آئو سیزن کمائیں

301

”دیکھ بھئی گڈو اب کے بالکل بھی آسرا نہیں کر یو جتنا بھی مال گودام میں پڑا ہے سارا نکال لے اور وہ جو مٹر کے دانے نکلوائے تھے چکی پر بھیج دے اس سے کہنا کہ اس مرتبہ بیسن کا آڈر زیادہ ہے لہٰذا ایک تین کا حساب رکھے جبکہ کالی مرچ ہلدی اور سرخ مرچ میں بھی کاروائی ڈال دے اور سن پچھلے سال کا بچا سارا مال کاؤنٹر سے آگے بڑھا کر رکھیو گھی اور آئل چھپر کر دے اس پر پیسے بڑھنے والے ہیں یہ دو چار دن تک غائب کر دے آٹا اور چینی نئے ریٹ پر بیچنا ہے“۔

”ٹھیک ہے ستار بھائی لیکن انار دانہ اور املی کالی پڑ گئی ہے اس کا کیا کرنا ہے؟“

”ابے سب بک جائے گی دو قطرے رنگ کاٹ کیمیکل مار دے فریش ہو جائے گی آلوبخارے پر بھی چھیٹا مار دیئو اس سیزن میں کچھ بچنا نہیں چاہے سارا کچرا نکال دے“۔

رمضان کی آمد پر گڈو اور ستار بھائی باتیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں کا رمضان مبارک کو سیزن سمجھنا انتہائی دل خراش ہے۔ یہ ایک گڈو اور ستار کا معاملہ نہیں بلکہ ہر دوسرا کاروباری شخص رمضان مبارک کے بابرکت مہینے کو مال کمانے کا سیزن ہی سمجھتا ہے کتنے افسوس کی بات ہے کہ مسلمان ہو کر بھی ہم رحمتوں برکتوں اور گناہوں سے معافی سنانے والے اس مہینے کی افادیت سے بے خبر ہیں جب کہ جنہیں ہم کافر کہتے ہیں وہ اس مہینے کے تقدس کو خوب جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ رمضان مسلمانوں کے لیے نیکیاں لوٹنے کا مہینہ ہے انہیں یہ بھی معلوم کہ اس ماہ مقدس میں کی جانے والی عبادات اور خدمت انسانیت کا خاصا آجر ہے تب ہی تو یورپ اور امریکہ میں حکومتی سطح پر نہ صرف غیر مسلم مذہبی تہواروں پر عوام کو ریلیف دینے کے لئے خصوصی پیکیج دیے جاتے ہیں،بلکہ یہودی،وعیسائی حتیٰ کہ سکھ اور ہندو بھی مسلمانوں کے مذہبی تہواروں پر آسانیاں دینے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے ہیں اور روزمرہ استعمال کی اشیاء سمیت مخصوص چیزوں پر ڈسکاؤنٹ کا اعلان کرتے ہیں تاکہ غریب مسلم اور مستحق خاندان خوشیوں میں شریک ہو سکیں،جو لوگ دیار غیر میں رہ کر آئے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ وہاں غیر مسلم و غیر مسلم اپنے اپنے مذہبی تہواروں کا شدت سے انتظار کرتے ہیں تاکہ خصوصی دنوں میں خصوصی رعایت کا فائدہ اٹھا سکیں یہ حیرت نہیں تو اور کیا ہے کہ یہ سب کچھ غیر مسلموں کے ممالک میں ہوتا ہے۔جبکہ99فیصد مسلمانوں کا ملک جو کلمہ طیبہ کے نام پر بنا ہے یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غیر مسلم ممالک کے برعکس مذہبی تہواروں کی آمد پر ان کو لوٹنے کی منصوبہ بندی کی جاتی،یہاں دکاندار اور گاہک دونوں ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے پاکستان میں سارا سال دکاندار 15فیصد قیمتیں بڑھا کر 10فیصد خصوصی سیلز کی مہم چلاتے ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ امت مسلمہ کی زندگی میں اللہ نے رمضان المبارک کو نیکیوں کا موسم بہار قرار دیا ہے سارا سال گناہ کرنے والوں کو رمضان میں معافی کے حصول اور خصوصی رحمتوں کا پیکیج دیا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک خصوصی رات کا پیکیج بھی دیا گیا ہے اس ایک رات میں کلمہ گو مسلمان اللہ کو راضی کر کے83سال کی عبادت کا ثواب حاصل کر سکتا ہے۔اس پر ماتم نہ کیا جائے تو اور کیا کریں کہ مغربی ممالک کے برعکس ہمارے ہاں الٹی کنگا بہتی ہے پاکستان میں رمضان المبارک کی آمد سے پہلے پاکستانی جس شعبہ سے بھی وابستہ ہو ذخیرہ اندوزی اور اشیاء کی قلت پیدا کرکے مرضی کی قیمتیں وصول کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے اشیاء ضروریہ کو رمضان پیکیج کا نام دے کر مہنگے داموں کیا جاتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے ایک سوزوکی میں خربوزہ فروخت کرنے والا شخص رمضان آفر خربوزہ ڈیڑھ سو روپے کلو کی آوازیں لگاتا جارہا تھا یعنی وہ اپنا مہنگا اور خراب مال فروخت کرنے کے لیے رمضان مبارک جیسے مقدس مہینے کا نام استعمال کرتے ہوئے سادہ لوح عوام کی جیبیں پر ڈاکہ ڈالنے میں مصروف تھا یہ ایک واقعہ نہیں جہاں بھی چلے جائیں ہر طرف سے سیزن کمانے کی آوازیں بلند ہوتی سنائی دیتی ہیں،

جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ وہ مذاہب جن کے معاشرے میں جھوٹ فریب عام اور انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی ان کا معاشرہ انسان دوست ہوتا جا رہا ہے جو اپنے مذہب سے لاتعلق تھے آج دوسرے مذاہب کا احترام کرنے لگے ہیں۔ قرآن ہمیں انسانیت سے محبت خاص طور پر مسلم مذہبی تہواروں کو عقیدت واحترام کے ساتھ منانے کا درس دیتا ہے جب کہ ہم نے رمضان المبارک جیسے ماہ مقدس کو بھی سیزن کمانے کا ذریعہ بنا ڈالا افسوس صد افسوس ،ہونا تو یہ چاہیے کہ اس ماہ مقدس کو منافع سیزن کے بجائے،رب کی رضا کے سیزن کے طور پر منائیں اور اعلان کریں کہ ہم اس ماہ کے دوران منافع نہیں کمائیں گے۔ ہمارے حکمران اعلان کریں کہ اس ایک ماہ کے دوران،قانون پر ہر حال میں سختی سے عملدرآمد کروایا جائے گا اور ذخیرہ اندزوں، منافع خوروں کے خلاف سختی سے کارروئی عمل میں لائی جائے گی اور یہ عملی طور پر ہوتا ہوا نظر آئے جب کہ اہل خیر صدقہ،خیرات،زکوٰۃ تقسیم کرتے وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ضرورت مندوں تک پہنچ جائے۔عام طور پر یہ ضرورت مند ہمارے آس پاس ہی سفید پوشوں کی شکل میں موجود ہوتے ہیں،لیکن ہم اپنے رویوں کی وجہ سے ان سے دور ہوتے ہیں۔عوام بھی سادگی اورکفایت شعاری اپنائیں اور اس بات کو ذہن نشین کرلیا جائے کہ یہ مہینہ بھرپور عبادت کا ہے سب مل کر عہد کریں کہ اس مبارک ماہ کو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے آسانیاں بانٹتے گزاریں گے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اس مہینہ میں اعمال صالحہ کرنے میں جلدی کریں ہمیں چاہیے کہ ہم اس ماہ مبارک میں اللہ تعالی کی رضا مندی والے کام کریں اورایسے کام کرنے پرحرص رکھیں جوروزقیامت ہماری سعادت کا باعث ہوں ۔

ہمیں سوچنا ہوگا بلکہ عمل کرنا ہوگا کہ ہم رمضان المبارک کی تیاری کس طرح کریں؟

رمضان المبارک کی تیاری کے لیے ہم کواپنا محاسبہ کرنا ہوگا ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہم نے کلمہ طیبہ کے تقاضے کے مطابق کتنا عمل کیا یا کہ واجبات وفرائض میں کچھ کمی وکوتاہی کی ہے اورخواہشات پرعمل پیرا رہے ہیں ؟

