قیصرو کسریٰ قسط(97)

242

اگلی رات عاصم اور ایرانی فوج کے چند سپاہی سمندر کے کنارے ایک الائو کے گرد کھڑے تھے۔ آسمان صاف تھا اور سرد ہوا چل رہی تھی۔ ایک سپاہی نے لکڑیوں کا ایک گٹھا اُٹھا کر الائو پر ڈال دیا اور آگ کے شعلے آہستہ آہستہ بلند ہونے لگے۔

عاصم نے آگ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔ ’’میں سپہ سالار کے پاس جاتا ہوں۔ اگر کوئی کشتی نظر آئے تو مجھے فوراً اطلاع دو‘‘۔

ایک سپاہی نے کہا۔ ’’جناب آپ مطمئن رہیں، لیکن ہوا کافی تیز ہے اور مجھے یقین نہیں کہ رومی اس موسم میں رات کے وقت یہاں آنا پسند کریں گے‘‘۔

’’وہ ضرور آئیں گے، تم الائو پر لکڑیاں ڈالتے رہو‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر ایک طرف چل دیا۔ کوئی دوسو قدم کے فاصلے پر چند پہرے دار مشعلیں اُٹھائے ایک کشادہ خیمے کے گرد گشت کررہے تھے۔ کسی نے بلند آواز میں کہا۔ ’’ٹھہرو! کون ہے؟‘‘

’’میں عاصم ہوں‘‘۔ میں نے رُک کر جواب دیا اور پھر کچھ دیر توقف کے بعد دروازے کا پردہ اُٹھا کر خیمے کے اندر داخل ہوا۔

سین نے جو گائو تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اُسے دیکھتے ہی سوال کیا۔ ’’وہ آگئے!‘‘

’’نہیں جناب، وہ ابھی تک نہیں آئے۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ کو اتنی سردی میں یہاں آنے کی تکلیف اٹھانا پڑی۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ اگر آوار نے قسطنطنیہ پر حملہ نہیں کردیا تو وہ ضرور آئیں گے۔ آج ہوا تیز ضرور ہے لیکن ان کے موافق ہے اور انہیں ہمارے الائو کی روشنی میلوں تک دکھائی دے سکتی ہے۔ اگر آوار نے قسطنطنیہ پر دوبارہ حملہ نہیں کردیا، تو انہیں اب تک یہاں پہنچ جانا چاہیے تھا۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا، کہ اب آپ واپس قلعے میں تشریف لے جائیں اور وہاں آرام کریں۔

’’نہیں نہیں، جب تک مجھے اس بات کی تسلی نہیں ہوجاتی کہ تم صحیح سلامت رخصت ہوچکے ہو، میں یہیں رہوں گا مجھے اندیشہ ہے کہ ہمارے سپاہیوں کی طرف سے ذرا سی بے احتیاطی یہ سارا کھیل بگاڑ سکتی ہے۔ تم بیٹھ جائو میں تمہارے ساتھ باتیں کرنا چاہتا ہوں‘‘۔

عاصم اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ خیمے میں تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی۔ بالآخر سین نے کہا۔ ’’میری فوج کا کوئی افسر یا سپاہی اب جنگ جاری رکھنے پر خوش نہیں۔ تاہم اگر انہیں یہ معلوم ہوجائے کہ میں رومیوں کے ساتھ مصالحت کی طرف مائل ہوں تو وہ میرے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیں گے۔ کئی افسر ایسے ہیں جو شہنشاہ کو مجھ سے بدظن کرکے میری جگہ لینے کی کوشش کریں گے۔ میری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یوسیبا میری بیوی ہے۔ اور رقیبوں اور حاسدوں کو مجھ پر رومیوں کا طرف دار ہونے کا الزام عائد کرنے کے لیے صرف ایک بہانے کی ضرورت ہے۔ میری پہلی غلطی یہ تھی کہ میں اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف اس جنگ میں شریک ہوگیا تھا۔ اور میری آخری غلطی شاید یہ ہو کہ یہ جاننے اور سمجھنے کے باوجود مصالحت کرانے کی ذمہ داری قبول کرچکا ہوں کہ کسریٰ کے دربار میں میرا مذاق اڑایا جائے گا۔ آج اگر مجھے یہ تسلی ہو کہ دنیا کا کوئی گوشہ میری بیوی اور بیٹی کے لیے محفوظ ہے تو میں ان تمام الجھنوں سے اپنا دامن بچا کر وہاں بھاگ جائوں‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’کاش انسان کو بھاگنے سے نجات مل سکتی۔ آج ساری دنیا پر وحشت اور بربریت کی حکمرانی ہے۔ آج ہر کمزور اور بے بس انسان اطمینان کے چند سانس لینے کے لیے کسی زیادہ طاقتور اور زیادہ بااختیار انسان کا سہارا تلاش کرنے پر مجبور ہے لیکن آپ ان خوش قسمت انسانوں میں سے ہیں جو تاریکی میں بھٹکنے والے قافلوں کو اُمید کی روشنی دکھا سکتے ہیں۔ یہ ایک معمولی واقعہ نہیں کہ قیصر نے مجھ جیسے بے بس انسان کو وسیلہ بنا کر آپ کے پاس بھیجا ہے‘‘۔

