قہقہے سے غم اور بڑھ جاتا ہے

562

انور مقصود کا ایک یادگار انٹریو

(دوسرا اور آخری حصہ)

طاہر مسعود: آپ کی پیدائش حیدرآباد دکن کی ہے۔ دکن کی ریاست میں مزاح نگار بہت پیدا ہوئے۔ خواجہ معین الدین‘ ابراہیم جلیس‘ ان کے مزاح نگار بھائی مجتبیٰ حسین اور خود آپ۔ ریاستی ماحول میں تو سازشوں کی تربیت ہوتی ہے مزاح نگاری کا پودا کیسے پھل پھول لایا؟

انور مقصود: پاکستان کا ماحول بھی دکن ہی جیسا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ پنجابی دکنی زبان نہیں بول سکتے۔ ویسے میرے والد بدایوں کے اور والدہ حیدرآباد دکن کی تھیں۔ میرے نانا نواب نثار یار جنگ دکن میں تعلقہ دار تھے۔ شاعری بھی کرتے تھے۔ ان کا شعر ہے:

اتنا تو مجھے یاد ہے کچھ اس نے کہا تھا
کیا اس نے کہا تھا مجھے یاد نہیں ہے

طاہر مسعود: سنا ہے مشہور ڈراما نگار خواجہ معین الدین آپ کے استاد رہ چکے ہیں؟

انور مقصود: جی ہاں‘ نواب بہادر یار جنگ اسکول میں تیسری جماعت سے دسویں جماعت تک میں نے خواجہ صاحب سے پڑھا ہے۔ وہ بہت عمدہ فقرہ لکھتے تھے۔ جب تک آدمی ان کا ڈراما دیکھ رہا ہوتا تھا‘ پوری طرح Involve ہوتا تھا۔ ان کے ڈرامے ’’مرزا غالب بندر روڈ پر‘‘، ’’تعلیم بالغاں‘‘، ’’لال قلعہ سے لالو کھیت تک‘‘ ناقابل فراموش ڈرامے ہیں۔

طاہر مسعود: ہر لکھنے والا اپنے سینئر سے متاثر ہوتا ہے۔ آپ نے کس کس کے اثرات قبول کیے؟

انور مقصود: میں نے ’’حریت‘‘ جوائن کیا تو وہاں کالم نگار نصراللہ خاں تھے‘ بہت اچھا لکھتے تھے۔ دوستی میری ابن انشا سے بھی تھی۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی‘ فرمائش کرتے تھے ’’کچھ سنائو؟‘‘ ان دنوں میں لکھتا نہیں تھا۔ میں کہتا ’’کچھ لکھا ہی نہیں تو کیا سنائوں؟‘‘ کہتے ’’کسی کی نقل ہی کر دو۔‘‘ میں ابن انشا سے بہت انسپائر ہوں۔ رہے یوسفی صاحب تو جتنی محنت یوسفی صاحب اپنے لکھنے پر کرتے ہیں‘ اگر نواز شریف اس کی آدھی محنت بھی ملک کو چلانے کے لیے کر لیں تو پاکستان‘ بھارت سے زیادہ ترقی کر لے گا۔

طاہر مسعود: دکن سے ہجرت کرکے آپ اپنے گھرانے کے ساتھ پاکستان آئے تو آپ کی عمر آٹھ سال کی رہی ہوگی۔ ان دنوں کی کچھ یادوں میں آپ شریک کرنا چاہیں گے؟

