فیوض قرآن :قرآن کا دکھ اور نوحہ

قرآن کریم کی اہمیت ،فضیلت و حفاظتِ ،بلاغت و اعجاز،اسلوب وفصاحت اور انداز و تعلیمات،ان کی آفاقیت اور امکان۔۔گہرائی۔۔حقانیت و تأثیر پر بے شمار کتب و مقالات کھے جاچکے ہیں۔

ان تحاریر کا یہ موضوع نہیں،بلکہ رمضان المبارک کی برکات و فیوض کے ایک مظہر ۔سماعت و تلاوت قرآن ۔کے دوران ذہن کو جھنجونے والے ۔striking..کلمات و تراکیب اور ان کے پس منظر میں دعوت عمل کا بالاختصار اظہار و بیان ہمارا مقصود ہے۔

قرآن بلاشبہ تذکیر و نصیحت کا سامان اور فکر وعمل کے عقدے حل کرنے،زاویئے واضح کرنے،غور و تدبر کی جانب متوجہ ہونے اور زاد آخرت جمع کرنے کی شاہ کلید۔۔یعنی۔۔master key ہے ۔

قرآن عظیم۔۔سرچشمۂ علوم و معارف و حقائق ہے۔کائنات کی حقیقتیں یا تاریخ انسانی کی۔۔دروس اخلاقیات ہوں یا اسباق تاریخ،حکمت کے سرچشمے ہوں یا دانش کے سوتے،فکر کی جلا ہو یا روح کی بالیدگی ،شعور و آگاہی کی روشنی ہو یا عمل کی راہیں۔شخصیت و کردار کے پیمانے ہوں یا فوز و فلاح کے معیارات،دنیاوی امور ہوں یا اخروی معاملات،سزا وجزاء کے اصول وضوابط ہوں یا زاد اخرت بنانے کے طریقے، لطف سماعت کا ذوق ہو یا حسن قرأت کا شوق۔ سوچ کے دھاروں میں دلچسپی ہو یا دل کے تالوں کو کھولنے کی خواہش۔۔قرآن ۔کھولیے، پڑھیے،سنیے،سمجھیے،اور عمل کیجیے ۔

قرآن خود کے ساتھ مربوط رہنے اور اس سے ہدایت و نصیحت چاہنے والے کے لیے بہت اسان اور سریع الفہم،اور عمل کرنے والے کے لیے تو بہت نافع اور معاون ہے ۔

قرآن اپنے اسلوب تذکیر کے باعث قاری اور سامع کے لیے بہت پُرکشش ہے ۔

قرآن کو پڑھنے والا۔ ممکن ہی نہیں اس کی تأثیر اور تشجیع عمل کی زبردست قوتوں سے محروم رہے۔

قرآن کے اتنے کمالات اور اعجازات ،اسے بار بار پڑھنے،اس کے بارے بے شمار کتب و مقالات لکھے جانے اور اس کی بنیاد پر ہزاروں علمی اجتماعات منعقد کیے جانے ،اور ہر رمضان میں اس کی آیات کروڑوں بار تلاوت و سماعت کرنے اور آسمان کے ستاروں جتنی نیکیاں سمیٹنے کے باوجود۔۔قران دکھی رہتا ہے۔

اور

اہل قرآن کو خبردار کرتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ ربط و تعلق کے ان بے شمار مظاہر و معمولات کے باوجود ترک قرآن اور عملاً بے اعتنائی کا رویہ ختم نہ ہوا تو قیامت کے روز وہ بارگاہ رب العالمین میں بزبان صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کناں ہوگا۔۔

وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا
قرآن کے ساتھ فکری تعلق کے حوالے سے اگلا عنوان ہوگا۔
ولکن اکثر الناس۔لا یعلمون
ولکن اکثر الناس۔لا یؤمنون
ولکن اکثر الناس۔لا یشکروں۔
ولکن اکثر الناس۔۔۔لا یعلمون ”
(1)
انسانی زندگی سے متعلق کوئی ایسا موضوع اور سوال نہیں اور کوئ ایسا خلفشار نہیں جس کے بارے میں قرآن عظیم نے بنیادی ،اصولی،قطعی،واضح اور حتمی راہنمائی نہ کی ہو۔۔قرآن ایسے موضوعات و حقائق کے بیان کے بعد لوگوں کو مختلف الفاظ و اسالیب میں متوجہ کرتا ہے،جو ان حقائق پر نہ غور کرتے ہیں،نہ انہیں مانتے ہیں یا ان پر یقین نہیں رکھتے۔یا ان کے ساتھ بے اعتنائی برتتے ہیں۔

ان الفاظ واسلوب میں قرآن مجید میں 9 مقامات پر
مختلف امور پر اکثر بندگان خدا کا رویہ بیان کیا گیا۔
سورہ الاعراف میں قیامت کے حوالے سے فرمایا:

قل انما العلم عنداللہ،ولکن اکثر الناس لا یعلمون
قیامت اور آخرت اور اس کے مناظر و نشانیاں قرآن وحدیث کا اہم ترین موضوع ہے۔جسے مختلف انداز واسالیب کے ساتھ باتکرار بیان کیا گیا ۔۔دلائل بھی دیئے گئے اور بندگان خدا کے ذہنوں میں جنم پانے والے اشکالات و سوالات کے بھی کافی و شافی جوابات دیئے گئے،مگر لوگ سرچشمۂ کامل و وسیع و برحق علم کی دلیلوں اور باتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔۔اگر محض عقیدہ مانتے بھی ہیں تو عملی طور پر یقین رکھتے ہیں ،نہ اس علم و عقیدہ کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔

قیامت اور حشر کے حوالے سے اسی انداز میں سورۃ الجاثیہ میں ارشاد ہوا:
یحییکم ثم یمیتکم ثم یجمعکم الی یوم القیامۃ لا ریب فیھا،ولکن اکثر الناس لا یعلمون۔۔

لوگوں کو خبر ہی نہیں۔۔۔یا خبر ہے تو یقین نہیں۔۔۔کہ اللہ ہی نے اس کائنات کی ہر شے اور خود انسانوں کو پیدا کیا ۔پھر وہ انہیں موت سے دوچار کرے گا اور پھر قیامت کے روز دوبارہ زندہ کرکے میدان حشر میں لا اکٹھا کرے گا۔۔اور اس حقیقت اور دن کے وقوع میں کسی قسم کا شک و شبہ بھی نہیں۔۔مگر اکثر لوگ بار بار بتائے جانے کے باوجود اس شعور و آگہی کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے اور بے علم ہی رہتے ہیں۔

انبیاء کی بعثت،دعوت اور موت کےحوالے سے سورۃ النحل میں ارشاد ہوا:
لا یبعث اللہ من یموت۔۔

کہ لوگ قسمیں کھا کھا کر ان سب باتوں کا انکار کرتے ہیں۔۔حالانکہ یہ اللہ کا اعلان ہی نہیں ،بلکہ سچا اور مبنی بر حق وعدہ ہے،اور اللہ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی تو کرتا نہیں ،بلکہ پوری قوت کے ساتھ نافذ کرنے پر قادر ہے۔۔

بل وعداللہ حقا۔ولکن اکثر الناس لا یعلمون ۔
سورہ یوسف میں اللہ جل جلالہ کی کائنات میں موجود اور ہر امر پر زبردست،کامل اور نافذ قوت و غلبہ و قدرت کی حقیقت کے مظاہر دیکھنے کے باوجود لوگوں کے بے بندگی کے رویے اور اس کی متصرفِ کُل ہستی کو نظرانداز کرنے کے طرز عمل کے پس منظر میں ارشاد ہوا:
واللہ غالب علی امرہ۔۔ولکن اکثر الناس لا یعلمون ۔
ولکن اکثر الناس۔۔۔لا یعلمون “

(2)

اسی انداز میں اللہ رب العزت کے ایک اور وعدےکا ذکر سورۃ الروم میں ہے ،جس کے وقوع اور نتائج سے بھی عہد نزول قرآن کے اکثر لوگ نابلد و لا علم تھے ،حالانکہ یہ رب کائنات کا وعدہ تھا،جس کے نامکمل رہنے یا ایفا نہ ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا ۔

لا یخلف اللہ عھدہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون
یہ وعدہ دراصل رومیوں کے بظاہر دنیا پر غلبہ و تسلط اور اسے سپرپاور مانے جانے کے پس منظر میں تھا کہ اس عارضی اور وقتی غلبہ کے بعد بالآخر وہ اسلام کے باجگزار بن کر رہیں گے۔

من بعد غلبھم سیغلبون فی بضع سنین۔۔
بس چند برسوں ہی کی بات ہے،جب یہ رومی اپنی شان وشوکت سے محروم ہو جائیں گے ۔مسلمان فاتح ہوں گے، مسلمانوں کو طویل آزمائشوں کےبعد بالآخر خوشی اور فرحت سے سرشاری ملے گی۔۔اللہ کی مدد ان کے لیے نازل ہوگی اور اللہ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔۔

اور تاریخ نے دیکھا کہ واقعی محض چند سالوں بعد یہ شاندار مناظر خود اہل ایمان نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور تاریخ کے صفحوں پر یوں رقم ہوئے کہ ہر شخص نے انگلیاں منہ میں داب لیں۔

اللہ رب العزت نے کچھ اور واضح معاملات پر بھی انسانوں کی لاعلمی کو موضوعِ کلام بنایا۔

