رمضان صبر اور غم خواری کا مہینہ

روزہ دنیا و آخرت میں سکون اور عافیت کا آسان ذریعہ ہے

اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی مخلوق میں کسی کو کسی پر فضیلت دی ہے اسی طرح بعض مہینوں کو دوسرے مہینوں پر فوقیت عطا فرمائی ہے۔ دنیا میں انسان تو بہت ہیں مگر انبیائے کرام کی فضیلت عام انسانوں سے زیادہ ہے۔ شہر تو بہت ہیں لیکن تمام شہروں میں مقدس شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہیں۔ مہینے تو بہت سے ہیں مگر رمضان کا مہینہ سب سے زیادہ بابرکت اور فضیلت کا حامل ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ کی روایت کے مطابق شعبان کی آخری تاریخ کو آپؐ نے خطبہ دیا جس میںماہِ ذی شان یعنی رمضان کی فضیلت بیان فرمائی‘ آپؐ نے فرمایا ’’لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے‘ اس مبارک مہینے کی ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ہے اس مہینے کے روزے اللہ نے فرض کیے ہیں‘ اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑا ہونے کو عبادت قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی نفل عبادت کرے گا اسے دورے مہینوں کے فرضوں کے برابر اس کا اجر ملے گا۔ اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے مہینوں کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی کا اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے‘ جس نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو افطار کرایا یہ اس کے لیے گناہوں کی مغفرت‘ آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہے اور اسے روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے روزے دار کے ثواب میں کمی کی جائے۔‘‘

رمضان وہ مقدس مہینہ ہے جس کو سال کے دوسرے مہینوں پر فضیلت اور فوقیت حاصل ہے۔ اس میں شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے‘ ہر نیکی کا ثواب ستر گنا ہوجاتا ہے۔ دعا کی قبولیت بڑھ جاتی ہے اس ماہ میں اللہ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ بہت سے جہنمیوں کو آزاد کرتے ہیں جن پر دوزخ واجب ہو چکی ہوتی ہے‘ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے‘ جس میں ہدایت کی اور نیک و بد کی تمیز کی گئی‘ یہ رحمت مغفرت جہنم سے نجات اور اللہ کی قرب حاصل کرنے کا خاص مہینہ ہے۔

رمضان کو سلامتی اور بہترین کمائی کے ساتھ گزرنے کے لیے سب سے پہلے نگاہ کی حفاظت ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’نگاہ ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اس سے اللہ کے خوف سے بچا رہا تو اللہ اسے ایسا ایمان نصیب فرماتے ہیں جس کی حلاوت و لذت وہ قلب میں محسوس کرے گا۔‘‘ دوسری چیز زبان کی حفاظت ہے۔ جھوٹ‘ چغل خوری‘ لغویات‘ غیبت‘ عیب جوئی‘ بدگوئی‘ بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ سب اس میں داخل ہیں۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے ’’روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے‘‘ اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ زبان سے فحش یا جہالت کی بات نہ کرے۔ کسی کا مذاق نہ اڑائے اور لڑائی جھگڑے سے گریز کرے۔ اگر کوئی دوسرا کرنے لگے تو کہے کہ میرا روزہ ہے۔ اگر وہ بے وقوف اور ناسمجھ ہے تو خود کو سمجھائے کہ تیرا روزہ ہے‘ تجھے ایسی بات کا جواب دینا مناسب نہیں‘ غیبت اور جھوٹ سے تو بہت ہی پرہیز کرے۔

تیسری چیز کان کی حفاظت ہے۔ ہر مکروہ چیز سے جس کا کہنا اور زبان سے نکالنا ناجائز ہے ان کی طرف کان لگانا اور سننا بھی ناجائز ہے۔ غیبت کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں شریک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بقیہ اعضا کو بھی ہر طرح کے غلط کاموں سے بچانا ضروری ہے۔

رمضان میں صرف دن میں روزہ اور رات کو تراویح نہیں پڑھتی جاتی بلکہ درحقیقت یہ مہینہ مسلمانوں کی سالانہ تطہیر‘ تزکیہ نفس کا مہینہ ہے‘ کوئی بھی مشین ہو یا گاڑی ہو کچھ عرصے کے استعمال سے اس میں میل کچیل آنے لگتا ہے‘ ہماری زندگی کی مشینری گیارہ مہینے کی مصروفیات می میل کچیل کا شکار ہو جاتی ہے اور زنگ آلود ہونے لگتی ہے اللہ نے رمضان کا مہینہ عطا فرمایا تاکہ ہم اپنے گناہوں کے میل کچیل کو صاف کرلیں۔ صرف ڈھائی فیصد سالانہ غربا‘ مساکین‘ مسافروں اور ضرورت مندوں کو فراخ دلی اور خوش دلی سے ادائیگی۔ یہ ساری عبادات روحانی ترقی اور تعلق خداوندی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ بے دلی سے کی ہوئی عبادات کا اجر و ثواب کم ہوتا ہے۔ ہم سال کے گیارہ مہینے اسی کیفیت میں گزارتے ہیں۔

