اک آرزو

360

اس کی شادی کا ابتدائی دور تھا۔ میاں آتے ہی ہوں گے، یہ سوچ کر آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ سبز ساڑھی پر مینے کی چوڑیاں، طلائی چوڑیوں کے ساتھ ملا کر پہنیں۔ گال بلش آن اور آنکھیں مسکارے سے سجا کر وہ بالوں میں نرمی سے برش پھیرنے لگی کہ نگاہ پائیں باغ کی طرف کھلنے والی کھڑکی تک گئی۔کچھ سوچ کر مسکا اٹھی۔ سارے طلائی زیورات اتار کر سوئی دھاگہ لے کر باغیچے میں آگئی جہاں معطر فضا نے اس کا استقبال کیا۔

اماں کنوار پن میں پھولوں کے زیور پہننے نہیں دیتی تھیں، کہتیں ’’بیاہتا ہوجاؤ تو شوق پورا کرنا‘‘۔ اس نے دو موتیے کانوں میں پہنے، کنگن بناکر سونگھا تو مکمل طور سے موتیے کی خوشبو کی گرفت میں آگئی۔ بالوں کا گجرا بنا رہی تھی کہ طارق دل آویزی سے اسے پکارتے اس تک پہنچ گئے۔

اس نے خوشی سے کھلتے ہوئے اپنی مصروفیت دکھائی۔ طلائی زیور کی جگہ پھولوں کا زیور دیکھ کر طارق کے چہرے کا رنگ ہی بدل گیا۔

’’اتارو انہیں، مجھے ان کی خوشبو پسند نہیں۔‘‘ طارق نے موتیے کے گجرے اس کے ہاتھ سے لے کر دور پھینک دیے اور اسے بازو سے پکڑ کر کمرے کا رُخ کیا۔ رخ لالہ کا دل مرجھا کر رہ گیا۔

حصہ