لہٰذا ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ ہم رمضان المبارک میں اعلیٰ درجہ کے ایمان پر فائز ہوجائیں،یہ بات بجا ہے کہ ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی رہتی ہے مسلمان کا ایمان اطاعت کرنے سے زیادہ اورقوی ہوتا ہے،لیکن اگر نافرمانی کی جائے تو اس سے ایمان میں کمی اورنقصان پیدا ہوتا ہے۔اس بات کا اعتقاد رکھا جائے کہ معبود برحق صرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک ہے،اس لیے ہمیں چاہیے کہ تمام قسم کی عبادات صرف اورصرف اللہ تعالی کے لیے بجالائیں، اورکسی بھی عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی شرک نہ کریں۔

اورہم میں سے ہرایک کویہ یقین رکھنا چاہیے کہ اسے جو کچھ پہنچنے والا ہے وہ اس سے علیحدہ نہیں ہوسکتا وہ لامحالہ اسے پہنچ کررہے گا،اورجواس سے دور رہ جائے وہ اس تک نہیں پہنچ سکتا یعنی جونقصان ہونا ہو وہ ہوکررہتا ہے اورجو نہ ہونا ہو وہ کبھی بھی نہیں ہوسکتا،

ہمیں ہر اس چیز اورکام سے اجتناب کرنا چاہیے جو توحید اور اللہ تعالیٰ کے مخالف ہو ہمیں بدعات وخرافات اور دین میں نئی نئی رسم ورواج سے دور رہنا چاہیے،اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ولاء والبراء پر بھی عمل کرنا ضروری ہے کہ ہم مسلمانوں اورمومنوں سے محبت وبھائي چارہ رکھیں،

ہمیں مسلمانوں کے کفارپر غالب ہونے پر خوش ہونا چاہیے،اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام کے طریقے پر عمل پیرا ہونا چاہیے،اسی طرح ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفاء راشدین کی سنت اورطریقہ پر چلنا چاہیے۔ہم سنت سے محبت کریں ہمیں اپنے آپ کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم میں کیا کمی وکوتاہی ہے،ہم کتنی اطاعت کرتے ہیں۔اللہ تعالی کا ذکر کتنا کرتے ہیں،پڑوسی،رشتہ داروں اورمسلمانوں کے حقوق کتنے ادا کرتے ہیں،امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا کام کرتے ہیں کہ نہیں،ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہیں،اوران سب کاموں میں آنے والی تکالیف پر صبر کریں،اوربرائی سے بھی پرہیز کریں،اللہ تعالی کی اطلاعت کریں اورتقدیر پر بھی صبر کریں ۔

بعد معاصی اورشہوات کی اتباع کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے اوراپنے آپ کو ان معاصی سے اجتناب کرنا چاہیے،چاہے وہ معصیت چھوٹی ہویا بڑی،اور اسی طرح وہ معصیت وگناہ آنکھ سے حرام چيز کی طرف دیکھنے،یا پھر کان سے حرام اشیاء موسیقی اور گانے سننے پر بھی محاسبہ کرنا چاہیے اوراس سے پرہيز کرنا ضروری ہے،اسی طرح اپنے پا‎‎ؤں سے صرف اللہ تعالی کی رضا اورخوشنودی والے کام کی طرف ہی چلنا چاہیے،

اللہ تعالی کی نافرمانی والے کام میں نہیں چلنا چاہیے ۔جہاں پر اللہ تعالی کی نافرمانی ہوتی ہو،اللہ تعالی کی طرف سے حرام کردہ اشیاء کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔سود خوری اور رشوت وغیرہ سے اجتناب کرنا ضروری ہے،اوراسی طرح لوگوں کا ناحق مال کھانے سے بھی بچنا چاہیے اورمحاسبہ کرنا چاہیے۔

آخر میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ وہ ہم سب کو اعمال صالحہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورصحیح معنی میں روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے،اللہ تعالی اطاعت کرنے اورمنکرات سے بچنے کی توفیق دے۔

حصہ