سین نے جواب دیا۔ ’’عاصم تم یہ نہیں جانتے کہ کسریٰ اس دُنیا کے کمزور اور مغلوب انسانوں کے متعلق ایک فاتح کے ذہن سے سوچتا ہے اور اُسے اپنی ذات کے لیے کسی عظیم خطرے کا احساس ہی امن کی جانب راغب کرسکتا ہے۔ لیکن اتنی عظیم فتوحات کے بعد اس کی خود پسندی اور غرور کا یہ عالم ہے کہ اگر ساری دنیا کے انسان یک زبان ہو کر کہنا شروع کردیں کہ جنگ کی مزید طوالت اس کے لیے کسی خطرے کا باعث ہوسکتی ہے تو بھی اس کے رویے میں ذرہ بھر فرق نہیں آئے گا۔ آج دُنیا کی حالت دیکھ کر کوئی ذی شعور انسان یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ قدرت کا کوئی معجزہ کسریٰ کو فاتح عالم بننے سے روک سکتا ہے۔ چند برس صرف تمہارے ملک سے نبوت کے کسی دعوے دار نے یہ کہنے کی جرأت کی تھی کہ بالآخر رومی ایرانیوں پر غالب آئیں گے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس پیش گوئی کے بعد ہماری پے در پے فتوحات کے باعث اس پر ایمان لانے والے سادہ دِل لوگ بھی اس کا مذاق اُڑاتے ہوں گے‘‘۔

’’عاصم نے کہا۔ ’’مکہ میں نبوت کے دعوے دار کے متعلق میں بھی بہت کچھ سن چکا ہوں، لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ اس نے ایرانیوں کی شکست یا رومیوں کی فتح کے متعلق کوئی پیش گوئی کی ہے؟‘‘

سین نے جواب دیا۔ ’’یمن سے تاجروں کا کوئی قافلہ یروشلم آیا تھا اور انہوں نے راستے میں مکہ کے نبیؐ کی یہ پیش گوئی سنی تھی۔ جب یہ بات یروشلم کے حاکم کے کانوں تک پہنچی تو اس نے یہ سمجھا کہ دشمن کے جاسوس ہمارے سپاہیوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے اس قسم کی افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ پھر تحقیقات کے بعد یمن کے تاجروں سے باز پرس کی گئی تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ عرب میں یہ پیش گوئی کافی مشہور ہوچکی ہے۔ مجھے یہ تمام واقعات فوج کے ان عہدہ داروں کی زبانی معلوم ہوئے تھے جو یروشلم سے تبدیل ہو کر یہاں آتے تھے۔ مجھے ان دنوں میں سارا قصہ ایک مذاق معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اب کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر دنیا میں کوئی ایسا انسان ہو جس کی نگاہیں حال کے پردوں سے آگے دیکھ سکتی ہوں تو کسریٰ کو جنگ کے نتائج سے خوفزدہ کرکے اُسے امن کی طرف مائل کردینا اس کا عظیم ترین معجزہ ہوگا‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’اپنا وطن چھوڑنے سے پہلے میں نے مکہ کے نبی کے متعلق عجیب و غریب باتیں سنی تھیں۔ لیکن مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ بنجر زمین کیسے ایسی اچھائی کو جنم دے سکتی ہے جس کے اثرات صحرائے عرب سے باہر پہنچ سکیں۔ اگر وہاں کوئی نبی انسانیت کے لیے امن کا پیغام لے کر آیا ہو تو اہل عرب اس کے راستے میں اپنی خاندانی اور قبائلی عصبیتوں کی دیواریں کھڑی کردیں گے۔ یہ وہ صحرا ہے جس میں پھوٹنے والے چشمے ندیوں یا دریائوں کی شکل اختیار نہیں کرتے بلکہ وہیں جذب ہو کر رہ جاتے ہیں۔ روم و ایران کے تاجداروں سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ کسی عظیم شکست یا تباہی کے خوف سے وہ اپنی تلواریں نیاموں میں ڈالنے پر مجبور ہوجائیں یا کوئی غیر معمولی انسان انہیں امن کا راستہ دکھائے اور وہ اس کے جاہ و جلال سے مرعوب ہو کر اس کے پیچھے چل پڑیں۔ لیکن سردارانِ عرب کو کسی بدترین تباہی کا خوف بھی امن کی طرف مائل نہیں کرسکتا۔ وہ صرف کسی ایسے رہنما کو قبول کرسکتے ہیں جو انہیں امن کی بجائے ہلاکت کا راستہ دکھا سکتا ہو۔ عرب کی سرزمین میں امن اور انسانیت کا نعرہ بلند کرنے والے نبی کو سب سے پہلے اپنے قبیلے کے ان شیوخ سے نبرد آزما ہونا پڑے گا جو مشرق و مغرب کے تمام شہنشاہوں سے کہیں زیادہ ظالم، مغرور اور خود پسند ہیں۔ پھر اگر اس کا اپنا قبیلہ اس کا طرف دار بن گیا تو دوسرے تمام قبائل اس کے حامیوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ یثرب چھوڑنے سے قبل مکہ کے نبی کے متعلق میری معلومات صرف یہ تھیں کہ خاندان قریش کے چند معززین کے علاوہ اس پر ایمان لانے والے گروہ کی اکثریت انتہائی بے بس، نادار اور مفلس لوگوں پر مشتل ہے اور باقی سارا قبیلہ اس کا مذاق اڑاتا ہے۔ اگر وہ اپنے قبیلے کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گیا تو بھی مجھے یقین ہے کہ مکہ سے باہر اس کی آواز کسی دوسرے قبیلے کو متاثر نہیں کرسکے گی۔ جو لوگ عرب کے حالات سے واقف ہیں وہ کسی ایسے نبی کی کامیابی کا تصور بھی نہیں کرسکتے جو وہاں کے قبائل کو عدل و مساوات کا درس دیتا ہو۔ آج دنیا کا ہر ذی شعور انسان کسی نجات دہندہ کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور میں بھی کسی ایسے رہنما کا متلاشی ہوں جس کی آواز قبیلوں، نسلوں اور قوموں کی سرحدیں پھاند سکتی ہو۔ انسانی تاریخ کا وہ دن کتنا حسین ہوگا جب انسانوں کے درمیان ادنیٰ اور اعلیٰ، گورے اور کالے، آقا اور غلام، کمزور اور طاقتور کا امتیاز اُٹھ جائے گا۔ کبھی کبھی میں اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتا ہوں کہ شاید انسانیت کا نجات دہندہ آچکا ہے۔ لیکن عرب کے حالات جانتے ہوئے میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس ظلمت کدہ سے کوئی روشنی نمودار نہیں ہوسکتی‘‘۔