سورۃ یوسف اور سورۃ الروم میں دین اسلام کے حوالے سے واضح کیا کہ یہ دین محض ایک مذہب و مسلک نہیں۔۔ایک مکمل اور انتہائی سیدھا اور کسی بھی قسم کی فکری و عملی کجی سے پاک مستحکم و پائیدار اور برحق عقائد و نظریات و اعمال پر مشتمل مکمل ضابطہ اور طریق حیات ہے۔

مگر لوگ لاعلمی کی بناء پر اِدھر اُدھر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔
ذلک الدین القیّم،ولکن اکثر الناس لا یعلمون ۔
ایک پہلو انبیاء کرام کو عطا کردہ علوم و معرفت کا ہے۔۔کہ وہ اللہ کا عطاء کردہ ہے،وہی مصدر ومنبع علوم ہے۔

وانہ لذو علم لِما علّمناہ،ولکن اکثر الناس لا یعلمون ۔
بنیادی طور پر سورۃ الروم کی یہ آیت جناب سیدنا یعقوب و یوسف علیہما السلام کو دیئے گئے علم سے متعلق ہے۔۔کہ جب یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کو مصر میں ایک ہی دروازے سے داخل ہونے سے منع کیا،
اور انہوں نے الٰہی عطاء علم کی بنیاد پر اس حکم کی مکمل پیروی کی۔
انبیاء کا علم خواہ وہ براہ راست وحی کے ذریعے ہو یا خواب کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے، وہ برحق ،منجانب اللہ اور واجب الاتباع ہوتا ہے ۔اس کی مخالفت یا حکم عدولی اور نظر انداز کیے جانے کی ہرگز گنجائش نہیں ہوتی ۔
سورہ سبا میں سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت الی الناس کافۃ کا اعلان ہے۔دو مزید خصوصیات بھی مذکور ہیں۔بشیراً و نذیراً۔
اور تعجب ہے لوگ اس رسول کُل ،رسول مہرباںصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و حیثیت کے سب امتیازات و افتخارات دیکھنے کے باوجود بھی خود کو جہالت سے مربوط رکھے ہوئے ہیں۔

وما ارسلناک الا کآفۃ للناس بشیرا و نذیرا،ولکن اکثر الناس لا یعلمون
سورۃ السبا ہی میں ایک اور حقیقت بیان کی گئی:

قل ان ربی یبسط الرزق لمن یشاء و یقدر،ولکن اکثر الناس لا یعلمون ۔

لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمہ نوع رزق اور اسباب عیش،جاہ و مال سب خود ان کی محنت،حکمت،تدبر اور قوت کے نتائج ہیں۔وہ اس کے خود خالق و مالک اور متصرف کُل ہیں۔ اور یہ کہ یہ مال و متاع دائمی ہیں ۔نہ کوئی دوسرا اس کامیابی میں شریک ہے،نہ تقسیم کار اور نہ ہی اس میں کسی دوسرے کا کوئی حق۔اور نہ ہی ان پر حلال و حرام،جائز و ناجائز کی کوئی قید۔وہ جیسے اور جب اور جتنا چاہیں دولت کمائیں،اڑائیں اور بچائیں۔

انہیں بتایا گیا کہ ان بے علم و خبر اور حقیقت وقدرت الٰہی سے نا آشنا لوگوں کو علم ہونا چاہیے کہ ۔

وہ نہیں، بلکہ تقسیمِ رزق کا اصل محور و مرکز رب کائنات ہے۔وہی رزق کی کشادگی اور تنگی پر قادر ہے،کیونکہ وہی رازق اصلی اور مختار کل ہے۔
انسان کی کیا طاقت اور اوقات کہ اپنے بَل پر وہ یہ رزق سمیٹ سکے۔ اسے بچا سکے،محفوظ رکھ سکے یا کسی کو محروم کرسکے۔

اس پس منظر میں بندگان خدا پر واجب ہے کہ رزق کی کشادگی اور تنگی پر رب کریم کو ہی قادر سمجھیں،اپنے پاس کم یا زیادہ رزق کو پروردگار کی عطا اور امانت تصور کریں،اسی سے خیر و برکت کے طالب رہیں،اسی کی متعینہ حدود میں رہ کر حصول رزق میں سرگرم رہیں،اور اسی کے احکامات و قیود کے مطابق خرچ کریں۔خوشحالی اور تنگدستی کے کسی بھی زمانے میں اسے ہرگز فراموش نہ کریں۔

