سادے کاغذ پر اصلاح دینا بد دیانتی ہے،علم و عروض سیکھے بغیر بھی شاعری کی جاسکتی ہے،وہ ادب مرجا تا ہے جو زمانے کے ساتھ نہیں چلتا

388

،قادرلکلام ،شاعر ،افسانہ نگاراور ماہر تعلیم فیروز ناطق خسرو سے گفتگو

اسکوارڈرن لیڈر (ر) فیروز ناطق خسرو‘ قادرالکلام شاعر و افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر تعلیم بھی ہیں‘ ان کی تصانیف میں کلام ناطق بدایونی‘ ہزار آئینے‘ طلسم مٹی کا‘ آئینہ چہرہ ڈھونڈھتا ہے‘ آنکھ کی پتلی میں زندہ عکس‘ ستارے توڑ لاتے ہیں‘ دل کے بند دریچے‘ گئے سال کی ڈائری‘ فرصتِ یک نفس شامل ہیں۔ ان کتابوں میں ان کی غزلیں‘ نظمیں‘ افسانے‘ تراجم موجود ہیں۔ گزشتہ ہفتے راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے جسارت سنڈے میگزین کے لیے ان سے مکالمہ کیا جس جو کہ پیش خدمت ہے۔

جسارت میگزین: علمِ عروض کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟
فیروز ناطق خسرو: شعر کے لغوی معنی جاننے کے ہیں اصطلاحاً اس موزوں کلام کو کہتے ہیں جو مقررہ اوزان پر ہو شعر کے لیے اس کا موزوں ہونا ہی کافی نہیں بلکہ خوب صورت الفاظ‘ بہترین بندش‘ دل کش استعارے‘ عمدہ تشبیہیں اور حسین تخلیل شعر کا اہم جزو ہوتے ہیں۔ شعر کو بیت بھی کہتے ہیں جب کہ عروض اس علم کا نام ہے جس سے اوزانِ اشعار کا اندازہ لگایا جاتا ہے اس علم کی ابتدا خلیل بن احمد نے مکہ میں کی تھی۔ اس کے علاوہ بھی اساتذہ علمِ عروض نئی نئی بحریں ایجاد کرکے اپنی غزل کہتے ہیں۔ یہ علم بہت فائدہ مند ہے لیکن شاعری کرنے کے لیے اس کا علم سیکھنا ضروری نہیں ہے شاعری تو عطیۂ خداوندی ہے‘ ہر شاعر پر شاعری کا نزول ہوتا ہے ہر شخص شاعر نہیں بن سکتا‘ شاعری میں علم عروض کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں تاہم جن لوگوں کو یہ علم نہیں آتا تو وہ ردہم کے ذریعے یہ پتا لگا لیتے ہیں کہ شعر وزن میں ہے یا نہیں۔

جسارت میگزین: آج کے زمانے میں تنقیدی معیار کیا ہے؟

فیروز ناطق خسرو: پاکستان میں معیاری تنقید نہیں لکھی جا رہی۔ اب تنقید کا مطلب کسی فن پارے کی توصیف ہے اس میدان میں دیانت داری کی ضرورت ہے یہ روایت اب کمزور پڑتی جا رہی ہے اب تنقید نگار سچی اور کھری بات سے گریزاں ہیں۔ تنقید سے انسانی شعور بیدار ہوتا ہے کھرے کھوٹے فن پارے کی پہچان ہوتی ہے آج کل تنقید نگاری کے بجائے تبصرے لکھے جا رہے ہیں اس وقت ناراضی کے خوف سے لوگوں نے سچ بولنا چھوڑ دیا ہے۔

جسارت میگزین: آپ کے نزدیک سادہ کاغذ پر اصلاح دینا کیسا ہے؟

فیروز ناطق خسرو: سادہ کاغذ پر اصلاح دینا جرم ہے میں سادہ کاغذ پر اصلاح کے سخت خلاف ہوں اس سلسلے میںبہت سے شعرا اور شاعرات سے معذرت کر لیتا ہوں ایسا کرنا گھاٹے کا سودا ہے دکھ اس بات کا ہے کہ بہت سے شعرا سادہ کاغذ پر اصلاح دے کر متشاعروں کو جنم دے رہے ہیں‘ بہت سے ضرورت مند شعرا سادہ کاغذ پر اصلاح ضرورتاً دے کر اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔

جسارت میگزین: اردو ادب پر الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے کیا اثرات ہیں؟