رمضان کو قرآن سے ایک خاص نسبت ہے اللہ ے نزولِ قرآن کے لیے اس مہینے کو منتخب فرمایا۔ آپؐ حضرت جبریل سے رمضان میں قرآن کا دور فرمایا کرتے تھے اس لیے تلاوت قرآن اس ماہ میں کثرت سے کرنا سنت سے ثابت ہے۔ رمضان سے پہلے گناہ کے دو محرک ہوتے ہیں نفس اور شیطان۔ رمضان میں شیطان کا محرک اللہ تعالیٰ نے ختم کر دیا اب صرف نفس کا محرک رہ گیا ہے اور ایک دشمن سے مقابلہ آسان ہوتا ہے۔ جس کا رمضان خیریت سے بغیر گناہ کے گزر گیا اس کا پورا سال ان شاء اللہ خیریت سے گزر جائے گا۔

روزہ اللہ کے لیے ہے اور اس کا اجر وہی دے گا۔ روزہ دار کے منہ کی بُو بھی مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں لیلٰۃ القدر میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ روزے دار کی دعا قبول ہوتی ہے۔ روزہ بروز قیامت سر محشر انسان کی بخشش کے لیے اللہ کے ہاں سفارش کرے گا۔ روزے دار کو دو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں ایک خوشی تو افطار کے وقت دوری خوشی اس وت ملے گی جب انسان اپنے رب سے ملے گا۔

اس ماہِ مبارک کا پہلا عشرہ اللہ کی خصوصی رحمتوں کا ہوتا ہے‘ دوسرا عشرہ خاص طور پر بخشش اور مغفرت کا ہوتا ہے اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی اور خلاصی کا ہوتا ہے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ’’اگر لیلۃ القدر کے متعلق معلوم ہو جائے تو اس میں کون سے دعا مانگوں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا تیسراعشرہ نارجہنم سے نجات ہے اس میں یہ دعا کثرت سے پڑھنا چاہیے ’’اللھم اجرنی منی النار‘‘ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجد میں بیٹھے رہیں اور جب سورج اچھی طرح نکل آئے تو دو نفل اشراق کے ادا کریں۔ رحمت دو عالمؐ کا ارشاد ہے ’’جس نے نماز فجر باجماعت ادا کی اور پھر سورج نکلنے تک بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہا‘ پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی اس کو مقبول ترین حج اور عمرے کا ثواب ملے گا۔‘‘

رمضان المبارک میں دعا استغفار ذکر الٰہی درود شریف کی کثریت کریں۔ چلتے پھرتے اپنی زبان کو ان کلمات کا عادی بنا لیں۔ صدقہ‘ خیرات اور زکوٰۃ دل کھول کر ادا کریں۔ کم وقت میں زیادہ نیکیاں کمائیں۔ امربالمعروف نہی عن المنکر پر عمل کریں۔ رمضان کے ہر لمحے اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھیں۔ روزہ تقویٰ کے نفاذ کا ذریعہ ہے‘ دنیا اور آخرت میں سکون اور عافیت کا آسان ترین ذریعہ ہے۔ تلاوت قرآن کثرت سے کرنا چاہیے کیونکہ نزول قرآن اسی مبارکہ اور بابرکت مہینے میں ہوا۔ قرآن اور رمضان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جاتا ہے۔ جس شخص نے صرف ایک دن کا اعتکاف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا اللہ اس کے اور دوزخ کی آگ کے درمیان تین خندق کا فاصلہ حائل کر دیتے ہیں۔ اس فاصلے کی مقدار مشرق و مغرب کے درمیان فاصلے جتنی ہے۔

اس ماہ مبارک کے آخری عشرے میں لیلٰۃ القدر کا نزول ہوتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر رب ذوالجلال کی طرف سے ہونے والی خصوصی عنایات میںسے ایک عظیم عنایت اور رحمت ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب شب ِ قدر آتی ہے تو جبریلؑ فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور ہر وہ بندہ جو کھڑا یا بیٹھا ہوا اللہ کا ذکر کر رہا ہو بلکہ کسی بھی طریقے سے ذکر و عبادت میں مشغول ہو اس کے لیے دعائے رحمت و مغفرت کرتے ہیں۔ شب قدر کی دعا یہ ہے ’’اللھم انک عفوکریم تحب العفو فاعف عنی ’’اے اللہ بے شک تو معاف کرنے والا ہے‘ معاف کرنے کو پسند کرتا ہے‘ مجھے معاف کر دے۔

پہلی امتوں کی عمریں سینکڑوں سال ہوتی تھیں اگر کوئی اعمال صالحہ میں ان کی برابری کرنا بھی چاہے تو اس کے لیے ممکن نہ تھا مگر ربِ کائنات نے خیر الامم کو مقدس شب قدر مرحمت فرما کر امم سابقہ کے ساتھ عبادت میں برابری بلکہ آگے بڑھ جانے کا سامان کر دیا۔ اگر کسی خوش نصیب کو زندگی بھر میں صرف دس راتیں ہی گزارنے کی توفیق مل جائے تو گیا اس نے آٹھ سو تینتیس سال چار ماہ سے زیاہ کامل عبادت میں گزرنے کا ثواب حاصل کر لیا۔

رمضان گزرنے کے بعد لیلۃ القدر یعنی پہلی شوال کو عبادت کو متعین قرار دیا گیا ہے کیوں کہ مزدور نے جو مہینہ بھر مزدوری کی ہے اللہ اس کی مزدوری بخشش اور مغفرت کی صورت میں دیتا ہے اس لیے اس رات کو فضول کاموں میں اور شاپنگ کرنے میں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے معبود کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے عبادت کی توفیق عطا فرمائی اور انعامات سے نوازا۔