ہم لوگ ایک کرپٹ معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں سیاستدانوں ،فوجی جرنیلوں اور سول بیورو کریسی نے کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے ،ضمیرنیازی کا ایک یادگار انٹریو

467

بہ ظاہر بااخلاق اور منکسر مزاج جنرل ضیا الحق کے پُر آشوب دورِ آمریت کا یہ واقعہ ہے کہ اخبارات ایک نئے اندازِ زباں بندی کے احکامات کا کڑوا گھونٹ پی چکے تھے‘ چند بے لاگ سچ لکھنے والے صحافیوں کی ننگی پیٹھ پر تازیانوں کے زخم ابھی بھرے بھی نہیں تھے‘ باتونی سیاست دانوں کی زبانوں اور ان کے دفتروں پر بھی قفل پڑ چکے تھے۔ بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک کے مرکزی عہدوں پر خفیہ ایجنسی سے سازباز کرنے والے رہنمائے قوم براجمان تھے۔ ایسے میں ایک کتاب نے خوف و ہراس اور اس سے جنم لینے والی مصلحت آمیز خاموشی کا طلسم توڑ دیا۔ کتاب کیا تھی ایک آئینہ تھا جس میں فوجی اور جمہوری حکمرانوں کے اصلی چہرے دیکھے جاسکتے تھے۔ وہ جو سیاست دانوں کی وطن دشمنی کا راگ الاپتے‘ اپنی خود ساختہ بنیادی جمہوریت ’’عزیز ہم وطنو‘‘ پر مسلط کرتے اور پورا سچ بولنے اور لکھنے پر کڑی پابندی لگاتے گوشۂ گم نامی کی تاریکی میں گم ہو چکے تھے اور وہ بھی جو جمہوریت اور عوام کے حقوق کی دہائی دیتے ہوئے آئے اور پھر آمروں سے بھی بدتر ثابت ہوئے۔ جنوبی ایشیا میں صحافت‘ قلم اور اہل قلم کو پابند سلاسل کرنے کی خوں چکاں داستان لکھنے والے اس مورخ بے بدل کا نام تھا ضمیر نیازی اور کتاب تھی “Press in Chains” کتاب کراچی پریس کلب نے شائع کی تھی کہ تب کسی ناشر میں اسے چھاپنے کی جرأت نہ تھی۔ میںنے کتاب پڑھی تو مسحور ہو گیا۔ کیسی خوب صورت نثر تھی‘ تحقیق کا بلند معیار اور واقعات کی ترتیب اور اسلوبِ بیاں میں ایسا تجسس اور لطف تھا کہ اسے کسی ناول کی طرح پڑھتے چلے جائو‘ مجال ہے جو دل چسپی میں رتی برابر بھی کمی آئے۔ ہاں مگر کتاب اشاعت کی خستگی کے سبب پہلی نظر میں ناقابل التفات دکھائی دیتی تھی۔ نیوز پرنٹ پر‘ بھدے ٹائپ میں ناقص طباعت نے صُوری اعتبار سے کتاب کو ناقابل التفات بنا دیا تھا۔ کتاب کی حالت دیکھنے میں تقریباً وہی تھی جو حال ملک میں سچائی اور حق گوئی کا تھا یعنی خستہ حال۔ ضمیر نیازی صاحب کا دیدار کرتے اور ان کی ان دار تصنیف پر داد دینے گلشن اقبال کی صحافی سوسائٹی میں واقع ان کے گھر پر حاضر ہوا تو نہایت محبت اور تواضع سے ملے۔ خاکسار کے ادبی انٹرویو والی کتاب کا تذکرہ لے بیٹھے۔ حوصلہ افزائی اور قدر دانی کا یہ انداز دل میں گھر کر گیا اور پھر جب تک جیتے رہے‘ ان سے نیاز مندانہ تعلق قائم رہا۔

