رب البر اور بندہ زر

384

رمضان شروع ہوئے دو ہفتے ہوچکے تھے لیکن استقبالِ رمضان کے درس کے الفاظ رہ رہ کر مسز فاروق کے ذہن میں گونجتے رہتے تھے۔ وہ ایک مہینہ قبل ہی اپنے شوہر، ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کے ساتھ آسیہ صاحبہ کے پڑوس میں آئی تھیں۔ درس میں تو وہ پہلے بھی شریک ہوا کرتی تھیں لیکن آسیہ کے درس نے انہیں بہت متاثر کیا تھا کہ وہ بہت دیر تک اس کے الفاظ کے گھیرائو میں رہی تھیں۔ الفاظ کتنے ہی عام ہوں مگر بقول شاعر ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘۔

آسیہ کے دل میں علم کا نور تھا،اس کی بات دلوں پر اثر کیسے نہ کرتی!
’’چاند نظر آگیا‘‘۔ سنبل زور سے چلاّئی۔
’’کدھر ہے؟‘‘ ارمان نے اِدھر اُدھر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے وہ رہا‘‘۔ سنبل آسمان پر نظر آتے کھجور کی شاخ کی طرح باریک چاند کی طرف انگلی کیے زور زور سے کہہ رہی تھی۔
مسز فاروق کا پورا کنبہ چاند دیکھنے کے لیے چھت پر آکھڑا ہوا تھا۔ مسز فاروق نے مڑ کر آسیہ کے گھر کی چھت کو دیکھا۔ وہاں ان کی چھوٹی بیٹی اور دونوں بیٹے کھڑے تھے۔ بڑے بھائی نے کچھ کہا اور پھر سب کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے۔
مسز فاروق کو یاد آیا آسیہ درس دیتے ہوئے کہہ رہی تھی ’’دعا اللہ کی طرف سے بہترین تحفہ ہے۔ اس نے اپنے بندوں کو یہ حق دیا کہ اس سے مانگیں۔ اور اسے یہ سب سے زیادہ محبوب ہے کہ بندہ اس سے مانگے، اور یقینا وہ اسے عطا کرتا ہے۔ اسی لیے دعا کو عبادت کہا گیا ہے، یہ بندے کو رب سے جوڑتی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’تمہارا رب مالکِ حیا و کرم ہے، بندہ اس کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے اور وہ انھیں خالی چھوڑ دے، اس سے وہ اپنے بندے سے حیا فرماتا ہے۔‘‘ (ترمذی، ابو دائود)

اسی لیے ہر موقع کی مناسبت سے احادیث کے ذریعے ہمیں دعائیں سکھا دی گئی ہیں تاکہ بندے کا اپنے رب سے تعلق جڑا رہے۔ ارشادِ نبویؐ ’’تم میں سے جس کسی کے لیے دعا کا دروازہ کھولا گیا اُس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے۔ اللہ سے جس چیز کی دعا مانگی جائے ان سب میں بہتر خیر و عافیت کی دعا ہے۔‘‘

لہٰذا نئے مہینے کا چاند دیکھ کر اس طرح دعا مانگنی چاہیے ’’اے اللہ! اس چاند کو ہم پر برکت کے ساتھ اور ایمان و سلامتی اور اسلام اور اُس چیز کی توفیق کے ساتھ نکال جس سے تُو راضی ہوتا ہے اور پسند کرتا ہے۔ (اے چاند) تیرا اور میرا رب ایک ہے۔‘‘

’’جلدی چلو! ڈراما شروع ہونے والا ہے۔‘‘ عنبر کی آواز نے مسز فاروق کی سوچوں کے تسلسل کو توڑا تو وہ چونکیں۔ ’’کون سا ڈراما؟‘‘انہوں نے اپنی بیٹی سے سوال کیا۔

’’وہی جو دکھا رہے تھے رمضان اسپیشل، ہر رات پورا رمضان۔‘‘ سنبل نے کہا اور پھر تینوں بہن بھائیوں نے تیزی سے نیچے کا رخ کیا۔

مسز فاروق البتہ وہیں کھڑی رہ گیئں۔ مڑ کر پھر سے چاند کو دیکھا ’’ایمان اور اسلام…کیا تم نے کبھی مانگا؟‘‘ ضمیر نے سوال کیا۔

’’نہیں۔‘‘ دل نے جواب دیا۔

’’پھر تمہارے لیے یہ رب کی رضا لے کر کیسے آسکتا ہے؟‘‘ ضمیر نے شرمندہ کیا۔
’’اے چاند تیرا اور میرا رب ایک ہے۔‘‘ دل نے تڑپ کر کہا۔ چاند البتہ خاموش رہا۔

