شاعری ودیعت الٰہی ہے‘ معراج الدین راز

209

ہر آدمی شاعری نہیں کرسکتا‘ شاعری ودیعت الٰہی ہے‘ شاعر اپنے معاشرے کا نباض ہوتا ہے‘ وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو لکھتا ہے‘ وہ معاشرتی‘ سیاسی مسائل پر بھی بات کرتا ہے‘ وہ غمِ جاناں اور غمِ دوران کا تذکرہ بھی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ شاعر ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے کہ یہ شاعری کا غیر مطبوعہ نصب العین ہے۔ ان خیالات کا اظہار معرورف شاعر‘ ادیب رفیع الدین راز نے ابوظہبی سے تشریف لانے والے شاعر عبدالسلام عازم کے اعزاز میں دیے گئے مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عبدالسلام عازم ایک زندہ دل شخصیت ہیں‘ ان کے کلام میں سلاست و روانی کے ساتھ ساتھ غنایت بھی موجود ہے۔ ان کی شاعری کا زیادہ تر حصہ چھوٹی بحروں پر مشتمل ہے‘ ان کے ہاں جدید لفظیات کا استعمال نظر آتا ہے۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ مشاعرے ذہنی آسودگی کا سبب ہوتے ہیں‘ یہ ادارہ ہماری ثقافت میں شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عبدالسلام عازم کی شاعری میں یکسانیت نہیں ہے‘ وہ مختلف موضوعات کو مشقِ سخن بناتے ہیں۔ ان کا اسلوب سادہ اور روایت سے جڑا ہوا ہے‘ ان کے کلام میں سچائی اور کھرا پن ایک نئی جہت اور نئی زندگی کی مانندہے۔ ان کے ہاں ضائع بدائع اور تغزل ہے‘ اشعار میں ندرت بھی ہے۔ سلیمان صدیقی نے کہا کہ عبدالسلام عازم کے شعری مجموعے صدائے عشق کی ابتدا سے غزل در غزل آگے بڑھتے ہوئے ان کے کلام میں جو اوصاف ابھر کر سامنے آتے ہیں ان میں بیان کی پیچیدگی سے گریز‘ سادہ طرز اظہار‘ احساسِ طبعی اور ان کی شخصیت میں موجود ایک درد مند دل کی موجودگی کا احساس نمایاں ہے‘ ان کا بنیادی موضوع سماج ہے۔ ان کے ہاں اچھی شاعری کے امکانات واضح ہیں وہ لکھتے رہیں گے اساتذہ کی شاعری کا مطالعہ کرتے رہیں گے تو ہم ان کی طرف سے اردو شاعری کے اثاثے میں مزید اچھی شاعری کے اضافے کی توقع کر سکتے ہیں۔ اختر سعیدی نے کہا کہ عبدالسلام عازم کا شمار پاکستان کے ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے دیارِ غیر میں بھی اپنی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھا ہوا ہے ان کی شعری دبستانِ فکر سے جڑی ہوئی ہے جس نے تہذیبی اقدار کو سرفرازی عطا کی۔ ان کی شاعری میں وطن سے محبت کا والہانہ اظہار بھی ہے اور روایتی پن ان معنوں میں ہے کہ انہوں نے اعلیٰ انسانی اقدار اور تہذیبی روایات کو اپنی شاعری میں مقدم رکھا ہے‘ ان کی شعری میں رومانی طرزِ احساس بھی ہے اور رنگِ تغزل بھی ہے لیکن تہذیب و شائستگی کے ساتھ انہوں نے جدیدیت کے نام پر تماشے نہیں کیے وہی لکھا ہے جو دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ ان کی دکانِ سخن میں ایسا مال موجود ہے جو تشنگانِ سخن کے لیے تسکین کا باعث ہوگا۔ راقم الحروف نثار احمد نے کہا کہ عبدالسلام عازم نے سہل ممتنع میں بہت خوب اشعار نکالے ہیں ان کے تمام اشعار کا ابلاغ ہو رہا ہے ان کے ہاں زندگی کے تمام عنوانات ملتے ہیں‘ ان کی شعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے‘ وہ ایک حقیقت پسند انسان ہیں انہیں زمینی حقائق کا علم ہے‘ انہوں نے تلخ و شیریں عنوانات سے اپنی شاعری سجائی ہے‘ ان کی شاعری میں انفرادیت‘ حساسیت‘ گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری کا محور معاشرہ‘ انسانی رشتے اور معاشرتی اقدار کی شکست و ریخت ہے‘ وہ سچائیوں کے علمبردار ہیں۔ تقریب میں شاہدہ عروج نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی‘ محمد علی گوہر نے نعتِ رسولؐ پیش کی۔ تنویر سخن نے نظامت کے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ عبدالسلام عازم کے لیے کہا کہ ان کی شاعری آنکھوں کے ذریعے دل میں اتر جاتی ہے‘ ان کی شاعری ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہم دوسروں کا احترام کریں‘ معاشرے میں امن وامان قائم کریں۔ صاحب اعزاز عبدالسلام عازم نے کہا کہ وہ اردو ادب کے خدمت گار ہیں‘ ان کی ترقی کا سفر جاری ہے‘ آج تک میں نے جو بھی شاعری کی ہے وہ میرے اساتذہ کے دیے ہوئے اسباق کا مظہر ہے میں تمام لوگوں کا ممنوع و شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔ سرو چوہان نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر اس محفل کو کامیاب بنایا۔ اس مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ سعیدالظفر صدیقی‘ عبدالسلام عازم‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ محمد علی گوہر‘ نثار احمد‘ احمد سعید خان‘ یاسر سعید صدیقی‘ تنویر سخن‘ شاہدہ عروج‘ سلمیٰ رضا‘ کامران صدیقی‘ سرور چوہان اور صدف بنت ِ اظہار نے کلام پیش کیا۔

