عدلیہ کا فرسودہ نظام

371

پتھر کے دور کا انسان زندگی گزارنے کے اصولوں سے واقفیت نہیں رکھتا تھا اس لیے انہیں جنگلی اور saveges کہہ کر پکارا گیا۔ یہ انفرادی زندگی گزارنے اور جینے کے عادی تھے۔ لیکن جوں جوں خاندان وجود میں آئے اور معاشرہ تشکیل پایا مختلف پیشے وجود آتے گئے تو قاعدے قوانین بھی وقت کے ساتھ مرتب ہوتے گئے۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے پیغمبر اور رسول بھیجے اور نظامِ زندگی کے لیے ہدایت کی کتابیں اور صحیفے نازل کیے۔ دنیا میں بادشاہوں اور حکمرانوں نے اپنے اپنے قوانین بنائے مگر جرائم کے سدباب کے لیے سخت سے سخت قوانین بنائے۔

دنیا کی ترقی شداد، نمرود اور فرعون جیسے خدائی کے دعویدار بھی پیوند خاک ہوئے، قیصر و کسریٰ کی حکومت اور چین کی حکومت کا ظہور ہوا‘ عرب کی سر زمین بت پرستی اور انسانیت کشی میں بے مثال بنی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد چھ صدیوں تک روئے زمین پر رہنے والا ہر انسان اک نجات دہندہ اور آخری رسول کا منتظر تھا۔ 671 عیسوی میں مکے کی سرزمین پہلوئے آمنہ سے اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہویدا ہوئے۔

انسان کا جسمانی وجود دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا Organs of the bodyدوسرا System of the body جسمانی عضو آنکھ، کان، ناک، ہاتھ پیر اور شرم گاہ پر مشتمل ہے جب کہ نظام جسمانی، نظام دوران خون، نظام تنفس، نظام انہضام اور نظامِ اخراج پر مشتمل ہے عضو کے بغیر انسان زندہ رہ سکتا ہے مثلاً لنگڑا، لولا، اندھا، گونگا، بہرا زندہ رہتا ہے مگر نظام جسمانی کی خرابی موت کا سبب بن جاتی ہے۔

اسی طرح کسی ریاست کا نظام، جو عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، فوج اور پولیس پر مشتمل ہے‘ بگاڑ کا شکار ہو جائے تو ریاست کی بقا خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے۔ عدلیہ کا کردار سب سے اہم ہے۔ ملک کا عدالتی نظام اگر طبقاتی اور جانبدارانہ فیصلہ کرنے لگے تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ پھر کسی بھی جرم کا سدباب ممکن نہیں ہوتا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر کافر کی حکومت ہے اور وہ انصاف بر مبنی ہے تو قائم رہے گی مگر مسلمان کی حکومت عدل سے عاری ہے تو برقرار نہیں رہ سکتی۔‘‘ بر صغیر میں انگریزوں نے انتظامی سہولتیں بہترین کیں مگر ہندوستانیوں کے لیے الگ قانون اور انگریزوں کے لیے الگ قانون رکھا جو استحصال بر مبنی تھا لہٰذا آزادی کی تحریکوں نے جنم لیا اور انگریز سرکار کو بھاگنا پڑا۔

مملکتِ خداداد پاکستان مسلم دنیا کا اہم اور ایٹمی صلاحیتوں والا ملک ہے۔ جس کا آئین اسلامی ہے جو بد قسمتی سے آج تک نافذ نہیں ہوسکا۔ اس ملک میں فوج کی براہ راست 35 سال کی حکمرانی کو عدلیہ کے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کی پشت پناہی حاصل رہی۔ ملک میں نام نہاد انتخابات اور دھاندلی زدہ جمہوریت اور بدعنوان حکمرانوں کی سرپرستی بھی ماضی و حال میں عدلیہ ہی کرتی رہی۔ کرپشن اور جنسی بے راہ روی کو عدلیہ کا تحفظ حاصل ہے جو ملک کو دولخت کرنے کے بعد بقیہ حصے کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہے۔ یہ واحد ملک ہے جس کے حکمرانوں اور جرنیلوں کی تمام دولت اور آرام گاہیں امریکہ اور یورپ کے ممالک میں ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان بھی ریٹائرمنٹ کے بعد یورپ یا امریکہ چلے جاتے ہیں۔ ریاست اور اس کے اداروں کی سرپرستی میں ہر طرح کے جرائم کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں سزائے موت پانے کے بعد سپریم کورٹ مجرم کو بے گناہ قرار دیتی ہے۔ مگر حکمرانوں بالخصوص عمران خان کی عرضی صبح کو دائر ہوتی ہے اور شام تک اس کے حق میں فیصلہ آجاتا ہے۔ اب تو حد ہو گئی ہے کہ جج صاحبان عمران خان کے لیے شام تک عدالتیں کھلی رکھتے ہیں اور لاڈلے کا انتظار کرتے ہیں۔ جج، جرنیل، بیوروکریٹ، حکمران، طاقتور وڈیرے جاگیردار سب مقدس گائے ہیں۔ قانون صرف اور صرف غریب اور کمزور عوام کے لیے ہے۔ ریاستی اداروں میں موجود ہر فرد طاغوتی طاقتوں کا آلۂ کار بن کر ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ ’’لے کے رشوت پھنس گیا ہے‘ دے کے رشوت چھوٹ جا‘‘ کے مصداق عام سی بات ہے۔

