محمد حسن عسکری کل اور آج

207

شمس الرحمان فاروقی کی یادگار گفتگو

(گیارہویں اور آخری قسط)

عسکری صاحب کے یہاں روایت، جیسا کہ میں پہلے بتاچکا ہوں، زبانی تسلسل پر قائم تھی۔ اور ابھی بیسویں صدی کی آٹھویں نویں دہائی تک مغربی روشن فکری کی نظر میں زبانی روایت ہر جگہ غیر معتبر تھی۔ مغربی روشن فکری نے تحریر پر بہت اصرار کیا اور کہا کہ جو چیز لکھی ہوئی نہیں ہوگی اسے ہم نہیں مانیں گے۔ زبانی باتیں جھوٹی ہوتی ہیں، یا غلط ہوسکتی ہیں، یا corrupt ہوسکتی ہیں۔ کسی بات کا سب سے اچھا ثبوت تحریری ثبوت ہے۔

تو اس طرح سے جتنی بھی فکری بنیادیں ہیں روشن فکری کی وہ سب عسکری صاحب کو ناقبول تھیں۔ اور اس روشن فکری، اس Enlightenment کے نتیجے میں جو مادی اور مالی ترقی ہوئی Physics میں Medicine میں، اور دوسرے تمام سائنسی علوم میں، ٹیلیفون بنا، ریڈیو بنا اور ٹی وی بنا۔ کمپیوٹر بنا۔ انسان چاند تک پہنچا۔ انسان نے genetic code کو توڑنے کی کوشش کی اور بڑی حد تک اسے توڑ بھی لیا۔ ان چیزوں کی عسکری صاحب کے خیال میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب فروعی ہیں اور گویا حاشیے پر ہیں۔ انسان کا اصل مقصد سکون قلب (قلب مطمئنہ) حاصل کرنا اور خیر و خوبی کو پہچاننا اور فوق الانسان کے ابعاد کو سمجھنا ہے۔ یہ نہیں کہ آپ نے ٹیلیفون بنالیا اور یہاں سے بیٹھے بیٹھے آسٹریلیا، امریکہ، بات کرلی۔ یا آپ نے راکٹ بنالیا اور خود کو چاند تک پہنچادیا۔ یہ چیزیں تو محض شعبدے ہیں۔ جیسا کہ اقبال نے کہا تھا،

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

یہ بات صحیح ہے کہ سائنس بہت ترقی کر رہی ہے۔ لیکن انسان اب بھی نہیں سمجھ پایا کہ آخر اتنی بڑی کائنات کہاں سے آئی؟ اس میں اتنا مادہ (matter) کہاں سے آیا؟ اگر اللہ نے اسے نہیں بنایا تو کائنات کس نے بنائی؟ اگر یہ مادہ energy یعنی توانائی کی بدلی ہوئی صورت ہے تو توانائی کی اصل کیا ہے؟ اور کتنی بڑی کائنات ہے یہ؟ پھیل رہی ہے کہ سکڑ رہی ہے؟ ٹوٹ رہی ہے کہ بنتی چلی جارہی ہے؟ عسکری صاحب اس کتاب میں کہہ رہے تھے کہ جو بھی نظام فکر قائم کیا گیا ہے عقل اور دانش کے نتیجے میں، وہ انکاری ہے روحانیت کا، اور وہ خود شکوک سے بالاتر نہیں۔ روحانیت، اور اس کا لایا ہوا یقین ہی انسان کا اصل مقصود ہے۔ لہٰذا وہ ان سب چیزں کو گمراہی قرار دیتے ہیں جن پر آج کی مغربی دنیا قائم ہے۔

اصل بات یہی ہے کہ دو الگ راستے ہیں۔ اگر انسان کا مقصود خدا کے وجود کے بارے میں چھان بین کرنا ہے تو اس کے لیے بھی بعض سائنس داں اب بھی کہتے ہیں کہ سائنس بتادے گی کہ اللہ میاں کہاں ہوتے ہیں؟ لیکن ہم کیسے ان تک پہنچ سکتے ہیں، اس کا جواب سائنس نہیں دیتی۔ روحانیت کہتی ہے کہ خدا اندر قیاس مانہ گنجد۔ یہ آلہ ہی بیکار ہے، دانش سے روح کی گتھی نہیں حل ہوتی۔ ہمیں کشف درکار ہے۔ اور کشف کا انکار سائنس اس لیے کرتی ہے کہ سائنس کہتی ہے کہ کشف بدلتا رہتا ہے، آج کچھ ہے کل کچھ ہے۔

