لالچی سوداگر

250

کسی زمانے میں ایک سوداگر تھا،جو بہت لالچی تھا۔ایک دفعہ وہ پچاس اونٹوں پر سامان لاد کر تجارت کے لیے گیا۔راستے میں کچھ دیر سستانے بیٹھ گیا۔وہاں سے ایک درویش کا گزررہا تھا۔اس نے سوداگر کو دیکھا تو ان کے برابر میں بیٹھ کرباتیں کرنے لگے۔وہ دونوں دوست بن گئے۔سوداگر نے پوچھا:”تم کہاں جارہے ہو؟“
درویش نے جواب دیا:”مجھے ایک ایسی سرنگ کا پتاچلا ہے جس میں سونا بند ہے ،میں وہی سوناڈھونڈنے جارہا ہوں۔
’’اب میں چلتا ہوں۔“
سوداگر نے کہا:”رکو،میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں۔“
درویش نے کہا:”ٹھیک ہے۔“
سوداگر نے کہا:”اگر اس سرنگ میں سے سونا نکلا تو ہم دونوں آدھا آدھا بانٹ لیں گے۔“
درویش نے کہا:”ٹھیک ہے۔“
جب سرنگ کے قریب پہنچے تو درویش نے کوئی منتر پڑھا۔وہ سرنگ فوراً کھل گئی اور اس سرنگ کے کھلتے ہی سوداگرحیران رہ گیا۔
اس میں بہت سارا سونا تھا۔دونوں نے آدھا آدھا سونا بانٹ لیا اور دونوں اپنی اپنی راہ پر چل دیے۔سودا گر کچھ آگے گیا تو اس نے سوچا کیوں نہ میں درویش سے وہ آدھا سونا بھی لے لوں۔یہ سوچ کر سودا گر بھاگ کر درویش کے پاس گیا اور کہا:”تم تو درویش آدمی ہوتم پھر کہیں سے سونا ڈھونڈ لوگے تو تم ایک کام کرو کہ اس میں سے آدھا سونا مجھے دے دو۔“
اسی طرح بہلا پھسلا کر اس نے درویش سے سارا سونا اپنے قبضے میں لے لیا۔
سودا گر اور درویش دونوں الگ الگ سمتوں میں روانہ ہو گئے۔سوداگر نے سوچا کہ اس کے پاس ایک چھوٹا ساڈبا تھا۔اس میں کیا تھا۔سودا گر پھر دوڑ کر درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا:”تمھارے پاس جوڈبا ہے ،اس میں کیا ہے؟“
درویش نے جواب دیا:”اس میں جادو کا کاجل ہے ۔ایمان دار اور سخی آدمی لگائے گا تو اسے چھپا ہوا سونا نظر آئے گا،لیکن اگر بے ایمان اور لالچی آدمی لگائے گا تو اندھا ہو جائے گا۔“
سودا گر نے کہا:”یہ میری آنکھوں میں لگا دو،کیوں کہ میں تو بہت دیانت دار اور معقول آدمی ہوں۔“
درویش نے پہلے تو اسے سمجھایا،لیکن سودا گر ضد کرتا رہا۔سودا گر کا خیال تھا کہ درویش اس سے بہانا کررہا ہے ۔آخر درویش نے سودا گر کی آنکھوں میں کاجل لگا دیا۔کاجل لگنے کے بعد سودا گرنے آنکھیں کھولی تو اسے کچھ نظر نہ آیا۔اس نے درویش سے کہا:”تم نے مجھے اندھا کردیاہے ،تاکہ سارا سونا خود لے جاؤ۔“
درویش نے کہا:”میں نے تمھیں پہلے ہی خبر دار کردیا تھا،کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ تم نے بدنیتی سے میرے حصے کا سونا بھی ہتھیالیا ہے اور اس کا جل سے تمھیں نقصان پہنچے گا۔“
اب سودا گر ،درویش کے آگے گھگیانے لگا:”اے درویش !میری خطامعاف کر،میں آئندہ ایمان داری سے زندگی بسر کروں گا۔ضرور تیرے پاس اس کا جل کا تریاق بھی ہوگا۔
خدا کے واسطے میری بینائی بحال کر،کچھ کر۔“
درویش بولا:”ایک شرط پر تیری بینائی واپس آسکتی ہے۔“
”جلدی بتا،مجھے تیری ہر شر ط منظور ہے۔“
درویش نے کہا :”جتنا سونا تمھارے پاس ہے ،یہ سب غریبوں میں تقسیم کرنا ہو گا اور آیندہ بھی مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنی ہوگی۔“
سودا گرنے درویش کے پاؤں پکڑ لیے:”میں وعدہ کرتا ہوں،اپنی تمام دولت سے ضرورت مندوں کو آرام پہنچاؤں گا۔“
درویش نے جیب سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالی۔اس میں سرمہ تھا۔سودا گر کی آنکھوں پر سرمہ لگایا تو تھوڑی دیر بعد اسے دھند لاسانظر آنے لگا۔اس نے درویش کا شکریہ ادا کیا۔پھر وہ دونوں ایک ساتھ ایک ہی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں انھیں غریب لوگوں کی بستیاں ملیں۔سوداگر نے تمام سونا ان بستیوں میں تقسیم کردیا۔تمام سونا تقسیم ہو گیا تو سودا گر کی بینائی مکمل طور پر بحال ہو گئی اور اسے بالکل صاف نظر آنے لگا۔
درویش نے کہا:”تم اپنی سخاوت کا عمل جاری رکھنا،ورنہ پھرسے اندھے ہو جاؤ گے۔“
سودا گر نے وعدہ کیا اور درویش اسے دعائیں دیتا ہوا رخصت ہو گیا۔

حصہ