ایک دن عرض کیا جناب Press in Chains کا اردو ترجمہ ہونا چاہیے۔ فرمایا دو ایک اصحاب نے ترجمے کا ڈول ڈالا تھا‘ مگر کچھ بھایا نہیں۔ عرض کیا: اجازت ہو تو میں کچھ ایسے دوستوں سے رابطہ کروں جو اس فن کے ماہر ہیں۔ اجازت ملنے پر ایک دوست جو ایک انجینئرنگ یونیورسٹی میں افسر تعلقات عامہ تھے اور ترجمے کا کام کیا کرتے تھے‘ ان سے کتاب کا ایک باب ترجمہ کراکے انہیں دکھایا‘ انہوں نے نامنظور کر دیا۔ تب اپنے ادیب دوست اور مترجم آصف فرخی سے ترجمے کی استدعا کی کہ ان کے ترجموں کی متعدد کتابیں چھپ چکی تھیں۔ آصف نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ صرف ادبی کتابوںکے ترجمے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ البتہ مدیر ’’آج‘‘ اجمل کمال نے ہامی بھر لی۔ ان کا ترجمہ ضمیر نیازی صاحب کو پسند آیا اور یوں Press in Chains ’’صحافت پابندِ سلاسل‘‘ کے نام سے اجمل ہی کے ادارے سے شائع ہوئی۔ دوسرا ایڈیشن پاکستان اسٹڈی سینٹر نے چھاپا۔ پھر تو ضمیر نیازی مرحوم کا قلم چل پڑا۔ Press in Chanis چھپی تھی 1986ء میں‘ چھ برس بعد انہوں نے اس زمانے میں جب اخبار کے دفاتر آئے دن لسانی‘ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے مسلح غنڈوں کے نرغے میں رہنے لگے تھے‘ اپنی اگلی کتاب مرتب کی “The Press Undersiege” 1992ء میں چھپنے والی یہ کتاب اخبارات اور صحافیوں پر سب و شتم کی الم ناک داستان ہے۔ اس میں سن وار اور سارے واقعات جمع کر دیے گئے ہیں جن میں لوح و قلم کو چھیننے کی کوششیں کی گئیں تاکہ سچائی کو دبایا‘ چھپایا اور مٹایا جاسکے۔

ضمیر نیازی نے جو ’’بزنس ریکارڈ‘‘ کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے کر خود کو ہمہ وقت تحقیق و تصنیف کے لیے وقف کر چکے تھے‘ دو سال کے عرصے میں ایک تیسری کتاب “The Web of Censorship” تیار کر لی۔ اب کے انہوں نے جنرل ضیا کے دور میں اخبارات و رسائل پر عائد کردہ سنسر شپص کو موضوع بنایا تھا۔ ظاہر ہے ان کے بعد کی دونوں کتابیں ویسی دقیع تو نہ تھی کہ Press in Chains کو تو اب تاریخِ صحافت کی کتابوں میں ایک کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ معاصر پاکستانی صحافت پر مستند تصانیف کا جائزہ لیا جائے تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ ضمیر نیازی کی مذکورہ تین کتابیں نہ ہوتیں تو وطنِ عزیز کی صحافت اور اس کے احوال و آثار پر کوئی ڈھنگ کی کتاب پڑھنے والوں کو دستیاب نہ ہوتی۔ ان کی وفات کے بعد صحافتی امور و مسائل کی بابت ان کے مقالات کا ایک مجموعہ پاکستان اسٹڈی سینٹر‘ جامعہ کراچی سے شائع ہو چکا ہے Fatjered Freedom (2005)

ضمیر نیازی یوں تو پاکستانی صحافت کے نہایت سنجیدہ اور ذمہ دار اسکالر تھے لیکن ان کا اوّلین عشق ادب تھا۔ وطنِ عزیز نے ایٹمی دھماکہ کیا تو انہوں نے عالمی امن کے حوالے سے تخلیقی تحریروں کا ایک مجموعہ ’’زمین کا نوحہ‘‘ مرتب کیا جو 2000ء میں شائع ہوا۔ علاوہ ازیں ان کی اردو میں کتابیں کتابیں اور ہیں (1) حکایاتِ خونچکاں (مضامین و انٹرویو 1997ء)‘ (2) انگلیاں فگار اپنی‘ (3) باغبانی صحرا (ضمیر نیازی کے مختلف انٹرویو کا مجموعہ)

ضمیر نیازی بہت عرصے سے اُن لائبریریوں کی بابت مواد جمع کر رہے تھے جو تاریخ کے کسی موڑ پر جلا دی گئیں یا برباد کر دی گئیں۔ ان میں اسکندریہ کا کتب خانہ بھی شامل تھا جس کے بارے میں مستشرقین نے مشہور کر رکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کے حکم پر اسے نذر آتش کر دیا گیا۔ مرحوم اس افواہ کا بطلان چاہتے تھے۔چنانچہ انہوں نے اپنی اس کتاب کا نام بھی تجویز کر لیا تھا: “Books in Chains, Libraries in Flames”۔ افسوس کہ قضا نے مہلت نہ دی ورنہ یہ اپنے موضوع پر ایک بے مثال تحقیق ہوتی۔ اسی طرح وہ قرآن حکیم کے تراجم پر بھی کام کرنا چاہتے تھے اور بہت سے قدیم اردو ترجمے قرآن حکیم کے انہوں نے جمع بھی کر رکھے تھے جو انہوں نے مجھے دکھائے تھے۔ بدقسمتی سے یہ کام بھی ادھورا رہ گیا۔