رحمتیں اور برکتیں لے کر رمضان پہنچ چکا تھا، اپنے ساتھ ایک کا بدلہ ستّر گنا لیے۔ ہر طلب کرنے والے کے لیے، ہرتڑپ رکھنے والے کے لیے۔ مگر مسز فاروق کو اپنے گھر میں ایسا کوئی نور محسوس نہیں ہورہا تھا۔ ان کے گھر میں بس سحری اور افطاری آئی تھی، رحمت اور برکت کہیں پیچھے رہ گئی تھی۔ ہر طلب گار کو ملتا ہے وہ جو اُس نے طلب کیا ہو۔

ہر سال کی طرح ان کے گھر کی روٹین اس رمضان میں بھی وہی تھی۔ رمضان نشریات، انعامی پروگرام اور ماہِ رمضان کے لیے خصوصی ڈرامے جن کا دور دور تک رمضان سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ جو مختلف تھا وہ تھی ان کی سوچ، فکرمند…الجھی ہوئی… اور انجام سے خوف زدہ۔

مسز فاروق کی دونوں بیٹیاں لائونج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں جب کہ وہ خود باورچی خانے میں تھیں۔

اچانک ان میں سے ایک چلاّئی ’’ماما! یہ دیکھیں ٹرانسمیشن میں آج کون آیا ہے۔‘‘
وہ جو پیاز کاٹ رہی تھیں، آواز پہ چونکیں، پھر پیاز وہیں رکھی اور لائونج میں آکر پوچھا ’’کون آیا ہے؟‘‘

ان کی بیٹی ٹی وی میں نظر آتے ایکٹر کی طرف اشارہ کرکے اس کا نام اور بایو ڈیٹا بتا رہی تھی جس کو بطور مہمان اس رمضان کے پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا۔

آسیہ کا درس پھر سے یاد آیا تھا۔جب شاید اُس سے کسی نے ان پروگراموں کے بارے میں سوال کیا تھا۔ تب اس نے کہا کہ ’’کئی سال سے ہمارے ہاں رمضان نشریات اور انعامی شوز کا آغاز کیا گیا ہے اور عوام اس کو ثواب کی نیت سے دیکھتے ہیں۔ جب کہ ان کے اپنے لیے یہ بزنس ہے، اس میں آنے والے اداکاروں کو اسلامی لباس اور دینی باتیں کرتے دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں جس سے ان چینلز کی ریٹنگز بڑھتی ہیں، پیسہ بڑھتا ہے۔

مسئلہ یہ نہیں کہ وہ لوگ اچھی باتیں بتا رہے ہیں، ہر مسلمان پر فرض ہے کہ جب وہ اچھی بات سنے یا سیکھے تو اسے آگے پہنچائے۔ لیکن ہمارا دین مستقل عمل کو پسند کرتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں دین سکھانے والے باقی مہینوں میں کیا اعمال کررہے ہیں؟ کیا باقی مہینوں میں اللہ کی طرف سے اعمال کی کتابیں بند کردی جاتی ہیں؟ اور باقی مہینوں کی بات چھوڑیں اسی نشریات میں کچھ وقت دین کی بات کرنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اداکاروں کے کام اور ان کی داستانِ حیات پر بات۔ جیسے محمد بن قاسم یا صلاح الدین ایوبی ہوں کوئی۔ شعر و شاعری، طنز و مزاح اور بے کار کھیل تماشے۔ آپ بتایئے ایسا کون سا عمل ہے ان میں، جو رمضان کے تقدس کے مطابق ہوتا ہے اور اس پر اجر و ثواب اور رب کی خوشنودی کی امید لگائی جاسکے؟ اور وہاں موجود علما وہ تمام چیزیں خاموشی سے بیٹھے دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر کچھ نہیں کہتے۔ یہی مسئلہ ہے۔ ہم نے کہنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘

مسز فاروق آسیہ کی باتوں سے اُس وقت باہر آئیں جب ان کی کام والی نے انہیں آواز دی ’’بی بی جی!‘‘
وہ چونکیں ’’ہاں… کہو۔‘‘