انور مقصود: جب ہم یہاں آئے تو جمشید روڈ پر نظام الدین اینڈ سنز کے خیمے میں پڑائو ڈالا۔ والد صاحب سے بہت اصرار کیا گیا کہ ہندوئوں کی متروکہ املاک میں کوئی بھی گھر لے لیں‘ بہت سے گھر خالی پڑے ہیں لیکن والد نے انکار کر دیا۔ والد قمر مقصود مطالعے کے بے حد شوقین تھے‘ دکن سے آتے ہوئے ٹرنکوں میں آٹھ ہزار کتابیں ساتھ لائے تھے۔ ایک بار بارش ہوئی تو پانی کے ریلے میں کتابوں کے ٹرنک بہنے لگے۔ اچھی خاصی کتابیں ضائع بھی ہو گئیں۔ جمشید روڈ سے ہم لوگ بعد میں پیر الٰہی بخش کالونی کے مکان نمبر 663 میں منتقل ہوگئے۔ پی آئی بی کالونی میں اس زمانے میں بڑے بڑے ادیب رہا کرتے تھے۔ ان سب کا ہمارے گھر آنا جانا تھا۔ ان میں مصور شاکر علی‘ حسن عسکری‘ عزیز حامد مدنی‘ شاہد احمد دہلوی‘ ممتاز حسین۔ یہ آکر مونڈھوں پر بیٹھ جاتے اور پھر ادبی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ تو میں نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی۔ کالونی میں چودہ سال کی عمر تک میں رہا۔ بچپن میں بہت شرارتی تھا۔ تصویریں بنانے کا بھی شوق تھا۔ انگیٹھی پر کھانا پکتا تھا‘ نانی کسی بات پر ناراض ہو گئیں تو ہم نے کوئلے سے دیوار پر ان کے ناراض چہرے کی تصویر بنا دی۔ ایک دن مصور شاکر علی آئے‘ دیوار پر بنی تصویر دیکھ کر پوچھا ’’یہ کس نے بنائی ہے؟‘‘ جب معلوم ہوا اس کا مصور میں ہوں تو پوچھا رنگ استعمال کیوں نہیں کرتے۔ تو انہوں نے تصویریں بنانے کے) لیے رنگ اور برش وغیرہ لا کر دیے۔ یوں میری باقاعدہ مصوری شروع ہوئی۔ اس زمانے میں میرا ایک ہی کام تھا ’’پورے خاندان کو خوش رکھنا۔‘‘ دوسروں کی نقلیں اتارنا اور پیروڈی لکھنا وغیرہ۔ شاعری کا شوق بھی ہو گیا تھا لیکن جب آپا زہرہ نگاہ کی شاعری پڑھی تو سنجیدہ شاعری سے توبہ کر لی۔ لیکن مزاحیہ شاعری دوسروں کے مزے کے لیے کرتا رہا۔ مثلاً ایک شعر:

حلیم ٹھیک نہیں تھا چچا کے چہلم کا

بغیر لوٹے کے گھر لوٹے کو بہ کو کرتے

یوسفی صاحب نے سنا تو فرمایا ’’ایسے کو بہ کو کرتے تو دنیا میں کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ فراز کی غزل کا مشہور شعر ہے ’’اب کے ہم بچھڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔ ہر ایک کو یاد ہوگا۔ اس کی پیروڈی کی:

ایک بکرے نے کہا بکری سے کہ اے جانِ عزیز

اب کے ہم بچھڑیں تو ممکن ہے کبابوںمیںملیں

اقبال کی پیروڈی میں ایک قطعہ سناتا ہوں:

پول میں تیر رہی تھیں یوں سمندر میں جہاز
دور سے صاف نظر آتے تھے محمود و ایاز
نکلیں جب پول سے باہر تو شرم کے مارے
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

اصل میں میرا سنجیدہ کام مصوری میں ہے۔ 1985ء میں فرانسیسی سفارت خانے میں میری تصاویر کی پہلی نمائش ہوئی تھی۔ نمائش میں چالیس تصاویر رکھی گئی تھیں‘ ان میں سے تیس تصویریں وزارتِ خارجہ کے مشہور سفارت کار جمشید مارکر صاحب نے خرید لی تھیں۔ مصوری پر میں نے خاصی محنت کی‘ اس کے بارے میں خاصا پڑھا بھی ہے۔