ضمیر نیازی ترقی پسندانہ خیالات رکھتے تھے اور معروف معنوں میں ان کا جھکائو بائیں بازو کی طرف تھا لیکن جب وہ تحقیق کرتے تو پھر کسی سے رُو رعایت نہ کرتے۔ اپنی پسند و ناپسند کو ایک طرف رکھ کر سچ لکھتے اور سچ کے سوا کچھ نہ لکھتے۔ بحیثیت محقق ان کی بڑائی کا راز اسی وصف میں مضمر ہے۔

ضمیر نیازی نے جن کا اصل نام ابراہیم درویش تھا‘ 8 مارچ 1927ء کو بمبئی میں آنکھ کھولی۔ اوائل عمر سے مطالعۂ ادب کے شائق تھے۔ جن ادیبوں نے ان کے خیالات پر اپنے ان مٹ نقوش مرقسم کیے ان میں سرفہرست علامہ نیاز فتح پوری تھے۔ اپنا قلمی نام ضمیر نیازی رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی قلمی نسبت نیاز فتح پوری ہی سے قائم کی۔ تقسیم ہند سے قبل ان کا قیام بمبئی میں تھا‘ ترقی پسند تحریک کی ادبی سرگرمیوں میں وہ شریک رہے پھر تقسیم کے بعد انہوں نے راجندر سنگھ بیدی‘ وشوامتر عادل اور محمد حیدر اسد کے ساتھ مل کر ایک رسالہ ’’نیا پرچم‘‘ نکالا۔ اُن دنوں حکومت ترقی پسند اداروں اور رسالوں سے نالاں تھی‘ چنانچہ ’’نیا پرچم‘‘ ترقی پسند مخالف مہم کی نذر ہو گیا‘ اس پر پابندی لگا دی گئی۔ ضمیر نیازی نے ہمت نہ ہاری اور ہفت روزہ ’’منزل‘‘ نکال لیا۔ لیکن یہ رسالہ بھی راس نہ آیا اور جلد ہی بندش کا شکار ہوگیا۔ بمبئی میں رہائش پذیر ایک ایرانی تاجر کیخسرو اسفند یار افسری کا ایک فلمی رسالہ ’’نرگس‘‘ جس کی اشاعت معطل تھی‘ ضمیر نیازی نے اس رسالے کے نام میں معمولی سا ترمیم و اضافہ کرکے اسے جاری کر دیا۔ ایک ڈیڑھ سال تک یہ رسالہ ’’نرگسِنو‘‘ کے نام سے نکلتا رہا۔ وہ خود اس کی ادارت کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ ویسے تو یہ فلمی رسالہ تھا لیکن اس کا بڑا حصہ ادب کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔

پاکستان ہجرت کے بعد انہوںنے اپنے آپ کو ادب کی نذر کر دیا۔ لیکن وطنِ عزیز میں ادب معاشی یافت کے اعتبار سے ایک بنجر زمین ہے جس میں صرف بھوک اُگتی ہے۔ ضمیر نیازی روزگار کی خاطر صحافت کے کانِ نمک میں داخل ہو گئے۔ یہ الگ بات کہ روح کی آگ اور سچائی کو پالینے کی تڑپ نے اس کانِ نمک میں جا کر بھی انہیں نمک نہ بننے دیا۔ اردو اخبار ’’نئی روشنی‘‘ میں کچھ عرصے کام کرنے کے بعد 1954ء میں وہ ’’ڈان‘‘ اخبار سے وابستہ ہو گئے اور پورے آٹھ سال تک اس سے منسلک رہے۔ 1962ء میں انہوں نے ’’ڈیلی نیوز‘‘ کراچی کا دامن تھاما اور 1965ء تک اسی کو روزی روٹی کا ذریعہ بنائے رکھا۔ اسی سال انہوں نے ایک باوقار ادارے ’’بزنس ریکارڈ‘‘ سے وابستگی اختیار کر لی اور یہیں سے وہ 1992ء میں بہ حیثیت میگزین انچارج ریٹائر ہوئے۔ اس دوران تھوڑی سی مدت تک انہوںنے ہفت روزہ ’’کرنٹ‘‘ کے لیے بھی کام کیا۔