سین نے کہا۔ ’’تم جس قدر عرب کے حالات سے مایوس ہو میں اس سے کہیں زیادہ ایران کے حالات سے مایوس ہوں۔ ایران کے مجوسی کاہن ساری دنیا پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اور انہیں جب یہ معلوم ہوگا کہ میں صلح کا ایلچی بن کر کسریٰ کے پاس آیا ہوں تو وہ میرے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیں گے۔ تاہم میں تمہیں مایوس نہیں کروں گا۔ اگر قیصر نے میرے پاس آنے کا ارادہ تبدیل نہ کردیا تو میں کسریٰ کے پاس ضرور جائوں گا‘‘۔

مجھے یقین ہے کہ قیصر آپ کے پاس ضرور آئے گا۔ اور میرا دل گواہی دیتا ہے کہ صلح کے لیے آپ کی کوشش بے نتیجہ ثابت نہیں ہوگی‘‘۔

خیمے کے باہر کسی کے پائوں کی آہٹ سنائی دی پھر ایک سپاہی ہانپتا ہوا خیمے میں داخل ہوا اور اس نے کہا۔ ’’جناب وہ پہنچ گئے ہیں۔ ان کا جہاز ساحل سے کچھ دور رک گیا ہے اور اب ایک کشتی ساحل کی طرف آرہی ہے‘‘۔

عاصم نے جلدی سے اُٹھ کر سین سے کہا۔ ’’جناب آپ یہیں ٹھہریں میں انہیں لے کر آتا ہوں‘‘۔ اور پھر وہ کسی توقف کے بغیر سپاہی کے ساتھ خیمے سے باہر نکل گیا۔

کشتی کنارے پر لگی پھر چند ثانیے توقف کے بعد کلاڈیوس اور ولیریس نیچے اُتر پڑے۔ عاصم نے جو چند مشعل بردار سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا آگے بڑھ کر یکے بعد دیگرے ان کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’کلاڈیوس میرا خیال تھا کہ آپ کے ساتھ زیادہ آدمی آئیں گے‘‘۔

کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’میرے ساتھ چھ آدمی اور ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے جہاز کو احتیاطاً ذرا پیچھے روک دیا ہے۔ اپنے باقی ساتھیوں کو یہاں لانے سے پہلے میں آپ سے مل کر اس بات کی تسلی کرلینا ضروری سمجھتا تھا کہ یہ جگہ ان کے لیے کس حد تک محفوظ ہے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