فیروز ناطق خسرو: شعر و ادب کی ترویج و اشاعت میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ الیکٹرونک میڈیا پر بہت سے اینکرز اردو کے الفاظ صحیح طور پر ادا نہیںکرتے جس کی وجہ سے اردو زبان متاثر ہو رہی ہے ہمارے بچے غلط تلفظ سیکھ رہے ہیں۔ اس کا تدارک ضروری ہے ایک زمانہ وہ بھی تھا جب لوگ ٹی وی اور ریڈیو کے میزبان کی اردو سن کر تلفظ ٹھیک کر لیا کرتے تھے۔ اخبارات بھی اردو ادب کی خبروں کی ترویج سے گریزاں ہیں۔

جسارت میگزین: آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟

فیروز ناطق خسرو: ادب برائے زندگی ہے یہ میرا نظریۂ ادب ہے کیوں کہ شاعری کا ہر موضوع زندگی سے جڑا ہوتا ہے۔ میرے نزدیک ادب کا سب سے بڑا موضوع انسان‘ زندگی اور کائنات ہے۔ انسانی سوچ وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا لہٰذا ہر شاعر موجودہ عہد کو لکھتا ہے اس کا اندازِ فکر بدلتا رہتا ہے ہر شاعر اپنے معاشرے کا سفیر ہوتا ہے‘ وہ سچ لکھتا ہے جھوٹ سے پرہیز کرتا ہے کہ یہ شاعری کا نصاب ہے‘ زمانہ سب سے بڑی ادبی تحریک ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

جسارت میگزین: مشاعرے اور تنقیدی نشستیں ادب میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟

فیروز ناطق خسرو: مشاعرے ہماری روایت کے آئینہ دار ہیں‘ ہر زمانے میں یہ ادارہ موجود رہا لیکن وقت و حالات کے سبب مشاعروں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ مشاعرے بھی ذہنی آسودگی کا سبب ہوتے ہیں‘ تنقیدی نشستوں سے معیاری ادب پروان چڑھتا ہے۔

جسارت میگزین: ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر کیا اثرات مرتب کیے؟

فیروز ناطق خسرو: ترقی پسند تحریک نے تنقید کو بہت آگے بڑھایا‘ افسانے کو بھی مالا مال کیا۔ زندگی سے جڑے ہوئے مسائل کو شاعری کا حصہ بنایا۔ ترقی پسند تحریک نے شاعری کو نئے نئے موضوعات دیے نظم گوئی کے فروغ میں بھی ترقی پسند تحریک کا ہاتھ ہے۔

جسارت میگزین: آپ کی نظر میں اردو زبان کا مستقبل کیا ہے؟

فیروز ناطق خسرو: اردو ایک عالمی زبان ہے اور پاکستان کی قومی زبان ہے۔ اردو کا مستقبل تابناک ہے یہ تمام تر مشکلات کے باوجود زندہ رہے گی اس زبان کو سرکاری زبان بنانے کے لیے عدالتی احکامات موجود ہیں لیکن کسی بھی حکومت نے اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیںکیا۔ اردو زبان کا کسی بھی علاقائی زبان سے کوئی جھگڑا نہیںہے علاقائی زبانوں کی ترقی سے اردو کا مستقبل وابستہ ہے۔

جسارت میگزین: آپ ماہر تعلیم بھی ہیں‘ آپ کے نزدیک معیارِ تعلیم بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟

فیروز ناطق خسرو: کسی حکومت نے بھی تعلیمی شعبے کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ تعلیم قومی ترجیحات میں تیسرے درجے پر بھی نہیں رہی۔ تعلیم ہمار اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔

جسارت میگزین: ادبی گروہ بندیوں کے بارے میں آپ کا خیال ہے؟

فیروز ناطق خسرو: نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری چند نامی گرامی شخصیات نے ایک عرصے سے اپنے آپ کو مرکز و محور بنا کر اپنے الگ الگ قبیلے اور گروہ بنا رکھے ہیں صرف اپنے قبیلے یا گروہ میں شامل افراد کی ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا گو‘‘ کے مصداق مسلسل تعریف اور توصیف میں مصروف ہیں یہ ادب کی خدمت نہیں ہے بلکہ ادب کو نقصان ہو رہا ہے۔ گروہ بندیوں میں مصروفِ عمل افراد کی توانائی کے بجائے منفی سمت میں جا رہا ہے۔ بحیثیت پاکستان بھی ہم بے شمار مسائل کا شکار ہیں‘ ہم متحد ہو کر ہی اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں۔

