ترکیہ و شام کے زلزلہ زدہ علاقوں میں ریلیف کا کام

446

زلزلہ انسان کو‘ عمارتوںکو ہی نہیں ہلاتا بلکہ انسانی ذہن کو بھی ہلا دیتا ہے‘ اسے سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی حیثیت نہیں‘ اللہ کی زمین ہے‘ جب چاہے اسے حکم دے اور انسانوں کو ہلا کر رکھ دے۔

ترکی کے جنوبی حصے میں شام کے بارڈر کے قریب فروری کے پہلے ہفتے میں شدید ترین زلزلہ آیاپ زلزلہ کا مرکز گازیان ٹپ شہر کے قریب تھی۔ ترکی کے اس سے ملحقہ علاقے Hatay, Elalib, Ecionozo, Malatya, Osmaniye, Killis, Adiyama میں شدید جھٹکے آئے۔

غازیان ٹپ سے قریب سرحدی علاقے Sarmada, Idlib, Afrin میں بھی شدید زلزلہ آیا۔ زلزلہ کیوں آیا؟ ہم نے جیوگرافی کے پروفیسر خالد حنیف صاحب سے سوال کیا۔ انہوںنے مثال سھے سمجھایا کہ ایک کچا انڈا لیں‘ اس کے چھلکے کو مختلف طرف سے چٹخا دیں‘ چھلکے کا ہر حصہ ایک پلیٹ کی طرح الگ ہل سکتا ہے انہیں حرکت دیں۔ یہ حصہ قریب اور دور ہوں گے۔ ایک دوسرے رگڑیں گے۔

زمین کی سطح جو 50 میل تک موٹی ہو سکتی ہے اس میں مختلف پلیٹیں ہیں انہیں Tectonic پلیٹ کہتے ہیں‘ ترکی کے قریب دو پلیٹیں ایک ترکی کی اناطولیہ پلیٹ اور عربین پلیٹ جس کا حصہ کراچی (بلوچستان کے آخر تک) آیا ہے۔ عربی پلیٹ کے ہر سال ایک انچ سے کم ترکی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ پلیٹس ٹکراتی ہیں‘ جو قوت ہوتی ہے وہ باہر نکلتی ہے تو بیرونی حصے کو ہلا دیتی ہے۔ زلزلہ کا جھٹکا آتا ہے۔ یہ پلیٹ جب Readjust ہوتی ہے تو آفٹر شاکس آتے ہیں۔

ترکی کے زلزلے کے فوراً بعد گرنے والی عمارتوں کے ملبے سے لوگوں کو نکالنے کا کام شروع ہوگیا۔ پاکستان کے بڑے ویلفیئر ادارے الخدمت فائونڈیشن نے ابتدائی کام میں پہلے سے اپنے لوگوں کو تربیت دی ہوئی تھی‘اس کی سربراہی اعجازاللہ خان کرتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن انٹرنیشنل شعبہ کے سربراہ عبدالشکور صاحب نے ابتدائی کام کی نگرانی کے لیے 47 رکنی ٹیم کے ساتھ ترکیہ اور شام کی زلزلہ والے سرحدی علاقوں میں پہنچے۔ الخدمت میڈیا کے انچارج شعیب ہاشمی نے بتایا کہ الخدمت کی ٹیم ترکی کے ڈیزاسٹر اور ایمرجنسی کے ادارے AFAD کے ساتھ مل کر کام کر رہی تھی جسے اس ادارے نے Pak10 کا نام دیا۔

الخدمت کے رضا کاروں کے پاس ایسے جدید تکنیکی آلات بھی شامل تھے جو ملبہ میں دبے افراد کی نشاندہی کرے اور انہیں بحفاظت نکالنے میں مدد کرے۔ اس ٹیم کے آپریشنل انچارج کراچی کے فواد شیروانی تھے۔ فواد شیروانی نے بتایا کہ ہم نے دو ہفتے تک مسلسل رات دن کام کیا۔ تقریباً 100 عمارتوں کو سرچ کیا تاکہ اس کے ملبے دبے ہوئے افراد کا پتا لگا کر انہیں نکالا جاسکے اور ہر ممکنہ کوشش کی کہ انسانوںکو بچایا جاسکے۔