’’بزنس ریکارڈ‘‘ کے لیے جن دنوں وہ کام کر رہے تھے‘ ایک عجیب مشغلہ انہوںنے اختیار کیا۔ اخبار کے دفتر میں جو سرکاری ہینڈ آئوٹ‘ پریس نوٹ‘ سرکاری ہدایات آتی تھیں ان کے ساتھ تاریخی اہمیت کی حامل تصاویر جمع کرنے لگے۔ اس طرح کچھ ہی عرصے میں ان کے پاس ایسی فائل تیار ہوگئی جس میں موجود مواد اس دور کے جبر و استبداد کی عکاسی کر رہا تھا۔ یہ ان کے ایک شناسا کے ہاتھوں میں گئی اور پھر واپس نہیں ہوئی۔ اس نقصان کا قلق ضمیر نیازی کے دل سے کبھی نہ گیا۔ یہ کام انہوں نے دوبارہ شروع کیا۔ اصل میں انہوں نے فیصلہ کیا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد صحافتی مسائل و امور پر تحقیق و تصنیف کے لیے خود کو وقف کر دینے کا۔چناں چہ ریٹائرمنٹ والے سال ہی ان کی پہلی دقیع اور اعلیٰ تحقیق کا نمونہ ایک جرأت مندانہ کتاب جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے‘ Press in Chains منظر عام پر آگئی۔ اس کتاب نے ضمیر نیازی کو گم نامی کے اندھیروں سے نکال کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ پھر تو ضمیر نیازی ایسے رواں ہوئے کہ مڑ کر نہ دیکھا۔ ان کی عمر کا آخری حصہ اذیت ناک گزرا۔ انہیں کینسر کا عارضہ لاحق ہوا اور وہ بھی ایسا کہ بیٹھ سکتے تھے نہ ٹھیک طرح سے لیٹ سکتے تھے۔ انہوں نے اپنی بعد کی کئی کتابیں کروٹ کے بل لیٹے لیٹے مکمل کیں۔ اسی عارضے میں 11 جون 2004ء کو آپ نے دائمی اجل کو لبیک کہا۔ ابوالحسن اصفہانی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

میں ان کے مداحوں میں شامل تھا اور بالعموم ان سے رابطے میں رہتا تھا۔ میں نے کبھی انہیں شکستہ دل اور ملول نہیں پایا۔ انہوں نے ایک بار بھی جھوٹے منہ بھی اپنی بیماری کا مجھ سے تذکرہ نہیںکیا‘ اپنی تکلیفوں کا شکوہ تو بہت دور کی بات ہے۔ وہ روزنہ آٹھ دس انگریزی اور اردو اخبارات کا باقاعدہ مطالعہ کرتے۔ (یہ اخبارات حمید ہارون کی ہدایت پر روزنامہ ’’ڈان‘‘ کی طرف سے انہیں اعزازی طور پرفراہم کیے جاتے تھے۔ یہ بات خود انہوں نے مجھے حمید ہارون کی تعریف کرتے ہوئے بتائی تھی۔) ذرائع ابلاغ سے متعلق خبروں اور مضامین کو نشان زدہ کرتے‘ بعد میں جن کے تراشے تیار کر لیے تھے اور کسی نئی تصنیف کے لیے خام مواد کا کام دیتے۔ حکومت نے ان کی اعلیٰ صحافتی اور تحقیقی خدمات پر انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس دینے کا اعلان کیا‘ جسے انہوں نے اس وقت واپس کر دیا جب حکومت نے کراچی میں شام کے اخبارات پر پابندی لگا دی۔

ضمیر نیازی زندگی بھر آزادی ٔ صحافت کی لڑائی لڑنے والے صحافیوں کا قوتِ بازو بنے رہے۔ کتابوں‘ رسالوں اور اخباروں کے عمیق اور چوکنا مطالعہ نے ان کی معلومات میں غیر معمولی وسعت اور ان کی نظر کو گہرائی عطا کر دی تھی۔ ’’نوائے وقت‘‘ سے وابستگی کے دوران میں نے ان سے تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔ ستمبر 2000ء میں کیا جانے والا یہ انٹرویو اپنی کبنگی کے باوجود آج بھی معلومات افزا اور چشم کشا ہے۔ اس میں کئی رازوں سے پردہ اٹھتا ہے اور کئی چہرے پہچانے جاتے ہیں۔

