میری زندگی کا مقصد

424

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
اقبالؔ نے کیا خوب کہا کہ نماز پڑھنے اور مسلمان ہونے کی چنداں کوئی اہمیت نہیں اگر دین کی سرفرازی کے لیے جہدِ مسلسل میں حصہ نہ لیا جائے۔
ہر انسان کسی نہ کسی مقصد کے لیے جیتا ہے، قطع نظر اس بات کے، کہ وہ مقصد کتنا بلند ہے۔
نہ جانے کیوں انسان کا معیار اتنا گھٹ گیا ہے کہ وہ معیارِ زندگی بلند سے بلند کرنے کو مقصد بنا لیتا ہے، حالانکہ اللہ کے جتنے احسانات ہیں انسان پر اُن میں سے ایک احسان پر ہی انسان غور کرلے تو اس کی نماز، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، قربانی، اموال سب اللہ کے لیے ہوجائے۔
ہر سچے اور باشعور مسلمان کی طرح بحیثیت ’’قلمکار‘‘ میرا مقصد بھی اعلائے کلمۃ اللہ ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی میں حصہ ڈالنے کی کوشش ہے، شہادتِ حق دینا مقصود ہے۔ حق بات بے لاگ کہنا اور غلط بات، رویّے، طرزِ زندگی پر دوٹوک مؤقف رکھنا مجھے پسند ہے۔ دینی شعور سے بہرہ ور ہونے کی وجہ سے میں سمجھتی ہوں کہ آپ کی زندگی میں جو بھی مشکلات ہوں، مصائب ہوں، غلط رویوں کا سامنا ہو، ان سے نکلنے کی راہ آپ نہیں پا رہے ہوں تو بھی غلط طرزعمل اور روّیوں پر قلم ضرور اٹھائیں، یہ شعور بیدار ضرور کریں کہ غلط پر کثرت سے عمل غلط کو صحیح نہیں بناتا، حق پرستوں کو اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ وہ حق پر ہونے کے باوجود کمزور سمجھ کر دبا لیے جاتے ہیں۔ حق کبھی جھکتا نہیں، ہاں باطل اور غلط کی کثرت جھاگ بن کر اپنا آپ نمایاں ضرور کرتی ہے، مگر یہ جھاگ بیٹھ ہی جاتا ہے خواہ باطل کی کتنی ہی کثرت ہو۔
بحیثیت قلمکار میں رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کوشاں ہوں اور اللہ کی عطا کردہ قلمی صلاحیت کو اپنی شخصیت کی ان تمام کمزوریوں کا نعم البدل سمجھتی ہوں جو مجھے جاہلانہ روّیوں اور لہجوں پر بولنے نہیں دیتیں، جو اپنی حق تلفی پر مروت، لحاظ، طبعی شرافت کی بنا پر جواب دینے سے روکتی ہیں۔
میرا لکھنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو بے نقاب کیا جائے۔ غط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہا جائے۔ اللہ کے دین اسلام کی غالب حیثیت ثابت کی جائے۔ یہ شعور بیدار کیا جائے کہ اہلِ ایمان کی قلت باطل کی جیت کی علامت نہیں۔ باطل کے ایوانوں تک یہ بات پہنچا دینا میرا مقصد ہے۔
نوجوانوں کو غلط پٹڑی پر تو چڑھایا جا سکتا ہے، ان کی آنکھوں میں دھول تو جھونکی جا سکتی ہے مگر قلم کاروں کے قلموں کی روشنائی کوئی نہیں چھین سکتا، کیوںکہ وہ خون سے داستانیں رقم کرنے، تاریخ بنانے اور باطل کی سازشوں کو طشت ازبام کرنے سے نہیں ڈرتے، انہیں اپنی عظیم تر ذمہ داریوں کا احساس ہے، انہوں نے اپنے اسلاف احمد بن حنبلؒ، ابن قیمؒ، ابن تیمیہؒ، سید مودودیؒ… غرض سبھی کی استقامت، باطل کے آگے چٹان بن جانے مگر اپنے مؤقف سے نہ ہٹنے سے یہی سبق لیا ہے کہ تہذیبِ حاضر کی چمک جب بھی نظروں کو خیرہ کرے تو چمک کی تہہ تک ضرور پہنچا جائے، تاکہ اس اندھی تہذیب کے چہرے سے ملمع اتارا جائے۔ بلاشبہ یہ اسلام کے قلمکاروں کا فرض ہے۔ اللہ تمام قلمکاروں کو حکمت سے نوازے اور صالحین سے ملائے، آمین۔

حصہ