یا تمہارا کشف کچھ ہے ہمارا کشف کچھ ہے۔ اور ہر کشف سچا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور کشف کا کوئی Test نہیں، کوئی قاعدے نہیں۔ اس کے بدلے سائنس داں استدلال اور تحریر لاتا ہے۔ سائنس داں کہتا ہے کہ ہمارا ہر نظریہ کسی استدلال پر مبنی ہے اور استدلال کے مسترد ہوجانے میں مجھے کوئی اعتراض نہیں، کیونکہ ہر استدلال کسی مشاہدے اور نظریے پر قائم ہوتا ہے۔ کوئی بہتر استدلال ہی پچھلے استدلال کو مسترد کرے گا، کوئی بہتر مشاہدہ یا نظریہ ہی پچھلے مشاہدے یا نظریے کو مسترد کرے گا۔ سائنس اسی طرح آگے بڑھتی ہے۔

تو یہ دو دھارے ہیں فکر کے۔ ایک دھارا وہ ہے جو کہتا ہے کہ انسان کے وجود کا مقصد روحانیت کے مراحل طے کرنا اور خالق کائنات کے نزدیک پہنچنا ہے۔ اسے ہم وصول الی اللہ کہتے ہیں، صوفیانہ زبان میں۔ وصول الی اللہ کے لیے تعلق مع اللہ قائم کرنا ہوگا۔ اور تعلق مع اللہ قائم کیسے ہوگا؟ تعلق مع اللہ قائم ہوگا روایت کی مختلف بصیرتوں کو اپنے اندر جذب کرنے سے۔ اور روایت کہاں سے آئی ہے؟ روایت آئی ہے پیغمبرؐ سے اور پیغمبرؐ کے ماننے والوں سے چلی آرہی ہے سینہ بہ سینہ۔ فکر کا دوسرا دھارا کہتا ہے نہیں، انسان کا مقصد کائنات میں اپنے وجود کو قائم و مستحکم کرنا اور ماحول یعنی Environment پر قابو پانا ہے۔ سردی لگ رہی ہے، گرم کپڑے پہنیے۔ گرمی لگ رہی ہے ایرکنڈیشنر چلا لیجیے۔ فاصلہ لمبا ہے، موٹر گاڑی پر بیٹھ جائیے، اور زیادہ لمبا ہے تو ہوائی جہاز، ورنہ راکٹ ہے۔ کوئی بیماری ہے، دوا کھالیجیے یا عمل جراحی سے تبدل عضو کرالیجیے۔

وڈزورتھ کی (Wordsworth) مشہور نظم ہے،

Three years she grew in sun and shower,
Then nature said: a loverlier flower
On earth was never sown;
This child I to myself shall take,
She shall be mine, and I will make
A lady of my own.

اب وہ لڑکی تین سال تک کھلے جنگلوں میں رہتی ہے، دھوپ میں طوفان میں، طرح طرح کے جنگلی جانوروں اور خطرات کے درمیان۔ بقول ورڈزورتھ اس طرح وہ فطرت سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے،

She shall be sportive as the fawn
That wild with glee across the lawn
Or up the mountain springs;
And hers shall be the breathing balm,
And hers the silence and the calm
Of mute, insensate things.