طاہر مسعود: کچھ ٹیلی ویژن سے وابستگی کے بارے میں بتایئے۔

انور مقصود: الہلال سوسائٹی میں ضیا محی الدین کے ساتھ برج کھیلتا تھا۔ ان دنوں ان کا ٹی وی شو‘ جو ان کے ہی نام پر تھا‘ ناظرین میں خاصا مقبول تھا۔ برج کھیلتے ہوئے میں عادتاً فقرے بازی کیا کرتا تھا۔ ایک دن ضیا نے کہا کہ تم جو کچھ بولتے رہتے ہو‘ میرے پروگرام کے لیے لکھ کیوں نہیں دیتے؟ تو ان کی دعوت پر میں نے ضیا محی الدین کے آخری تیرہ پروگرام لکھے۔ بعد میں‘ میں نے اردو کے کلاسیکی شعرا مصحفی‘ انشا اور نظیر پر بھی پروگرام لکھے جو ٹی وی سے پیش ہوئے۔

طاہر مسعود: ’’ففٹی ففٹی‘‘ کے خاکہ نگار کیسے بنے؟

انور مقصود: ایک دن شعیب منصور اور ارشد محمود میرے پاس آئے۔ انہوں نے ’’ففٹی ففٹی‘‘ کا آئیڈیا سنایا اور اس کے لیے خاکے لکھنے پر اصرار کیا۔ چنانچہ اس کے لیے سولہ پروگرام لکھے۔

طاہر مسعود: پھر ففٹی ففٹی سے علیحدگی کیوں ہوئی؟

انور مقود :اصل میں شہرت ہمارے ملک میں ایک عذاب ہے۔ خاص طور پر جب اچانک شہرت کے دروازے کھل جائیں۔ ’’ففٹی ففٹی‘‘ میںجو اداکار کام کر رہے تھے انہیں مزاحیہ خاکوں کی بدولت جو ملک گیر شہرت مل گئی تو وہ اسے سنبھال نہ سکے۔ پڑھے لکھے تھے نہیں‘ میرے اسکرپٹ میں اضافے اور ترمیم کرنے لگے۔ پھر میرے لیے اس کے سوا چارہ کیا تھا کہ پروگرام سے الگ ہو جائوں۔

طاہر مسعود: مزاحیہ اداکاری اور مزاحیہ خاکہ نگاری میں کس کی اہمیت زیادہ ہے؟

انور مقصود: بلا شبہ خاکہ نگاری۔ اداکاری کی جس میں صلاحیت ہے‘ وہ مزاحیہ کرداروں کو بھی نبھا سکتا ہے۔ میں نے سلیم ناصر‘ طلعت حسین‘ قاضی واجد اور شفیع محمد جیسے سنجیدہ اداکاروں سے مزاحیہ اداکاری کرائی ہے اور وہ نہایت کامیاب رہے ہیں۔

طاہر مسعود: ’’ففٹی ففٹی‘‘ سے علیحدگی کے بعد؟

انور مقصود: ایک دن محسن علی آئے اور ان کی ہدایت کاری میں ’’شوشا‘‘ شروع کیا۔ بشریٰ انصاری اس میں بجلی بنیں۔ پروگرام ہٹ گیا۔

طاہر مسعود: اس میں پہلی مرتبہ آپ اسکرین پر ایک میزبان کے طور پر آئے‘ اپنی اس صلاحیت کا آپ کو پہلے سے احساس تھا؟

انور مقصود: جی نہیں۔ محسن علی نے کہا کہ یہ پروگرام کوئی اور نہیں تم خود کرو گے۔ پھر ’’سلور جوبلی‘‘، آنگن ٹیڑھا‘‘ جو پروگرام بھی کیا‘ مقبول ہوا۔ طویل دورانیے کے لیے ’’دورِ جنوں‘‘، ’’نہ قفس نہ آشیانہ‘‘، ’’یہ کہاں کی دوستی ہے؟‘‘، ’’مرزا اینڈ سنز‘‘ وغیرہ لکھا۔ ہر کھیل اسی سے نوے منٹ کا ہوتا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے پاس میرے پروگراموں اور ڈراموں کی سولہ سو گھنٹوں کی ریکارڈنگ محفوظ ہے‘ اس سے پتا چل سکتا ہے کہ میں نے پی ٹی وی کے لیے کتنا لکھا ہے۔