’’بی بی جی وہ آپ کو بتایا تھا کہ میرے بیٹے کی طبیعت بہت خراب ہے… ڈاکٹر کو دکھایا تھا۔ دوائی بھی لی تھی مگر وہ ٹھیک نہیں ہوا۔ اللہ جانے کیا ہوگیا ہے؟ اب ڈاکٹر نے ٹیسٹ کروانے کو کہا ہے، میں کہہ رہی تھی کہ اگر آپ اس مہینے تنخواہ کے ساتھ کچھ اور پیسے دے دیں…‘‘ اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اچانک مسز فاروق کا بیٹا جو کہ تھوڑی دیر پہلے آکر بیٹھا تھا، بول پڑا ’’ارے سکینہ! تم اس رمضان ٹرانسمیشن میں چلی جائو، انہیں اپنا مسئلہ بتائو وہ تمہیں بہت پیسے دیں گے۔‘‘

’’نہیں صاحب! پوری دنیا میں تماشا بنا دیتے ہیں… بھکاری نہیں ہوں، عزت سے کماتی ہوں۔‘‘

بات تو اس نے صحیح کہی تھی۔ انسان امیر ہو یا غریب، عزتِ نفس ہر ایک کی ہوتی ہے۔ مسز فاروق یاد کرنے لگیں، آسیہ کی آواز ایک بار پھر ان کی سماعتوں میں گونجی:

’’ہمارا دین کہتا ہے اللہ کی راہ میں اس طرح خرچ کرو کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں کو خبر نہ ہو۔ یہ اس لیے کہا گیا کہ انسان کا عمل خالص اللہ کے لیے ہو۔ اس کے دل میں عجز و انکسار پیدا ہو، اور لینے والے کی بھی عزتِ نفس مجروح نہ ہو، وہ بھی عزت کے ساتھ معاشرے میں سر اٹھا کر جیے۔‘‘

لیکن آج میڈیا کیا کر رہا ہے! کسی کی مصیبت اور پریشانی کا تماشا بنا کر اس کی عزتِ نفس کو مجروح کررہا ہے بلکہ ختم ہی کردیتا ہے۔ بولی لگائی جاتی ہے لوگوں کے دکھ کی، اور مدد اس کی جھولی میں ڈال دینے پر لوگ تالیاں پیٹتے ہیں، اپنے ہی چینلز کے لیے تعریفوں کے پُل باندھے جاتے ہیں، ریٹنگز بڑھتی ہیں اور ان کا کام چلتا ہے۔ کیا ایسے پورا ہوتا ہے روزے کا مقصد؟

تقویٰ، پرہیزگاری، عجز وانکسار پانے کا یہ طریقہ ہے؟ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا یہ طریقہ ہے؟‘‘