ہمارے پاس مخصوص آلات‘ کیمرے کے ساتھ ہونے کی وجہ سے جہاں بھی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہماری ٹیم کو بلا لیا جاتا۔ اس دوران آفٹر شاکس بھی آتے رہے الخدمت فائونڈیشن کی ٹیم نے چار مراحل میں کام کیا۔

-1 ابتدائی Rescue کا کام جو خوش اسلوبی سے انجام پایا۔
-2 شیلٹر سپورٹ‘ جس میں گرم کپڑے‘ کمبل اور ٹینٹ وغیرہ تقسیم کیے گئے۔ یہ کام زلزلہ زدہ علاقوں میں کئی ہفتے جاری رہا۔

-3 فوڈز سپورٹ پروگرام: گھروں سے محروم ہو جانے والے افراد کو پکے ہوئے کھانے کے پیکٹ اور خشک راشن مہیا کیا جاتا رہا خاص طور پر ٹینٹ میں رہنے والوں کو۔

-4 میڈیکل ریلیف: جس میںHealth Hygiene Kits کی تقسیم‘ ابتدائی Rescue پروگرام میں زخمیوںکی امداد اور ترکی‘ شامی سرحدی علاقے کے لوگوں کے لیے میڈیکل کا پروگرام جاری رکھنا۔

ترکی میں رہنے والے پاکستانیوں سے گفتگو:
پاکستانی طالب علم جو ترکی میں پڑھتے ہیں ان کی نمائندہ تنظیم Paksturk ہے‘ اس میں 1200 سے زائد پاکستانی طالب علم ممبر ہیں اس کے صدر حافظ عزیر علی خان سے بات ہوئی انہوں نے بتایا کہ زلزلہ کے بعد ہم نے میٹنگ کی اور فوری طور پر ریلیف کے کام میں حصہ لینے کا پروگرام بنایا۔

استنبول اورSlvas شہر میں ہم نے مقامی بلدیہ کے ساتھ مل کر کام شروع کیا۔ غذائی اشیا‘ کپڑے‘ کمبل اور دیگر اشیا کی پیکنگ اور لوڈنگ میں مدد شروع کی۔

دوسرا کام عطیہ خون کی مہم شروع ہوئی جس میں پاکستانی طلبہ نے عطیات دیے۔ زلزلہ کی کمیونی کیشن کے لیے کال سینٹر قائم ہوئے جس میں پاکستانی طالبات نے حصہ لیا۔ پاکستان سے آنے والے الخدمت فائونڈیشن کے ذمہ داران کو ہر جگہ Fascilitate کیا۔ ہم نے اپنی ترکی زبان کی مہارت سے عبدالشکور صاحب کی معاونت کی۔یو کے کی تنظیم Muslim Hand کے ساتھ غذا اور گرم کپڑوںکی تقسیم میں مدد کی۔تقریباً 300 کے قریب یتیم و دیگر بچوں میں تحائف تقسیم کیے۔

پاکستانی بزرگ سید کوثر بخاری نے بتایا کہ وہ زلزلہ کے وقت کیسری میں تھے بعد میں Dinizly شہر شفٹ ہو گئے۔ انہوں نے مساجد سے اعلان کے ذریعے لوگوں کو خون کے عطیات کے لیے ابھارا۔ لوگوں نے بہت زیادہ خون کے عطیات دیے۔ اسی طرح چند یتیم بچے زلزلہ زدہ علاقے سے قافلے کے ساتھ یہاں پہنچے ان بچوں کو اپنے بچوں کی طرح پرورش کا انتظام کروانے میں ہر ممکن معاونت کی۔بخاری صاحب نے بتایا کہ بہت سے بچے 8 دن بعد ملبے سے صحیح سلامت نکلے۔ بخاری صاحب کے قریبی دوست مصطفی اور ان کی اہلیہ انطاکیہ میں شہید ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ زلزلے سے سارے فلیٹس گر گئے تھے‘ 2 خواتین جو ملبہ میں دب گئی تھیں انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو پیغام دیا کہ ہم نے الماری میں سونا رکھا ہے‘ بچوں کو بتا دیں۔ لیکن چار‘ پانچ منزلہ عمارت کے ملبے میں سب دب گیا۔

حصہ