طاہر مسعود: کن ادیبوں نے متاثر کیا؟

انور مقصود: سب سے زیادہ منشی پریم چند نے۔ ان کے علاوہ منٹو اور قرۃ العین حیدر کو توجہ سے پڑھا۔

طاہر مسعود: مصوری‘ مزاح نگاری‘ میزبانی‘ اداکاری‘ شاعری۔ اگر آئندہ کی زندگی میں ان میں سے کسی ایک فن کو چننے کے لیے کہا جائے تو انتخاب کیا ہوگا؟

انور مقصود: مصوری۔

طاہر مسعود: اتنے بہت سے شعبوں میں دخل اندازی پر آپ کا اپنا تبصرہ؟
انور مقصود: کسی ایک فیلڈ ہی میں مجھے ہونا چاہیے تھا۔ کسی ایک پر توجہ کرتا تو بہت آگے تک جاسکتا تھا۔ اب تک جو سفر میں نے کیا ہے‘ اس میںچاروں طرف دھند ہی دھند ہے۔ لگتا ہے منزل اب بھی بہت دور ہے۔
طاہر مسعود: ایک مقام آتا ہے جہاں پہنچ کر آدمی مطمئن ہو جاتا ہے۔ یہ اطمینان آپ کو کتنا نصیب ہے؟
انور مقصود: سفر لامحدود ہے اور پریشانی یہ ہے کہ جلد مر بھی نہیں رہا ہوں۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا:

لاگ گر دل کو نہیںلطف نہیں جینے کا
الجھے سلجھے کسی کا کل کے گرفتار رہو
یہی بات مرزا غالبؔ نے یوں کہی تھی:
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا

یہاں ’’مرنا‘‘ سے مراد کسی پرمرنا ہے۔ ’’مرنا‘‘ موت کے معنی میں غالب نے استعمال نہیںکیا جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔

طاہر مسعود: شہرت کیسی لگتی ہے؟
انور مقصود: شہرت ایک نشہ ہے جس سے بڑی جلدی نفرت ہو جاتی ہے۔ اپنا پن ختم ہو جاتا ہے۔ میرؔ کہتے ہیں:
ہم مست ہو بھی دیکھا کوئی مزہ نہیں ہے
ہشیاری کے برابر کوئی نشہ نہیں
طاہر مسعود: میرؔ کیوں اتنے پسند ہیں؟
انور مقصود: غالب‘ ذوق‘ سودا‘ داغ‘ آتش ان سب کے سروں پر ہاتھ رکھنے والے موجود تھے۔ میر کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہ تھا‘ انہوں نے اپنا ہی ہاتھ اپنے سر پر رکھا۔
اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے ہاںسدا
مشفق کوئی نہیں ہے کوئی مہرباںنہیں
طاہر مسعود: آپ کا حافظہ غضب کا ہے۔
انور مقصود: اللہ تعالیٰ کا کرم ہے۔ حافظہ اب تک اس لیے بچا ہوا ہے کہ سب سے کم استعمال دماغ کا کیا ہے۔
طاہر مسعود: آخری بات: طاقت کے مراکز پر طنز کے تیر کیوں پھینکتے ہیں؟ کیا بہت مزہ آتا ہے؟
انور مقصود: میں اکثر لاہور سے اسلام آباد بائی روڈ جاتا ہوں۔ دیواروں پر مردانہ طاقت کی دوائوں کے اتنے اشتہار دیکھے ہیں کہ طاقت سے نفرت سی ہوگئی ہے۔ طاقت کا ہندوستانی اور امریکی علاج۔ میرا دونوں سے جھگڑا ہے۔

حصہ