قمقمے جلتے ہوئے گوشت کی بو دیتے ہیں
اسپتالوں میں جراثیم نمو دیتے ہیں
خون بکتا ہے رگ تاگ کے ساتھ
عمداً زہر دیا جاتا ہے خوراک کے ساتھ
اسی منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے
جسم بکتا ہے ادب بکتا ہے فن بکتا ہے
قلم کی آبرو بکتی ہے دلہن کا چمن بکتا ہے
ملاؤں کے سجدے بکتے ہیں
پنڈت کا بھجن بکتا ہے
عدالت کے جج بکتے ہیں
رہنماؤں کا ضمیر بکتا ہے
یہ انسانوں کی منڈی ہے بابو جی تم کیا کیا خریدو گے
ایمل کانسی کو گرفتار کروانے والے شخص کو جب ایک امریکی اہل کار نے ڈالر دیے تو اُس سے پوچھا گیا کہ ’’اتنے ڈالر کیوں دیے‘ پاکستانی تو چند ڈالروں میں اپنی ماں کو بیچ دیتے ہیں۔‘‘ تو ہم پاکستانیوں کو بہت برا لگا تھا اور اس کے ردعمل میں ہم نے یہ کہا تھا کہ ’’امریکیوں کی اکثریت کو معلوم نہیں کہ اس کا باپ کون ہے؟‘‘ مگر مشرف نے پاکستان کی بیٹی عافیہ کو چند ڈالروں کے عوض بیچا اور پاکستان کی غیرت کا جنازہ نکال دیا۔ اور آج تک عدلیہ کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس کا محاسبہ کرتی۔ محاسبہ تو درکنار اُس آئین شکن کے موت کی سزا بھی معاف کر دی گئی۔
ہندوستان کی عدلیہ تو ہندوتوا کے ایجنڈے کا آلہ کار بن چکی ہے‘ مسلمانوں کا قاتل مودی ہو یا یوگی‘ سب کے سب پوتر ہیں۔ بابری مسجد کے خلاف فیصلہ دینے والا جج گورنر بنا دیا گیا۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد تو جماعت اسلامی کے ارکان کو پھانسی کی سزا سنانے کے لیے ججوں کو ماورائے قانون کا لائسنس جاری کر چکی ہے۔ یورپ کی عدالتوں میں آج بھی گوروں اور سیاہ فام کے لیے الگ الگ قانون ہے۔
مسلم دنیا میں جہاں بادشاہت ہے اور آمریت ہے وہاں عدل و انصاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون کے ساتھ ہونے والے عدالتی فیصلے جبر اور سفاکیت کے بدترین مثال ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ نام کی عورت جو قریش کے با اثر خاندان سے تعلق رکھتی تھی چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ صادر کیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو کوڑوں کی سزا دی۔ جہانگیر نے اپنی بیوی کو بہشتی کے قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائی جسے بہشتی کی بیوی نے معاف کر دیا۔
یہ تمام مثالیں ہمارے حکمران اور جج صاحبان دیتے ہیں مگر ایسا انصاف آج تک نظر نہیں آیا۔
ظلم پروردہ تادیب کے ایوانوں سے
بیڑیاں تکتی ہیں زنجیر صدا دیتی ہے
طاق تادیب سے انصاف کے بت گھورتے ہیں
مسند عدل سے شمشیر صدا دیتی ہے
مگر اے عظمت انساں کے سنہرے خوابوں
میں کسی تاج کے سطوت کا پرستار نہیں
میرے افکار کے عنوان ارادت تم ہو
میں تمہارا ہو ں لٹیروں کا طرف دار نہیں
ملک درست ہو جائے گا جب جج باضمیر اور انصاف کے عَلم بردار بن جائیں گے۔
اے روحِ عصر جاگ کہاں سو گئی ہے تو
آواز دے رہے ہیں پیامبر صلیب سے
اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار
بیمار اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے

حصہ