کیا ہم اس ماہ مبارک میں مہنگائی کے ذمہ دار ہیں؟

420

راشدہ: لیکن بھائی ابھی چار دن پہلے تو یہ 2100/- کا تھا چار دن میں کیا ہو گیا کہ پورے چار سو قیمت میں اضافہ ہو گیا۔

دکاندار: باجی ہم کیا کریں پیچھے سے مال اتنا ہی مہنگا آرہا ہے۔

راشدہ: لیکن آپ کے پاس تو یہ پرانا اسٹاک ہے۔ تم اپنا مانسب منافع لے کر قیمت لگائو۔ رمضان آیا نہیں اور آپ نے قیمتیں بڑھا دیں…
دکاندار کو راشدہ کی بات پر غصہ آگیا بی بی میرا وقت ضائع نہ کریں اور بھی گاہک کھڑے ہیں۔

راشدہ کو مجبوراً دودھ کا ڈبہ لینا پڑا اس قیمت میں ہی۔

٭…٭

رقیہ بیگم: کیا بھائو ہے اس سبزی کے؟

دکاندار : دو سو پائو۔

رقیہ بیگم: کچھ کم کرو بھائی۔

دکاندار: کیا کم کروں کمائیں نہ تو کھائیں گے کہاں سے؟

مجبوراً رقیہ بیگم نے سبزی خریدی اور آگے بڑھی دوسری گلی میں کھڑے سبزی والے سے اس نے اسی سبزی کے بھائو معلوم کیے کہنے لگا 1½ سو (اس نے ) احتیاطاً سبزی کو الٹ پلٹ کر دیکھا کہ کہیں سڑی جلی ہوئی تو نہیں۔ لیکن پتہ چلا کہ سبزی تو تازی ہے اسے غصہ آگیا پلٹ کر پہلے والے سبزی فروش کے پاس آئی اور اسے ساری بات بتائی کہ خوف خدا نہیں تم نے ایک پائو پر دسروں کے مقابلے میں 50 روپے زیادہ لیے ہیں جبکہ یقیناً دوسروں نے بھی اپنا منافع رکھا ہوگا۔

دکاندار نے رقیہ بیگم کا غصہ دیکھا تو کہا، اماں پھر اسی سے جا کر لو، یہ لو تمہارے دوسو روپے۔

رقیہ نے سبزی والے سے پیسے لیے اور آگے جا کر وہی سبزی 1 ½سو پائو میں لی باقی پچاس روپے میں اس نے ٹماٹر وغیرہ لیے۔

٭…٭

ثمینہ: (دکاندار سے) تین ہزار ؟؟ جبکہ یہی سوٹ میں تم سے پچھلے ہفتے 2500 کا لے کر گئی ہوں ابھی تو رمضان میں ایک ہفتہ ہے اور اتنی مہنگائی اف خدایا۔

دکاندار: باجی لینا ہے تو لیں دو دن بعد آئیں گی تو یہی 3500کا ملے گا۔

مجبوراً ثمینہ کو وہ سوٹ لینا پڑا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ رمضان شروع ہوتے ہی مزید قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

٭…٭

میں نے اپنی دوستوں سے یہ مزکورہ بالا باتیں سنیں تو بڑا افسوس ہوا۔ یہ صورت حال غلط بیان نہیں کی گئی ہے حد افسوس کے ساتھ لکھ رہی ہوں کہ پاکستان میں ہر جگہ یہی مہنگائی کی ’’وبا‘‘ پھیلی ہوئی ہے۔ رمضان سے پہلے ہی ذخیرہ اندوزی کرکے مارکٹوں سے مال غائب ہو جاتا ہے جو سامنے ہوتا ہے اس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتیں ہیں پھر رمضان میں وہی مال دتنی قیمتوں میں سامنے لایا جاتا ہے۔ اشیاء خورد و نوش سے لے کر ضرور یات زندگی کے ہر آئٹم کا یہی حال ہے۔ مہنگائی کے مارے عوام کہاں جائیں زندہ رہنے کے لیے کھانا پینا تو لازمی ہے مرغی گوشت نہ سہی سبزیاں دالیں تو ان کے نصیب میں چھوڑیں نہیں ہر چیز میں نہ صرف قیمتوں میں من مانی اضافہ، اوپر سے ناپ تول میں بھی کمی پیشی اور کبھی کبھار تو خراب اور رکھا ہوا مال بھی اسی قیمت میں بیچا جاتا ہے… جبکہ اسلام ہمیں کیا تعلیم دے رہا؟

حضرت قبلہ کہتی ہیں میں حضور اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی عرض کیا میں خرید و فروخت کیا کرتی ہوں اس میں یہ کرتی ہوں کہ مجھ کو جتنے کو کوئی چیز خریدنا ہوتی ہے اس سے کم دام لگالی کیوں اور پھر بڑھاتے بڑھاتے اس کے دلی داموں پر آجاتی ہوں اسی طرح جب کوئی چیز بیچتی ہوں تو جتنے کا بیچنا مقصود ہوتی ہے، اس سے زائد دام کہتی ہوں…آپؐ نے فرمایا ، قبلہ یہ فعل اچھا نہیں جو جتنے کو فروخت کرو اتنے ہی دام کہہ دو لینے والے کی خوشی ہو گی لے گا، ورنہ نہیں اور جو چیز خریدو اس کی ایک بات کہہ دو دوسرا لے نہ لے (ابن ماجہ)