طاہر مسعود: نیازی صاحب! حکومت نے فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس جاری کیا ہے‘ اس آرڈیننس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا اس کا نفاذ عملاً ممکن ہو سکے گا یا نہیں؟

ضمیر نیازی: سب سے پہلے تو آپ ستم ظریفی یہ ملاحظہ فرمائیں کہ دوسری مرتبہ یہ آرڈیننس آیا ہے۔ ذرا ماضی کی طرف دیکھیے۔ 1963ء کا پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس جو تھا‘ اس کے خلاف بڑی جدوجہد ہوئی۔ اس کی تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔ جنرل محمد ضیا الحق کے زمانے میں اس آرڈیننس کی کچھ دفعات کو غیر اسلامی قرار دیا گیا۔ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی۔ وہ اپیل ابھی سپریم کورٹ ہی میں تھی کہ جنرل ضیا الحق 17 اگست 1988ء کو آسمان سے گر گئے اور اس کے بعد جو عارضی حکومت غلام اسحاق خان کی سرکردگی میں قائم کی گئی‘ اس میں الٰہی بخش سومرو وزیر اطلاعات و نشریات تھے۔ سومرو صاحب نے اس آرڈیننس کو ختم کیا۔ اس کی جگہ رجسٹریشن آف پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس نافذ کیا گیا جو اب تک جاری ہے‘ بلکہ وہ بھی اب ختم ہو چکا ہے کیوں کہ اس آرڈیننس کو پچھلے دو سال سے پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ پھر ایک اور عارضی حکومت ملک معراج خالد کی آئی۔ اس میں وزیر قانون فخرالدین جی ابراہیم تھے۔ وہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ لے آئے۔ انہوں نے جو مسودہ پیش کیا تھا اسے من و عن تو منظور نہیں کیا گیا‘ البتہ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا‘ لیکن اس کے بعد جو جمہوری حکومت آئی‘ اس نے اس آرڈیننس کو دو سال کے عرصے میں کبھی پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں کیا۔ اب یہ ستم ظریفی دیکھیے‘ ایک فوجی حکومت ایک مرتبہ پھر نیا قانون لے آئی ہے اور سب سے حیرت ناک بات یہ ہے کہ بارہ اکتوبر سے آج یکم ستمبر ہے‘ ان گیارہ مہینوں میں ایک آدھ واقعے کے علاوہ نہ کبھی یہ سنا کہ کسی اخبار کے خلاف کوئی تعزیزی کارروائی ہوئی نہ کسی اخبار کا اشتہار بند ہوا‘ نہ کسی اخبار کا کاغذ کا کوٹا بند کیا گیا‘ بلکہ یہ کہ نیوز پرنٹ پر جو پابندی تھی وہ بھی اٹھا لی گئی۔ یہ بھی ہوتا تھا کہ اخبار نویس اٹھا لیے جاتے تھے۔ جنوری 1999ء سے لے کر 12 اکتوبر 1999ء تک اخبار نویسوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ ضیا الحق کے دور میں اتنے ننگے طریقے سے اخبارات پر پابندیاں نہیں لگائی گئیں جتنے بھٹو صاحب کے دور میں لگائی گئیں یا جتنا نواز شریف کے دور حکومت میں صحافیوں پر ظلم ہوا۔ نواز شریف کے دور میں تو اطلاعات کی پالیسی دو جملوں میں بیان کی جاسکتی ہے۔ ’’ایدے نال گل کرو‘‘ گل کرو کا مطلب تھا اسے پیسے دو‘ اسے خریدو‘ اس کا منہ بند کرو اور پھر ’اینو کسو‘‘ یعنی اسے مزا چکھائو۔

طاہر مسعود: حالانکہ اس دور میں ایک صحافی مشاہد حسین صاحب وزیر اطلاعات تھے‘ ایک صحافی کے وزیر اطلاعات ہونے پر صحافت کے ساتھ یہ سلوک روا رکھنا حیرت انگیز نہیں؟

