آصف جیلانی اب ہم میں نہیں رہے

441

اردو صحافت کا روشن ستارہ اور اس کو اعتماد اور وقار دینے والے بی بی سی اردو سروس کے آصف جیلانی کے انتقال کی خبر نے بڑا افسردہ کردیا۔ وہ اپنے پیچھے ایک وسیع حلقہ احباب اور بڑے خاندان کو سوگوار اور ماتم گسار چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کی لغزشوں اور کوتاہیوں سے درگزر کرے۔ ان کی وفات سے ہم ایک بہترین دوست اور ہمدرد بھائی سے محروم ہوگئے۔ ان کا انتقال پاکستان کی صحافی برادری کا بھی بڑا نقصان ہے۔

ان کے انتقال کی خبر ہم نے پیر کی صبح اپنے دوست عطا محمد تبسم کی فیس بک پر پڑھی تو یقین نہ آیا، ان سے فون پر خبر کا ذریعہ معلوم کیا تو انہوں نے اکرم قائم خانی کا حوالہ دیا، لیکن ہمیں کسی اور ذریعے سے اس کی تصدیق نہ ہوسکی۔ ہم نے تصدیق کے لیئے لندن اپنے کلاس فیلو اور روزنامہ جنگ لندن کے سابق ایڈیٹر برادرم ظہور نیازی، بی بی سی کے کاشف قمر اور جعفر رضوی کو کئی بار فون کیے لیکن ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔ ظہور بھائی کو صوتی پیغام بھی چھوڑا لیکن اس کا بھی کوئی جواب نہ آیا۔ آج بروز منگل 4 اپریل کو فیس بک پر بی بی سی کے جناب رضا علی عابدی کی ایک پوسٹ سے تصدیق ہوگئی کہ ہمارے بزرگ دوست آصف جیلانی اب ہم میں نہیں رہے۔ رضا علی عابدی بھائی نے ان کی اردو صحافت اور بی بی سی کی اردو سروس میں ان کی خدمات پر شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔

جناب آصف جیلانی نے ایک کامیاب ترین صحافی اور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے بھرپور زندگی گزاری۔ وہ آسمانِ صحافت پر 69 برس تک چھائے رہے اور اپنے دور میں بہترین نامہ نگار، مقبول کالم نگار، دو اخبارات روزنامہ جنگ لندن اور روزنامہ ملت کے ایڈیٹر رہے اور بی بی سی جیسے نشریاتی ادارے میں نامور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ وہ ایک سرگرم اور عامل صحافی کے طور پر پاکستان کے سینئر ترین صحافی اور عالمی شہرت کے حامل براڈ کاسٹر اور کالم نگار تھے۔ انہوں نے بہت کم عمری میں اپنی پسند سے صحافت کے پیشے کو اختیار کیا، اور جب تک ان میں لکھنے کی سکت رہی وہ پاکستان، امت مسلمہ اور عالمی حالات پر کالم لکھتے رہے جو پاکستان اور بھارت کے اخبارات اور سوشل میڈیا کی مختلف نیوز ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہے۔ ان کی ملکی سیاست اور اسلامی ممالک کے حالات اور بڑی طاقتوں کی کشمکش پر گہری نظر تھی اور وہ اس پر بڑا متوازن تجزیہ پیش کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز 1954ء میں 18 سال کی عمر میں روزنامہ امروز سے کیا۔ صحافت کے ہر شعبے مختصر خبر نگاری، رپورٹنگ اور مضمون نگاری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور صحافتی حلقوں میں اپنی پہچان بنالی۔

روزنامہ جنگ کے مالک اور ایڈیٹر انچیف میر خلیل الرحمٰن صحافتی میدان کے بڑے جوہرشناس تھے، جو ہمیشہ اپنے اخبار کے لیے اچھے اور لائق سب ایڈیٹرز اور رپورٹرز کی تلاش میں رہتے تھے اور ایک سے ایک باصلاحیت اور لائق اخبار نویسوں کو اپنے اخبار کی صحافتی کہکشاں میں مسلسل جمع کررہے تھے۔ میر صاحب ان کو جنگ کے ادارے میں شامل کرکے طبع آزمائی کا موقع فراہم کرتے تھے۔ اسی تلاش کے دوران ان کی نگاہِ انتخاب آصف جیلانی پر پڑی تو ان کو جنگ میں لے آئے۔ اُس وقت سید محمد تقی، رئیس امروہوی، انعام نبی پردیسی، یوسف صدیقی، انعام عزیز، اطہر علی، استاد نازش حیدری اور ارشاد احمد چغتائی جیسے منجھے ہوئے صحافی اور ایڈیٹر پہلے سے موجود تھے۔ ان کی جنگ میں آمد سے جنگ کے صحافیوں کی کہکشاں میں ایک اور روشن ستارے کا اضافہ ہوا اور وہ مزید درخشاں ہوگئی۔ انہوں نے پاکستان، ہندوستان اور برطانیہ تک کے اردو بولنے والوں کو اپنی صحافت سے فائدہ پہنچایا۔