اس اسلوب میں اکثر لوگوں کی لاعلمی کا یہ بھی پہلو بیان ہوا کہ لوگ خدائے لم یزل ،حیّ و قیوم کی بے شمار قدرتوں میں سے بے شمار مظاہر فطرت میں سے انتہائی ظاہر و باہر اور نمایاں عظیم و حیرت ناک تخلیق ارض و سماء کو دیکھتے رہنے اور استعمال کرنے کے باوجود سرچشمۂ علم و قدرت کی بندگی سے کیوں منہ موڑے رکھتے ہیں۔۔انسان کی تخلیق بلاشبہ نہایت حیرتناک ہے،مگر زمین و آسمان کی تخلیق اور نظم و نسق۔تو اس سے بھی بڑھ کر عجوبہ ہے جو انسان کی فہم و ادراک سے بالا اور احاطے سے ماورا ہے۔ اور اللہ کی قدرت و عظمت کی بڑی دلیل اور دعوت ہے۔

لَخلق السماوات والارض اکبر من خلق الناس ولکن اکثر الناس لا یعلمون ۔۔
ولکن اکثر الناس۔۔۔لا یشکرون “

(3)

اکثر بندگان خدا کا دوسرا رویہ احسان فراموشی اور رب رؤف و رحیم کی ناسپاسی اور ناشکرگزاری کا ہے۔۔
کس قدر عجیب اور باعث شرم بات ہے کہ انسان اپنے خالق ،مالک،پروردگار ،محسن و مُنعِم کے احسانات وانعامات سے حظّ اور فیض اٹھانے اور خوب استعمال کرنےکے باوجود اس کی شکرگزاری سے غافل رہتے ہیں۔

اللہ عظیم و جلیل کی شکرگزاری بندے سے ہمہ وقت مطلوب ہے ،اور یہ قرآن کا خاص اور باتکرار متوجہ کرنے والا موضوع ہے۔اور بندۂ مؤمن کی انتہائی اعلیٰ صفات میں شامل ہے۔یہ طرز عمل انبیاء کرام اور خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے نمایاں وصف ہے،جو رب رحمان ورحیم کی رضا و غفران کے بے شمار دَر کھولنے کا باعث بنتا ہے۔۔

سورۃ البقرۃ اور سورۃ النمل میں اسی جانب متوجہ کیا گیا۔
ان اللہ لذو فضل علی الناس،ولکن اکثر الناس لا یشکرون
تین باتیں بہت قابل غور ہیں۔
ایک ۔۔اللہ کا بے پناہ فضل و احسان اپنے بندوں پر،

دوسری ۔۔ اس کے یہ احسانات اور فضل وکرم تمام۔مخلوق ،بالخصوص انسانوں کے لیئے یکساں اور وافر ہیں،بلا امتیاز منکر و مسلم۔
تیسری۔ اس کے ہمہ نوع،ہنہ جہت اور ہمہ پہلو احسانات و فضل و کرم کا کوئی شمار ممکن ہے،نہ احاطہ۔

اس فضل وکرم کا ایک ہی لازمی تقاضا ہے،عطا کرنے والی کی قدر شناسی،احسان شناسی اور شکر گزاری۔

شکرگزاری کا عملی مظہر یہ ہے کہ اس کے مسلم و مطیع اور مؤمن زندگی کے ہر معاملے میں اسی کی بندگی کے جامع اور مستقل رویے کو اپنائیںاور منکر بندوں کو دعوت ہے کہ پروردگار کے مطیع و مسلم بن جائیں اور صرف اسی کی بندگی کے دائرۂ ایمان و اسلام میں داخل ہوجائیں۔

سورہ غافر میں شکر گزاری کا متقاضی اللہ کا یہ فضل۔گنوایا گیا کہ اس نے رات اور دن تمہارے سکون اور ارام اور کام۔کے لیئے بنائے اور یہ کہ تم دن کی روشنی میں خوب دیکھ بھال کر بآسانی امور حیات سرانجام دے سکو۔۔

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ

یہ دونوں مظاہر قدرت بھی بے شمار منافع لیے ہوئے پروردگار کی شکرگزاری کی دلیل ہیں۔

سورۃ یوسف میں شکرگزاری کا متقاضی ایک پہلو اور بتایا۔

وَٱتَّبَعْتُ مِلَّةَ ءَابَآءِىٓ إِبْرَٰهِيمَ وَإِسْحَٰقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَآ أَن نُّشْرِكَ بِٱللَّهِ مِن شَىْءٍۢ ۚ ذَٰلِكَ مِن فَضْلِ ٱللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى ٱلنَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ

یوسف علیہ السلام کے الفاظ میں بندگان خدا پر اور خود یوسف علیہ السلام پر اللہ کے ایک خاص فضل کا ذکر ہوا۔ایک تو ابراہیم علیہ السلام جیسے جلیل القدر اور پروردگار کے ہر دم شکرگزار بندے اور اسحاق و یعقوب (باقی صفحہ 6پر)