ضمیر نیازی: اس سلسلے میں صحافیوں سے گفتگو ہوئی تو ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ شاید وزارت کی کرسی میں کوئی لعنت ہے‘ جس کی وجہ سے ایسے افسوس ناک واقعات پیش آجاتی ہیں۔ وزارتِ اطلاعات کی کرسی پر تین نہایت قابل افراد متمکن ہوئے۔ ایک تو الطاف گوہر جو ادیب‘ شاعر‘ نقاد اور اعلیٰ پائے کے دانش دانش ور ہیں۔ ان کے سال بھر پہلے تک جو کالم چھپے ہیں ان کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ یہ نہایت عالمانہ کالم تھے اور اس سے بہتر کالم اردو میں نہیں لکھے گئے۔ اتنے بڑے جینئس نے پریس کے ساتھ کیا کیا۔ اس کے بعد سیکرٹری اطلاعات کے عہدے پر ایک نہایت پڑھے لکھے صاحب آئے‘ حسین حقانی۔ لفافہ جرنلزم ان ہی کی ایجاد ہے۔ پنجاب میں انہوں نے اس کو رواج دیا۔ حسین حقانی کے بعد مشاہد حسین صاحب وزارت اطلاعات کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کے زمانے میں ایک بڑے اخبار کے ساتھ کیا ہوا اور پھر انفرادی طور پر صحافیوں کے ساتھ کیا ہوا؟ خاص طور پر خواتین صحافیوں کے ساتھ جو شرم ناک سلوک روا رکھا گیا‘ ماریانہ بابر‘ کاملہ حیات اور ملیحہ لودھی کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ تو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا الا یہ کہ وہ ایک آدمی تھا عرفان اللہ مروت‘ جو غلام اسحاق خان کا داماد تھا‘ اس نے ہیرالڈ کی ایڈیٹر کے ساتھ جو بدتہذیبی کا برتائو کیا تھا۔ مروت ایک گنوار اور جاہل آدمی تھا‘ لیکن یہاں تو مشاہد حسین صاحب بیٹھے ہیں جن کے عہد میں خواتین صحافیوں کے ساتھ افسوس ناک برتائو کیا گیا۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے۔ آپ یقین جانیے کہ مشاہد حسین صاحب نے کچھ عزت‘ شہرت اور وقار حاصل کیا تھا ملک کے اندر اور ملک کے باہر‘ ان سب کو انہوں نے ملیا میٹ کر دیا۔ اب ان کو ایک عظیم صحافی کی حیثیت سے لوگ کم جانیں گے اور ایک وزیر اطلاعات کی حیثیت سے زیادہ جانیں گے اور پھر وہ مردہ اکھاڑا جائے گا‘ عبدالقدیر خان اور کلدیپ نیئر میں ملاقات کرانے۔ اب جو صحافت کی تاریخ لکھی جائے گی اس میںجہاں مشاہد حسین کا کردار زیر بحث آئے گا‘ وہاں یہ سب باتیں لکھی جائیں گی ان کا صحافی کیریئر فٹ نوٹ کے طور پر آئے گا۔ یہ بھی نہیں ہے کہ انہوںنے زمینیں الاٹ کرائی ہوں‘ بینک بیلنس بنایا ہو۔ آخر ان سب باتوں کا مقصد تھا۔

طاہر مسعود: بس طاقت کا نشہ؟

ضمیر نیازی: جی ہاں‘ بس طاقت کا نشہ! یہی کہا جاسکتا ہے۔

طاہر مسعود: اچھا‘ آپ فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس کے بارے میں بتا رہے تھے۔

ضمیر نیازی: اگر یہ 1988ء سے نافذ کر دیا جاتا تو وزیروں‘ سفیروں اور فوجی جنرلوں میں جو کروڑوں اور اربوں کے کرپشن کا ذکر سن رہے ہیں‘ یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ آپ کو بہ خوبی علم ہے کہ آنکھوں میں شدید تکلیف کی بنا پر پڑھنے پر سخت پابندی عائد ہے اس لیے اس وقت صرف یہ عرض کرسکتے ہیں کہ اِدھر اُدھر سے سرسری نظر ڈالنے سے اس آرڈیننس میں ایک چیز ہمیں کھٹکی تھی اور وہ تھی دفعہ چار‘ جس پر ڈان اور نیشن کے اداریوں میں بھی تنقید کی گئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس دفعہ کے تحت افسران کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ جس دستاویز کو ریاست کے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں وہ دستاویز آپ کے حوالے نہ کریں۔ ہمارے ہاں قانون میں ذرا سی بھی لچک ہوتی ہے تو اس کا ناجائز فائدہ بہت اٹھایا جاتا ہے۔ یعنی یہ کہ ملزم کو اس لچک کا فائدہ پہنچانے کے بجائے کوشش ہوتی ہے کہ اس کو اپنی طرف موڑ دیا جائے کہ نہیں صاحب! اگر یہ معلومات افشا ہو گئیں تو اس سے ریاست کو نقصان پہنچے گا۔ دیکھیے اگر شروع سے انفارمیشن ایکٹ ہوتا تو یہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ آپ کے پاس ہوتی۔ یہ کس قدر شرم ناک بات ہے کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پہلے ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ چھاپے اور پھر اس سے لفٹ کرکے ہمارے اخبارات چھاپیں اور یہ لکھیں کہ یہ ہم اپنے بارے میں انڈیا ٹوڈے سے لے کر معلومات شائع کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام آباد اور کراچی میں کوئی واقعہ پیش آئے اور اس کی اطلاع ہمیں بی بی سی لندن سے ملے۔ یہ دنیا میں کہیں ہوتا؟