اس پر بعض جدید نقادوں نے کہا فطرت سے ہم آہنگی تو درکنار، تین سال تک کسی نوزائیدہ لڑکی کو تنہا چھوڑ دیجیے جنگل میں تو وہ بھوک سے مر جائے گی، یا اس کو نمونیہ ہوجائے گا، یا لو لگ جائے گی، یا جانور کھاجائیں گے۔ یعنی بنیادی طور پر دنیا کا ماحول انسان کے لیے مانند Hostile ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ اس Hostile ماحول کو کس طرح قابو میں لائیں، یہ ہمارا مسئلہ ہے۔ لیکن روحانیت کہتی ہے کہ نہیں، دکھ اٹھانا یا آرام سے رہنا، کائنات پر قابو پانا یا کائنات میں بیگانوں کی طرح رہنا، یہ مسائل غیر ضروری اور فروعی ہیں۔ جب تعلق مع اللہ قائم ہوجائے گا تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یا پھر یہ سب باتیں غیراہم ہوجائیں گی، کیونکہ ہم بلند تر حقیقتوں سے ہم آہنگ ہوچکے ہوں گے۔

تو جب عسکری صاحب اس اصول کے حامی ہیں کہ تعلق مع اللہ اور وصول الی اللہ ہی اصل چیز ہیں، تو ظاہر ہے کہ وہ تمام فلسفے جو اللہ کے وجود کو کہیں نہ کہیں منہا کرکے بات کرتے ہیں کائنات کے بارے میں، عسکری صاحب کی نظر میں گم راہی کے سوا کیا ٹھہریں گے؟

سوال: تو کیا آپ کے خیال میں عسکری صاحب کا سارا اختلاف اس بات پر مرتکز تھا کہ مغرب کی تہذیب بے خدا تہذیب ہے اور مغرب کا معاشرہ بے دین معاشرہ ہے؟

شمس الرحمٰن فاروقی: اگر بہت موٹے اور عمومی طور سے کہی جائے تو یہ بات صحیح ہے۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ کیونکہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کوئی تہذیب خدا کو کیوں ترک کرتی ہے، اور کوئی معاشرہ بے دین کیوں ہوجاتا ہے؟ میں نے ابھی آئیسایا برلن کا ذکر کیا ہے کہ اس کی فہرست مجرمین میں کئی نام روشن فکری یعنی Enlightenment والوں کے ہیں۔ ابھی کچھ دن ہوئے سید حسین نصر کے ان خطبات کا مجموعہ شائع ہوا ہے جو انہوں نے مانچسٹر یونیورسٹی میں دیے تھے، 2000ء میں۔ ان خطبات میں انہوں نے صاف کہا ہے کہ روشن خیالی آج کے تمام مسائل اور پریشانیوں اور خرابیوں کی بنیاد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ روشن خیالی نے انسان میں غرور (Hubris) اور خودپسندی پیدا کردی، اور ساری مشکلیں یہیں سے شروع ہوئیں۔ گویا مغرب کی لادینی سبب نہیں ہے، نتیجہ ہے مغرب کی دنیاے افکار میں خود پسندی اور غرور کے عناصر کے داخل ہونے کا۔

سوال: بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ابلیس کے غرور نے جنت سے انسان کی بے دخلی کا سامان کیا، تو گویا روشن خیالی انسان کے ہبوط دوم کا سبب بنی، اور وجہ یہاں بھی وہی غرور تھا؟

شمس الرحمٰن فاروقی: ہاں، ایک طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا افسانہ غرور سے غرور تک کا افسانہ ہے۔ غرور کے باعث انسان اپنی ہستی کو ترک نہیں کرتا، اپنے سے بڑی کسی حقیقت میں، اپنے سے برتر کسی وجود میں اسے ضم نہیں کرتا۔
سوال: یہ تو گویا وہی میر والی بات ہوگئی جو عسکری صاحب کہا کرتے تھے کہ میر بڑے شاعر ہیں کیونکہ وہ اپنی شخصیت کو اپنے معشوق کے سامنے بالکل ختم کرڈالتے ہیں۔

شمس الرحمٰن فاروقی: میں تو اس سے اتفاق نہیں کرتا، جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں۔ بعض مسائل کے حل بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ حل انتہائی سادہ اور سڈول یا Elegant ہوتے ہیں۔ اب رہی Enlightenment کی بات، تو یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے، کہ عسکری صاحب، اور اب سید حسین نصر کا تجویز کردہ حل کچھ ضرورت سے زیادہ سادہ معلوم ہوتا ہے۔

حصہ