جسارت میگزین: الیکٹرونک میڈیا کی یلغار نے ادب کو کس حد تک متاثر کیا ہے؟

فیروز ناطق خسرو: ادب کے حریفوں میں ریڈوی‘ ٹی وی اور اخبارات شامل ہیں لیکن ٹی وی کی ہمہ گیریت اور مقبولیت کے باوجود بھی ادب کی حیثیت کمزور نہیں ہوئی کتاب پڑھنے والا آج بھی کتاب پڑھتا ہے جو تسکین کتاب پڑھ کر ہوتی ہے وہ ٹی وی دیکھ کر ممکن نہیں۔ کتاب آپ کا بہترین ساتھی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے گلی محلوں میں لائبریریاں قائم تھیں اور کتابیں پڑھی جا رہی تھیں اب یہ نظام نہیں ہے تاہم ڈائجسٹ ادب کی خدمت کر رہے ہیں یہ آج بھی فروخت ہو رہے ہیں۔ جب کوئی کتب میلہ لگتا ہے تو بے شمار دکانوں پر کتابیں فروخت ہوتی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ادب دوست زندہ ہیں۔

جسارت میگزین: نعت گوئی کے بنیادی تقاضے کیا ہیں؟

فیروز ناطق خسرو: نعت گوئی کا مرکز و محور ہمارے رسول حضرت محمدؐ ہیں۔ نعت نگاری میں ایک طرف سیرت ِ مصطفی اور جمالِ مصطفی بیان کیے جاتے ہیں تو دوسری طرف ملتِ اسلامیہ کو درپیش عصری مسائل‘ عالمی واقعات و حالات بیان کیے جاتے ہیں یہ بات یقینی ہے کہ اسوۂ رسول کی پیروی میں ہماری نجات ہے۔ نعتیہ ادب میں پی ایچ ڈی ہو رہی ہے‘ تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے‘ عشق رسول کے بغیر نعت نہیں ہو سکتی۔ نعتیہ ادب کی ترویج و اشاعت جاری ہے نعت میں غلو نہیں چلتا جب کہ غزل میں غلو کی گنجائش ہے۔ ہر نعت گو شاعر کو اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ نعت اب صنفِ سخن میں شامل ہے نعت میں تنقیدی گنجائش بھی نکلتی ہے۔

 

غزلیں/فیروز ناطق خسرو

جب ہوا خنجر چلائے گی ثمر کٹ جائیں گے
ناتواں شانوں پہ جو رکھے ہیں سر کٹ جائیں گے
کچھ اِدھر کٹ جائیں گے اور کچھ اُدھر کٹ جائیں گے
معتبر رہ جائیں گے نا معتبر کٹ جائیں گے
جو کھڑے ہیں اپنے پیروں پر وہ ہوں گے سر بلند
ڈھونڈھتے ہیں جو سہارے وہ شجر کٹ جائیں گے
پل کے پل میں فیصلہ کر دے گی اک اونچی اُڑان
ٹوٹ جائے گا قفس یا بال و پر کٹ جائیں گے
کس نے سوچا تھا کہ منزل پر پہنچ جانے کے بعد
راستے ہوں گے جدا اور ہم سفر کٹ جائیں گے
اوڑھتے ہیں اپنی پرچھائیں کو ہم یہ سوچ کر
دوپہر کی دھوپ میں یہ دو پہر کٹ جائیں گے
ہو گئی چلتے ہوئے اک عمر بے سمت و نشاں
ہوش تب آئے گا جب شام و سحر کٹ جائیں گے
غم نہ کر خسروؔ ترا فن بھی یوں ہی لے گا خراج
انگلیاں ہوںگی قلم دستِ ہنر کٹ جائیں گے
٭
جس رخ وہ ہوا‘ عکسِ رخ یار ہوا میں
ساتھ اس کے چلا آئنہ بردار ہوا میں
آنکھوں کو ہتھیلی پہ دھرے اُس کے حضوری
دل رہن رکھا طالبِ دیدار ہوا میں
دل موم کیا پیار سے‘ اخلاص سے پہلے
پھر اُس کے لیے ریت کی دیوار ہوا میں
جس روز زمانے نے مرے دام لگائے
وہ دن تھا کہ جب اپنا خریدار ہوا میں
ہیں تیرے در و بام مرے پائوں کی زنجیر
کب عشق میں اوروں کے گرفتار ہوا میں
آیا ہوں کئی بار میں خود اپنے مقابل
دشمن کی طرح برسر پیکار ہوا میں
گھائل میں ہوا‘ اپنے ہی الفاظ سے خسروؔ
نشتر کبھی‘ خنجر کبھی تلوار ہوا میں
٭

حصہ