طاہر مسعود: عام خیال ہے کہ یہ آرڈیننس نہایت مفید اور اچھا ہے۔

ضمیر نیازی: یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ قانون چاہے کتنا ہی مفید و مثبت کیوں نہ ہو جب تک اس پر عمل کے سلسلے میں لیٹر اینڈ اسپرٹ کو مدنظر نہ رکھا جائے‘ اس کی افادیت مشکوک رہتی ہے۔ ابھی تک اخبارات کو آزادی حاصل ہے۔ بڑے اخبارات کا تو ذکر چھوڑیے‘ اب جو چھوٹے چھوٹے اخبار نکل آئے ہیں جنہیں آپ گٹر جرنلزم کہہ سکتے ہیں‘ حکومت نے ان کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی ہے اور یہ اچھا ہی ہے‘ دیکھیے اس ملک کی آبادی چودہ کروڑ ہے‘ اردو‘ انگریزی اور سندھی میں اخبارات کتنے چھپتے ہیں؟ اٹھارہ سے بیس لاکھ۔ ملک کی دو فیصد آبادی بھی اخبارات نہیں پڑھتی تو عوام پر اخبارات کا کیا اثرات ہوگا۔ آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔

طاہر مسعود: اس وقت ملک میں صحافت کی آزادی کا دعویٰ کیا جاتا ہے‘ آپ کی رائے میں یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے؟ اگر یہ دعوی درست نہیں ہے تو صحافت کی آزادی کو کس طرح سے اور کس قسم کے خطرات لاحق ہیں؟

ضمیر نیازی: ہمارے ہاں اخبارات پر تین طرح کی پابندیاں عائد رہی ہیں۔ ایک تو حکومت کی طرف سے جو ہمیشہ رہی ہے۔ دوسری مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے دبائو اور تیسری مالکان کی طرف سے۔ یہ تین طرح کے دبائو اخبارات پر رہے ہیں۔ جہاں تک پہلے دبائو کا تعلق ہے ادھر گیارہ مہینے میں ایک واقعے کے علاوہ کچھ نہیں ہو اکہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس استعمال کرکے پشاور کا ایک روزنامہ ’’انقلاب‘‘ 6 اگست کو ضلع مجسٹریٹ صاحب نے بند کر دیا۔ الزام یہ تھا کہ اس نے چیف سیکرٹری صاحب کے خلاف کوئی خبر شائع کی تھی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ’’ڈان‘‘ نے اندر کے صفحات پر ایک چھوٹی سی خبر شائع کی‘ کسی اور اخبار نے اس بندش کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ صحافیوں کی انجمنوں کی طرف سے اس واقعے کی مذمت میں کوئی بیان نہیں آیا۔ سوائے اس واحد واقعے کے‘ گیارہ مہینے میں مشرف حکومت نے اخبارات کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی۔ جہاں تک دوسرے دبائو کا تعلق ہے وہ کم ہو گیا ہے لیکن ڈرگ مافیا اور خواتین کی خریدوفروخت اور اسلحے کا کاروبار کرنے والوں کا دبائو بڑھ گیا ہے اور پچھلے تین مہینے میں سندھ میں دو صحافی مارے جا چکے ہیں اور اس بارے میں اخبارات کے اندرونی صفحات میںدو دو‘ تین تین پیرا گراف میںخبریںچھپی ہیں اور ان کا کوئی فالواَپ نہیں چھپا۔ ایک قتل کے سلسلے میں اے پی این ایس نے گورنر سے احتجاج کیا اور پھر معاملہ ختم ہو گیا۔ واشنگٹن میں ایک تنظیم ’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘ ہے‘ اس نے دو صحافیوں کے قتل کے خلاف دنیا بھر میں ہنگامہ مچایا۔ ’’انڈیکس آن سنسر شپ‘‘ ایک رسالہ نکلتا ہے‘ اس نے شور مچایا۔ انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ نے اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا ہے لیکن ہمارے ہاں اخبارات نے اس کے خلاف کوئی بڑا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ ہمیں انٹرنیٹ کے ذریعے یہ ساری اطلاعات مل جاتی ہیں۔ پتا نہیں کیا بات ہے کہ ہمارے مالکان اخبارات کے علاوہ عامل صحافی بھی اس بات پر قانع ہوگئے ہیں کہ ان کی روٹی روزی چلتی رہے۔ باقی جو واقعات پیش آ رہے ہیں‘ اس کی انہیں کوئی پروا نہیں ہے۔