پاکستان میں اکتوبر 1958ء کے ایوب خان کے مارشل لا کے زمانے میں محترم میر خلیل الرحمٰن نے محسوس کیا کہ پڑوسی ملک ہندوستان میں اخبار کی نمائندگی وقت کی ضرورت ہے، چنانچہ انہوں نے آصف جیلانی کو 1959ء میں نئی دہلی میں پاکستان کا نمائندہ مقرر کیا۔ یہ کسی بھی صحافی کے لیے ایک بڑا اعزاز تھا جو 23 سال کے نوجوان آصف جیلانی کو حاصل ہوا۔ میر صاحب نے ان کا انتخاب اس لیے بھی کیا کہ آصف جیلانی کا خاندان تقسیم سے قبل دہلی میں تھا اور ان کی تعلیم وتربیت جامعہ ملیہ دہلی میں ہوئی تھی، اور وہ دہلی شہر سے واقفیت رکھتے تھے۔ انہوں نے دشمن ملک کے صدر مقام نئی دہلی میں جنگ جیسے بڑے اخبار کی نمائندگی کا حق ادا کردیا۔ ان کے اُس زمانے کے مکتوباتِ دہلی اور ان کی خصوصی خبروں کا انتظار کیا جاتا تھا، اور وہ پاکستان اور ہندوستان کے باہمی تعلقات اور ہندوستان کے مسلمانوں کے حالات جاننے کا بہت بڑا ذریعہ تھیں۔ ان کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا اور جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ستمبر 1965ء میں جنگ چھڑی تو ان کو گرفتار کرلیا گیا اور وہ ایک ماہ تک تہاڑ کی اُسی جیل میں رہے جہاں شہیدِ کشمیر مقبول بٹ کو 11 فروری 1984ء کو کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔ان کو بقول ان کے اس جیل میں قصوری چکی کی مشقت، کلاس سی اور بی جیسی ساری کلاسوں کی جیل بھی کاٹنی پڑی۔

تاشقند معاہدے کے نتیجے میں جنگ کے خاتمے پر ان کی رہائی صحافیوں کے تبادلے کے نتیجے میں عمل میں آئی، وہ پاکستان آئے اور چند ماہ بعد ہی جنگ کے نمائندے کی حیثیت سے لندن چلے گئے۔ اسی دوران وہ یکم دسمبر 1965ء کو بی بی سی اردو سروس میں شامل ہوگئے اور نیوز کاسٹر کی حیثیت سے کام شروع کردیا۔ بی بی سی جیسے ابلاغ عامہ کے بین الاقوامی ادارے میں اس پوزیشن کی ملازمت کو اُس زمانے میں بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ وہ بی بی سی میں خبروں کی پیش کش کے ساتھ ساتھ اس کا حالاتِ حاضرہ کا مشہور پروگرام ”سیربین“ بھی پیش کرتے تھے۔ انہوں نے یہاں بھی اپنے شاندار صحافتی کیرئیر کی طرح ایک نئے برقی میڈیم میں اپنے پروگرام کے ذریعے آواز کا جادو جگایا۔ ان کا یہ پروگرام بڑا مشہور تھا اور پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر میں اردو دان طبقے میں باقاعدگی سے سنا جاتا تھا، کیوں کہ اُس زمانے میں پاکستان اور ہندوستان میں خبروں کے حصول کے ذرائع وائس آف امریکہ، بی بی سی اور ڈوئچے ویلے جرمن کی اردو سروس جیسے عالمی نشریاتی ادارے ہی تھے۔ وہ برسوں اس ادارے سے وابستہ رہے اور اپنے علم اور تجربے کے موتی رولتے رہے۔

1973ء میں میر خلیل الرحمٰن نے ایک بار پھر ان کی خدمات حاصل کیں اور ان کو جنگ لندن کا ایڈیٹر بنایا جہاں وہ 10 سال تک خدمات انجام دیتے رہے۔ جنگ سے علیحدگی کے بعد وہ روزنامہ ملت کے ایڈیٹر ہوئے اور بہت عرصہ اس عہدے پر کام کرتے رہے اور حالاتِ حاضرہ پر مسلسل کالم بھی لکھتے رہے۔ اخبارات اور بی بی سی کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے لکھنا ترک نہیں کیا، اور باقاعدہ کالم نگاری کرتے رہے۔ وہ اپنے کالم فیس بک پر بھی پوسٹ کرتے تھے۔ فیس بک پر ان کا آخری کالم 7 جنوری 2022ء کا ہے جو روزنامہ جسارت میں شائع ہوا۔اس کا عنوان تھا” انتخابات کی بھول بھلیوں میں کھو گیا کارواں اپنا“۔ کیا خوبصورت عنوان ہے کالم کا جو انہوں لکھا تو 7جنوری 2022ء کو تھا لیکن وہ آج کل کے پاکستان کے حالات سے کس قدر مطابقت رکھتا ہے۔

