر وہ بری چیز ہے کہ فوراً ٹوٹ جاتا ہے

تکبر اللہ کی چادر ہے اور اس میں جو شریک ہوگا رسوائی اس کا مقدر بن جائے گی۔دوسری منفی جبلت حسد ہے۔ آدمی جب احساس کمتری میں مبتلا ہوتا ہے تو اُس کو ہر اس آدم سے حسد ہونے لگتی ہے جو اس کی مقابلے میں کسی بھی حیثیت سے برتر ہوتا ہے۔ اللّٰہ نے سورہ فلق میں ارشاد فرمایا ’’حسد کرنے والوں کے حسد سے پناہ مانگو۔‘‘

اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس طرح تنکے کو آگ جلا دیتی ہے اُسی طرح حسد آدمی کو نقصان پہنچاتی ہے۔‘‘

حسد نظرِبد ، غیبت ، نجوا جیسی کبیرہ گناہ کو پیدا کرتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہودی اتنا زیادہ حسد کرتے تھے کہ آپؐ کو کبھی زہر اور کبھی جادو کے ذریعے ہلاک کرنے کی کوششیں کیں۔

تیسری منفی جبلت غیبت اور نجوا ہے۔ قرآن مجید میں غیبت کو اپنے مردار بھائی کے گوشت کھانے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

انفرادی غلطیوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا غیبت ہے اور اگر یہ غلطی فرد میں نہیں ہے تو وہ تہمت ہے جس کی شریعت میں سزا 80 کوڑے ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنے بھائی کے غلطیوں پر پردہ ڈالو اللہ تمہاری غلطیوں پر پردہ ڈالے گا۔‘‘

نجوا دراصل وہ بیماری ہے جو گروہ بندی کو جنم دیتی ہے یہ تو بڑی بڑی تنظیموں اور تحریکوں کو پارہ پارہ کر دیتی ہے۔ رشتوں میں دراڑ اور فساد برپا ہو جاتا ہے۔ دوستی دشمنی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

جھوٹ اور دروغ گوئی وہ منفی عادات ہیں جنہیں ’’برائی کی ماں‘‘ کہا گیا ہے۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ’’مسلمان سے ہر گناہ سرزد ہو سکتا ہے مگر وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا۔‘‘ منافق کی پہلی پہچان یہ ہے کہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ جھوٹے پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ جھوٹے پر اللہ کی لعنت برستی ہے۔ دجال کو اس لیے دجال کہا جاتا ہے کہ وہ جو بولے گا سب جھوٹ ہوگا۔

اللہ نے قرآن میں جھوٹوں کو تباہی اور بربادی کی وعید سنائی ہے۔ سورہ ہمزہ میں ارشاد فرماتے ہیں ’’تباہی ہے‘ بربادی ہے اُس شخص پر جو منہ در منہ جھٹلاتا ہے۔‘‘ آج امریکی طاغوت اور یورپی سامراج نے جھوٹ کی بنیاد پر افغانستان‘ عراق اور لیبیا کو تباہ و برباد کیا‘ ہر مجرم جھوٹ کا سہارا لے کر عدالتوں سے بری ہو جاتا ہے۔

حرص و ہوس اور لالچ۔ یہ جبلت خود غرضی اور دنیا پرستی کی دین ہے۔ ایسی عادت کا آدمی اپنے رشتوں کو بھی حتیٰ کی اپنی اولاد کا بھی نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کو قرآن میں کتے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اگر تم کو سونے کا پہاڑ بھی مل جائے تو دوسرے کی لالچ کرو گے۔ لالچی انسان مالی بد عنوانی میں مبتلا ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو دیتا ہے۔ اس کی موت حسرتوں کے ساتھ ہوتی ہے۔

بخل یا کنجوسی بھی لالچی انسان کی جبلت کا دوسری شکل ہے۔ سورہ ہمزہ میں ارشاد ہے ’’یہ گن گن کر مال جمع کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ ہمیشہ اس کے پاس رہے گا۔ ایسے شخص کو اللہ چکنا چور کر دینے والی آگ میں ڈالے گا۔‘‘

یہ مال و دولت و دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اللہ

فضول خرچی پاکستانی عوام کی عادت بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت اور عوام دونوں مقروض ہو کر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ بڑوں نے کہا ’’رہے سادا کہ نبھے باپ دادا۔‘‘ آدمی کو اپنی چادر میں رہ کر زندگی گزارنی چاہیے۔ قرآن نے فضول خرچ کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔

اس کے علاوہ اور بہت سی منفی جبلت اور عادات ہیں جو ماں باپ کی عدم توجہی اور ناقص تربیت سے انسانی زندگی کا جزو بن جاتی ہیں۔ ماحول، معاشرہ اور صحبت بھی ایسی عادتیں پروان چڑھاتی ہیں۔ درس گاہوں میں اساتذہ کا کردار اور نصاب بھی منفی جبلت اور عادات کو فروغ دے رہے ہیں۔

صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالع ترا طالع کند

حصہ