طاہر مسعود: ملک میں ایک غیر نمائندہ فوجی حکومت ہے‘ دستور معطل ہے‘ جمہوریت عنقا ہے لیکن پریس آزاد ہے۔ اس صورت حال میں صحافت پر کیا ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں اور آپ کی رائے میں اخبارات و رسائل اپنی آزادی کا صحیح سمت میں استعمال کر رہے ہیں یا نہیں؟

ضمیر نیازی: آپ کے سوال کے کئی حصے ہیں‘ پہلی بات تو یہ کہ یہ غیر نمائندہ فوجی حکومت سے سوچنے کی بات ہے کہ جب نمائندہ حکومتیں تھیں تو ان کا پریس کے ساتھ کیا روّیہ تھا‘ ابھی ہم اس پر بات کر چکے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آج سب سے بہتر دور ہے۔ پریس پر تنگی دو ادوارِ حکومت میں آئی۔ ایک فوجی حکومت اور ایک جمہوری حکومت کے دور میں۔ فوجی حکومت وہ تھی جب ضیا الحق کا پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس سے گزارہ نہیں ہوا تو انہوں نے پریس ایڈوائس جاری کرنے شروع کر دیے۔ ہماری کتاب ’’ویب آف سنسر شپ‘‘ میں ہم نے ایک دن میں گیارہ پریس ایڈوائسزز کی تفصیل دی ہے۔ سنسر شپ لگی ہوئی ہے‘ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 499 اور 500 میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ وہ چیز بھی شائع نہیں کر سکتے جو عوام مفاد میں ہو۔ اس دور میں صحافیوں کو کوڑے بھی مارے گئے۔ ایک جمہوری دورِ حکومت تھا جسے ’’عوامی حکومت‘‘ کا نام دیا گیا تھا‘ جس میں عوامی لباس اور عوامی انداز کو اپنایا گیا تھا‘ اس میں ’’جسارت‘‘، ’’زندگی‘‘ اور ’’پنجاب پنج‘‘ کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ انہوں نے تو حد کر دی کہ تین اخبارات اور رسائل بند کر دیے اور یہ حکم جاری کیاکہ اس کے ایڈیٹر جب رہا ہو کر آئیںگے‘ آئندہ صحافت نہیں کریں گے۔ وہ صحافی نہیں رہے‘ مجرم ہو گئے‘ پریس کی اپنی کمزوریاں ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کالی بھیڑیں اس پیشے میں بہت آگئی ہیں‘ بلکہ اگر یہ کہا جائیٔ کہ کالی بھیڑیں خاصی بڑئی تعداد میں گھس آئی ہیں تو یہ کوئی مبالغہ نہیں ہوگا لیکن اس کے باوجود ان لوگوں نے جنہوں نے صحافت کو صرف روٹی روزی کمانے کا ذریعہ نہیں سمجھا تھا بلکہ اسے معزز پیشہ سمجھ کر اختیار کیا تھا‘ صحافت کے پیشے کی لاج رکھی۔ وہ نام نہاد جمہوری دور ہو یا فوجی آمریت کا دور‘ کوئی بھی صحافت کا دوست نہیں رہا۔ ہر دور میں اگر کسی نے صحیح معنوں میں حزب اختلاف کا کردار ادا کیا ہے تو وہ اخبارات ہیں حالانکہ ہماری صحافت میں بہت کمزوریاں ہیں اس کے باوجود سیاسی جماعتوں ے زیادہ مؤثر کردار حزب اختلاف کا صحافت نے ادا کیا۔ ہماری صحافت پر ہر قسم کا دبائو ہے‘ اندرونی بھی اور بیرونی بھی‘ اس کے باوجود صحافیوں کا ایک گروہ ڈٹا ہوا ہے اور جب تک یہ گروہ ڈٹا ہوا ہے‘ ہمیں صحافت کے مستقبل سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

(جاری ہے)

حصہ