ہماری ان کے ساتھ محبت بھری نیاز مندی کا تعلق 1980ء میں قائم ہوا لیکن ان کا غائبانہ تعارف ایک بڑے صحافی کے طور پر 1970ء سے تھا، اور جنگ میں ان کے مکتوبِ دہلی اور خبریں پڑھتے رہتے تھے۔ 1980ء میں ان سے تعلق رابطہ عالم اسلامی مکہ کی وجہ سے ہوا جو اسلامی ملکوں کے اسلامی رجحانات رکھنے والے صحافیوں کی ایک بڑی کانفرنس انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں منعقد کررہی تھی۔ رابطہ نے پاکستان سے ہمیں مدعو کیا تھا اور ہمیں یہ اختیار دیا تھا کہ ہم پاکستان کے چار اور صحافیوں کو بھی اپنے وفد کا حصہ بنائیں۔ ہم نے پاکستان سے اردو ڈائجسٹ کے مدیر اعلیٰ الطاف حسن قریشی، ہفت روزہ تکبیر کے مدیر محمد صلاح الدین اور روزنامہ جنگ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر سید محمود احمد مدنی اور برطانیہ سے آصف جیلانی کو شامل کیا۔ یہ کانفرنس جکارتہ میں منعقد ہوئی اور صدر جنرل سہارتو نے اس کا افتتاح کیا۔ یہ کانفرنس دو دن جاری رہی اور اس کے بعد ہم پانچوں نے سنگاپور، تھائی لینڈ اور ملائشیا کا بھی دورہ کیا اور ہمیں ایک ماہ تک ایک ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ ایک ماہ کا یہ دورہ ہماری زندگی کا بڑا یادگار سفر ہے۔ اس سفر کے دوران ہمیں ان چاروں بڑے صحافیوں اور صحافتی برادری کے قائدین سے سیکھنے اور ساتھ وقت گزارنے کے قیمتی لمحات میسر آئے۔ اس سفر میں ہم جہاں بھی گئے آصف جیلانی کے اندر کا صحافی اور رپورٹر خبر کی تلاش میں سرگرداں رہا، اور وہ ہر روز کوئی نہ کوئی خبر لندن میں اپنے اخبار کو بھیجتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی آدمی کو پہچاننا ہو تو اس کے ساتھ سفر کیا جائے یا لین دین کا معاملہ کیا جائے۔ ہم نے اس سفر میں چاروں بزرگوں الطاف حسن قریشی، محمد صلاح الدین، سید محمود احمد مدنی اور آصف جیلانی کو بڑا ہمدرد، ایک دوسرے کا خیال رکھنے والا اور بڑی خوبیوں کا حامل پایا۔ ہم چوں کہ سب سے چھوٹے تھے، اس لیے ہر ایک ہمارا زیادہ خیال کرتا تھا اور ان میں سے ہر بزرگ ہماری ضرورتوں کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے۔

آصف جیلانی کا تعلق برصغیر کے ایک بڑے علمی گھرانے سے تھا۔ والد اور والدہ دونوں علی گڑھ سے تعلیم یافتہ تھے اور جامعہ ملیہ دہلی میں پروفیسر تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت اسی علمی گھرانے اور دہلی کی ایک بڑی یونیورسٹی ”جامعہ ملیہ“ میں بڑے بڑے علماء اور ماہرینِ تعلیم کی صحبت میں ہوئی۔ آصف جیلانی اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”میں نے آنکھ مسلم قوم پرست تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کھولی جہاں میرے والد اور والدہ دونوں تدریس سے منسلک تھے۔ میں اپنے آپ کو بے حد خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میری پرورش اس ادارے میں ہوئی جو ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر محمد مجیب، ڈاکٹر عابد حسین، مولانا اسلم جیراج پوری اور کیلاٹ صاحب جیسے ممتاز ماہرین تعلیم اور دانشوروں کی کہکشاں سے درخشاں تھا۔“ ان کے مطابق جب پاکستان بنا تو وہ ساتویں جماعت میں تھے اور ان کی عمر 11 سال تھی۔ اس لحاظ سے ان کی پیدائش کا سال 1936ء اور انتقال کے وقت ان کی عمر 89 سال تھی۔ آصف جیلانی کی اہلیہ محسنہ جیلانی بھی مشہور شاعرہ اور ادیبہ ہیں جو کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔آصف جیلانی کی دو کتابیں چھپ چکی ہیں جن کے نام ”وسط ایشیا،نئی آزادی،نئے تقاضے “اور”ساغر شیشے لعل و گہر “ ہیں۔ان کے کالموں اور تحریروں کو اگر جمع کیا جائے تو ان کے درجنوں مجموعے بن سکتے ہیں۔

حصہ