بزمِ تقدیس ادب کا مذاکرہ اور مشاعرہ

گزشتہ ہفتے بزمِ تقدیس ادب پاکستان نے بہادر یار جنگ اکیڈمی کراچی میں رحمن خاور کے اعزاز میں مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی صدارت خواجہ رضی حیدر نے کی۔ ساجد رضوی مہمان خصوصی تھے۔ احمد سعید خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ فرید احمد خورشیدی اور عزیز الدین خاکی نے نعتیں پیش کیں۔ پروگرام کے پہلے حصے میں پروفیسر رحمن خاور کے لیے اختر سعیدی نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔ یہ نظم رحمن خاور کی شخصیت اور فن کا مکمل احاطہ تھی جس پر اختر سعیدی کو بھرپور داد ملی۔ ساجد رضوی نے کہا کہ رحمن خاور نے بھرپور زندگی گزاری ہے وہ اعلیٰ اقدار کے مالک ہیں‘ وہ ایک علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں‘ ان کی شاعری میں معاشرتی زندگی کے تمام عنوانات روشن ہیں۔ خواجہ رضی حیدر نے کہا کہ رحمن خاور کی شاعری میں جدید لفظیات اور نئے نئے استعارے نمایاں ہیں وہ ایک استاد شاعر ہیں ان کا اسلوب تازہ کاری سے عبارت ہے۔ پروفیسر رحمن خاور نے کہا کہ وہ بزمِ تقدیس ادب پاکستان کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے اعزاز میں یہ تقریب سجائی‘ میں جسمانی طور پر کینیڈا میں مقیم ہوں لیکن میرا دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے اللہ تعالیٰ پاکستان کو قائم و دائم رکھے۔ احمد سعید خان نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ہماری تنظیم اردو ادب کی ترقی میں اپنا حصہ شامل کر رہی ہے ہم سب کی بقا متحد ہونے میں ہے۔ جب تک ہم اپنے اختلافی مسائل بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر نہیں آئیں گے ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ انہوں مزید کہا کہ رحمن خاور نے مختلف اصنافِ سخن میں کام کیا ہے اور ہر صنفِ سخن پر نام کمایا ہے۔ انہوں نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے سبب ترقی کی ہے۔ مشاعرے میں خواجہ رضی حیدر‘ رحمان خاور‘ اختر سعیدی‘ سلیم فوز‘ فیاض علی فیاض‘ ریحانہ روحی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ نسیم شیخ‘ خالد میر‘ آسی سلطانہ‘ شائق شہاب‘ نظر فاطمی‘ افضل ہزروی‘ شائستہ سحر‘ تنویر سخن‘ ضیا حیدر زیدی‘ احمد سعید خان‘ شاہد اقبال‘ شہناز رضوی‘ کاوش کاظمی‘ رئیس حیدر‘ زعیم عرشی‘ دلشاد زیدی نے اپنا کلام سنایا۔

حصہ