اسی طرح خرید وفروخت کے بارے میں صحیح مسلم کی حدیث ہے جسے ابو ہریرہؓ نے روایت کیا ہے کہ آپؐ غلے کے ڈھیر پر گزرےتو اپنا ہاتھ اس ڈھیر میں داخل کیا تو آپؐ کی انگلیاں تر ہو گئیں۔ فرمایا! اے غلے والے یہ تری کیسی ہے؟ اس نے کہا کہ یہ مینہ کی تری (بارش) ہے۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا تو نے ترکو غلہ کے اوپر کی جانب کیوں نہ کیا، تاکہ لوگ دیکھتے ( اس عیب کو) سنو جو فریب دے وہ مجھسے نہیں‘‘ (صحیح مسلم)

خریدو فروخت کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کے ذریعے جو احکامات ہمیں ملتے ہیں ان پر ہر صورت میں اور ہر جگہ عمل پیرا ہونا ایمان کی نشانی ہے اور ماہ رمضان تو پرہیز گاری کی طرف لے جاتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہےجس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم پرہیز گار بن جائو‘‘ (البقرۃ)

آئیں ذرا ہم اپنا محاسبہ کریں کہ ہم اس ماہ مبارک میں کوشش کرتے ہیں کہ پرہیز گار بن جائیں؟ اور اپنے اللہ کو راضی کر لیں اس رمضان المبارک کی سعادتوں اور برکتوں سے فیضیاب ہونے کی شرط ہی ’’پرہیز گاری‘‘ ہے اور پرہیز گاری کے لیے نفس کی غلامی نہیں رب کی غلامی کرنی پڑتی ہے اس ماہ مبارک میں دیکھا جاتا ہے کہ عام دنوں اور مہینوں سے زیادہ دھوکے بازی جھوٹ فریب نظر آتا ہے میں سب کی بات نہیں کر رہی لیکن ہمیں اکثریت اس میں ملوث نظرآتی ہے… اوپر سے لے کر نیچے تک یہی صورت حال نظر آتی ہے، میری پوتی نے مجھ سے کہا کہ دادو شیطان کو تو اس مہینے (رمضان) میں قید کردیا جاتا ہے پھر انسان کس کے بہکاوے میں آجاتاہے میں اس کی بات سن کر حیران ہو گئی کہ یہ گیارہ سال کی بچی کا سوال ہے لہٰذا میں نے اس سے کہا بیٹا ہمارے آس پاس والے شیطان تو قید ہیں لیکن ہمارے اپنے نفس میں بیٹھا شیطان ہمارے قابو میں نہیں اس کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنا لازمی ہے تاکہ ہم اس کے حملوں سے اپنے آپ کو بچا کر رکھ سکیںبے شک یہ حقیقت ہے کہ ہم شیطانی حملوں سے اسی صورت میں بچ سکتے ہیں کہ ہر قدم بڑھاتے ہوئے (ہر عمل کرتے ہوئے) یہ سوچیں کہ کہیں اس عمل سے میرا رب تو ناراض نہیں ہو گا اور اس کی ناراضگی کی سزا ہمیں بھگتنی پڑے گی آخرت میں، اس آخرت کے عذا ب سے بچنے کے لیے خوف خدا کا دل میں ہونا لازمی امر ہے یہی خوف ہم میں تقویٰ پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ مجھے کسی نے جب یہ کہا (معذرت کے ساتھ) کہ ہمارے ملک کے کاروباری لوگوں کی اکثریت صوم و صلوٰۃ کی پابند ہونے کے باوجود کیوں دھوکہ اور جھوٹ سے کام لیتی ہے جبکہ دوسرے اسلامی ممالک میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔

کہنے والے نے یہ کچھ غلط بھی نہیں کہا میرا اکثر قطر جانا ہوتا ہے وہاں رمضان سے پہلے ہی ہر دکان اور شاپنگ مالز میں کھانے پینے، پہنے اوڑھنے کی اشیاء یہاں تک کہ گھریلو استعمال و میک اپ کی اشیاء میں بھی رعالیتی سیل (ڈسکائونٹ) لگتی ہے اور مزے کی بات یہ کہ اشیاء کی کوالٹی بھی بہترین ہوتی ہے (جبکہ ہمارے ملک میں سیل لگے والی اشیاء کی کوالٹی ناص ہتی ہے) نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی ان اشیاء کی وافر مقدار خرید کر گھروں میں سارا سال استعمال کرتے ہیں۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ان کے اس طریقہ کار سے ان کے کاروبار میں برکت بھی ہوتی ہے اور عوام الناس کا بھلا بھی ہو جاتا ہے یہی امت مسلمہ کا طریقہ کار ہونا جس سے پاکستان کی اکثریت محروم ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں رب العزت کے احکامات اور سیرت النبوی کے مطابق رمضان کی سعادتوں سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ کیوںکہ یہ بابرکت مہینہ سال میں ایک مرتبہ ہمارے تربیت و اصلاح کا ذریعہ ہے اور یہ اصلاح و تربیت تقویٰ ہی ہے۔

حصہ