’’بی بی جی!‘‘ سکینہ کی آواز نے آسیہ کے الفاظ کا راستہ روکا تو وہ بھی خیالوں سے باہر آئیں۔’’ہاں…‘‘ انہوں نے چونک کر پوچھا۔
’’وہ پیسے…‘‘ اس نے یاد دلایا ’’آپ آگے کے مہینوں میں میری تنخواہ سے کاٹ لینا۔‘‘ انکار کے ڈر سے اس نے تجویز پیش کردی۔
’’نہیں! ٹھیک ہے، میں دے دیتی ہوں پیسے۔‘‘ کمرے کی طرف جاتے ہوئے انہوں نے کہا اور پیسے لاکر اس کے ہاتھ میں رکھتے ہوئے بولیں ’’تمہیں یہ لوٹانے کی ضرورت نہیں، مزید ضرورت ہو تو بھی بتادینا۔‘‘
پیسے لے کر وہ مطمئن ہوگئی تھی اور انہیں دعا دینے لگی ’’اللہ آپ کو اچھا بدلہ دے،آپ سے راضی ہو…آمین۔‘‘
افطار کے بعد انعامی پروگرام شروع ہوجاتے تھے جو اُن کے بچے بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ اس وقت بھی گھر کے سارے افراد یہی پروگرام دیکھنے میں مصروف تھے جب مسز فاروق چائے کی ٹرے لیے لائونج میں داخل ہوئیں۔ ٹرے ٹیبل پر رکھی اور صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی کی جانب متوجہ ہوئیں جہاں میزبان گلا پھاڑ پھاڑ کر چلاّ رہا تھا، جب کہ لوگ اپنی نشستوں پر اس طرح اچھل رہے تھے کہ ابھی کوئی کہے ’’حملہ‘‘ اور وہ اسٹیج پر موجود اشیا پر پل پڑیں۔ ایک دم سے یہ منظر دھندلانے لگا۔ ایک بار پھر وہ آسیہ کے درس میں پہنچ گئیں جہاں وہ کہہ رہی تھی ’’اس میڈیا کو دیکھ کر یہ بھی لگتا ہے کہ شیطان صرف سحر اور افطار کے اوقات میں قید ہوتا ہے، اس کے بعد اسے کھول دیا جاتا ہے۔ لیکن اب انسان کو شیطان کی ضرورت ہی کہاں ہے! انسان تو اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گیا ہے۔ انسان کے فتنوں کو دیکھ کر اب تو شیطان بھی محو حیرت ہوگا کہ کس طرح انسان خدا کو بھی دھوکا دے رہا ہے یہ جانتے ہوئے کہ وہ سب جانتا اور دیکھتا ہے۔ افطار سے قبل لوگوں کا لباس اور انداز جتنا مہذب ہوتا ہے بعد از افطار اتنا ہی غیر مہذب۔ عجیب و غریب قسم کے کھیل کھیلے جاتے ہیں جن میں صرف انسان کی تذلیل کی جاتی ہے اور اس کے بدلے انعامات دیے جاتے ہیں۔ چیخ پکار اور بے حیائی عروج پر ہوتی ہے۔ ہماری نئی نسل اس سے کیا سیکھ رہی ہے؟‘‘
’’بابا!‘‘ سنبل کی آواز انہیں درس سے باہر لائی۔
’’ہاں جی…‘‘ فاروق صاحب جو اپنے فون میں مصروف تھے، فون سے نظر ہٹائے بغیر بولے۔
’’بابا! ہم بھی اس گیم شو میں چلیں۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘ بابا سے پہلے ماما نے پوچھا۔
’’اتنا سب کچھ ملتا ہے وہ بھی فری میں۔‘‘ وہ حسرت سے بولی۔
’’ہاں اور ہم بائیک بھی جیتیں گے۔ عنبر نے بھی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
’’اور وہ میں چلائوں گا۔‘‘ ارمان نے فوراً لقمہ دیا جو کہ عنبر کو پسند نہیں آیا۔
’’جی نہیں! اس پر میں اس ہوسٹ کے پیچھے بیٹھوں گی… جیسے وہ جیتنے والی سب لڑکیوں کو اپنے پیچھے بٹھا کر ہال کا چکر لگاتے ہیں۔‘‘ اس نے روانی سے جواب دیا۔ جس پر ماما نے چونک کر اور بابا نے فون سے نظر ہٹا کر اُسے دیکھا۔جب کہ عنبر ٹی وی کی جانب متوجہ ہوگئی۔
’’ہماری نئی نسل اس سے کیا سیکھ رہی ہے؟‘‘ آسیہ کا سوال ان کی سماعت میں گونجا جس کا جواب بھی انہیں آج عملی طور پر مل گیا تھا ’’ہماری نئی نسل اپنی اخلاقی اقدار، اپنی تہذیب، اپنے مذہب کو بھول رہی ہے۔ وہ سیکھ رہی ہے بے حیائی، بدتہذیبی، بد اخلاقی، کیوں کہ اس کے بدلے اسے انعامات سے نوازا جارہا ہے۔… ہماری نئی نسل سیکھ رہی ہے کہ عزتِ نفس کے بدلے دنیاوی آسائشوں کو اہمیت دی جائے، محنت کرنے کے بجائے مفت کی چیزوں کے لیے بے حیائی کرلی جائے تو اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے! نتیجہ یہ کہ ہماری قوم حیا اور غیرت سے عاری ہوگئی، علم و عمل سے دور ہوگئی دین سے دور ہوگئی، اسی لیے پوری دنیا میں بے وقعت ہوگئی ہے۔ شاعرِ مشرق نے درست فرمایا تھا ’’قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں‘‘۔
آج ہم بھی کہیں نہیں… ترقی کی کسی شاہراہ پر نہیں…کسی بلند مرتبے پر نہیں۔
وجہ یہ نہیں کہ برائی اور بے حیائی پھیلانے والے موجود ہیں اور اپنا کام مکمل جانفشانی سے کررہے ہیں۔ وہ تو موجود ہوں گے ہی۔ تاریخ گواہ ہے کہ حق کو مٹانے اور باطل کا ساتھ دینے والے ہر دور میں پیدا ہوئے ہیں۔ ضرورت ان کا سر کچلنے والوں کی ہوتی ہے، ان کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی، صحیح اور غلط کا فرق کرنے اور غلط کو غلط کہنے کا شعور اور ہمت رکھنے والوں کی، اور اس غلط کے خلاف جہاد کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ اور وجہ یہی ہے کہ ایسا کوئی موجود نہیں جو اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کرے… ’’جو آسیہ نے کہا تھا ٹھیک کہا تھا۔‘‘ مسز فاروق نے درد سے سوچا۔

حصہ