اپنی نسل کو تباہی سے بچائیں

شاید آپ نے بھی یہ خبر پڑھی ہو کہ شہر کے متمول گھرانوں کے سربراہوں نے اپنی اولاد کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے پرائیویٹ سراغ رسانی کے فرائض انجام دینے والے ریٹائرڈ پولیس افسران کی خدمات حاصل کرلی ہے۔ کراچی میں متمول گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بڑی تعداد مغرب کی نقالی میں اپنی ثقافت‘ مذہب اور روایات کو بھول کر بے راہ روی کا شکار ہوگئی ہے۔ کراچی میں منشیات کی فراوانی‘ جوئے اور سٹے کے اڈوں کی موجودگی نے جدیدیت کے شیدائی نوجوانوں کے لیے آسانی پیدا کر دی ہے۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں قائم جم خانے‘ رمی کلب‘ نشہ آور اشیا کی فراہمی سے ان کی زندگی میں رنگینیاں پید اہو گئی ہیں۔ ان نوجوانوں کی سرگرمیاں والدین کے لیے مختلف مسائل پیدا کر رہی ہیں۔

والدین بھی اولاد کی تباہی کے سو فیصد ذمہ دار ہیں۔ جدت اور جدیدیت کے شوق کے دلدادہ والدین بچوں کے مستقبل کو دائو پر لگا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں نشہ آور اشیا کا استعمال بڑھ گیا ہے‘ گھر سے باہر نکلنے والی لڑکی اور لڑکے کے والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا بچہ کہاں جا رہا ہے؟ لڑکیوں پر خصوصاً مائوں کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں دیکھنا چاہیے کہ لڑکیاں گھر سے کس حلیے میں نکل رہی ہیں۔

موجودہ زمانے میں میں لڑکیوں کی شادی ایک بڑا گمبھیر مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں تو مائوں کے فرائض اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔ بچہ جب بولنا سیکھتا ہے تو اسے قرآن سے تعلیم کی ابتدا کریں ’’اللہ‘‘ اور ’’قرآن‘‘ اگر اس کے رہبر ہوں تو پھر دنیا کا بڑے سے بڑے نشہ باز اس کو اپنے راستے پر نہیں چلا سکتا۔ نماز کی عمر میں اس کو نماز پڑھنا سکھائیں۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم انتہائی ضروری ہے جو صراطِ مستقیم پر لے جانے کا ذریعہ ہے۔ اسکول اور کالج جانے والے بچوں کی مائوں کو جاننا چاہیے کہ ان کے بچوں کے دوست کون ہیں؟ کس خاندان سے‘ کس محلے سے‘ کس طبقے سے ان کا تعلق ہے؟ والدین کی ذمہ داریاں آج کل بہت بڑھ گئی ہیں مگر والدین اپنے فرائض سے اتنا ہی زیادہ غافل نظر آتے ہیں۔ ان کو کھلایئے سونے کا نوالہ لیکن دیکھیں شیر کی نظر سے۔ آج کل کے ماں باپ بچوں سے حد سے زیادہ بے تکلف ہیں۔ حدِ ادب و احترام ختم ہو گیا ہے جو مسلمانوں کی تہذیب تھی۔ والدین کا احترام اولاد کی نظر میں کچھ نہیں کیوں کہ اولاد جانتی ہی نہیں کہ قرآن میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد والدین کی اطاعت و فرماں برداری کا حکم دیا گیا ہے۔ جن گھروں میں یہ احترام باقی ہے وہ گھرانے اب بھی بہت سارے معاشرتی مسائل سے بچے ہوئے ہیں۔ بڑوں کا ادب چھوٹوں سے شفقت و محبت اسلام کی دینی تعلیم ہے۔

دولت کی فراوانی اور اولاد کی سرکشی نے مسائل میں اور زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ ٹی وی میں فحاشی اور عریانی نے غیر اسلامی تہذیب کو بھی شرم سے منہ چھپانے پر مجبور کر دیا ہے۔ جو آواز اس کے خلاف بلند کرتا ہے۔ اس کو ملائیت‘ قدامت پسند کہہ کر طعنہ دیا جاتا ہے‘ اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ یہ سب مذہب سے دوری ہے۔

آیئے عہد کریں کہ ہم اپنی اولاد کی اسلامی خطوط پر تربیت کریں گے‘ اس کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کریں گے‘ ہم بچوں کی تعلیم کی ابتدا قرآن اور حدیث سے کریں گے‘ ان کو اسلامی لباس پہنائیں گے۔ بالغ لڑکیاں باپردہ تعلیم حاصل کریں گی۔ اس میں اپ کی اور ان کی عافیت ہے۔

اسلام ایک دین فطرت ہے اس میں آپ کو اتنی آزادی دی گئی ہے کہ کسی اور مذہب میں نہیں۔ عورت دنیا کا ہر کام کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ حجاب میں ہو‘ بے حجابی سے صرف فحاشی اور آوارگی جنم لیتی ہے جو انسان کو شیطان کے راستے پر لے جاتی ہے اور شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ آیئے ہم اپنی نسل کو تباہی سے بچانے کا عہد کریں۔ ہم خود انہیں اچھے برے کی تمیز سکھائیں‘ حق و باطل کی پہچان بتائیں پھر کسی سراغ رساں کی ضرورت نہیں رہے گی کیوں کہ ہر مسلمان خود اپنا محتسب ہے‘ اسے اپنے ہر ہر عمل کے لیے اللہ کے سامنے جواب دینا ہے اور قیامت بھی ایک روز آنی ہے جو بہت‘ بہت قریب ہے۔