کچھ اور کرنا ہے

371

’’ابا میں آپ کا کاروبار نہیں سنبھال سکتا، میں کچھ اور کروں گا۔‘‘
’’آپ کا کام مجھے سمجھ نہیں آتا، میں کچھ اور کرنے کا سوچ رہا ہوں۔‘‘
’’یہ دکان داری مجھ سے نہیں ہوتی، میں کچھ اور کروں گا۔‘‘
’’اتنا پڑھا ہے تو کیا ابا کے ساتھ اس پھٹیچر کاروبار میں لگ جاؤں! کچھ اور ہی کروں گا میں تو۔‘‘

اور جب ’’کچھ اور‘‘ کی تشریح پوچھو تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں اور سوائے نوکری کرنے کے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

جب کہ کچھ لوگ اس طرح سے بھی جمے جمائے کاروبار سے دل اکھاڑتے رہتے ہیں:

’’کیسے گزارا کرتے ہو اتنی چھوٹی سی دکان سے؟ کچھ اور کیوں نہیں کرلیتے؟‘‘

’’ارے بھئی! کچھ نہیں رکھا اس کاروبار میں، کچھ اور کرلو۔‘‘
’’اس کام سے تو پورا ہی نہیں پڑتا، کچھ اور ہی کرنا پڑے گا۔‘‘

’’ختم ہوگیا ہے آج کل تو کاروبار، ملک کے حالات ہی ایسے ہیں کہ کچھ اور ہی کرنا پڑے گا۔‘‘

’’ارے تم نے تو پڑھ لکھ کر گنوا دیا، اتنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہی ابا کے کاروبار میں لگ گئے، کچھ اور ہی کرلیتے۔‘‘

اور جب لوگوں کی باتوں میں آکر اچھا خاصا چلتا ہوا کام بند کردیتے ہیں تو پھر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرنا ہے۔ کہتے ہیں نا کہ مارتے کا ہاتھ پکڑ سکتے ہیں لیکن بولتے کی زبان نہیں پکڑ سکتے۔ تو کہنے والا تو کہہ کر اِدھر اُدھر ہوجاتا ہے مگر اُس کی باتوں میں آکر ہم اپنا کام خراب کرلیتے ہیں اور پھر یہ سننے کو ملتا ہے کہ اچھا خاصا تو کام چل رہا تھا، خوا مخواہ ہی بند کردیا… عقل ہی نہیں ہے۔ اور واقعی جب پریشانی آتی ہے تو ہر کسی کو یہی لگتا ہے کہ عقل ہی نہیں ہے۔

بچپن میں ایک کہانی سنتے تھے کہ کسی نے مزدور سے ایک کام کروایا اور کہا مزدوری میں ’’کچھ‘‘ دے دیں گے۔ اور جب مزدور نے اجرت میں ’’کچھ‘‘ طلب کیا تو وہ شخص گڑبڑا گیا کہ وہ رقم دینا چاہتا تھا اور وہ ’’کچھ‘‘ پر بضد تھا۔ بہت مشکلوں سے یہ معاملہ حل ہوا۔

تو آج کا نوجوان بھی ’’کچھ‘‘ کرنا چاہتا ہے۔ مگر کیا کرنا چاہتا ہے…؟ یہ وہ خود بھی نہیں جانتا۔ شارٹ کٹ کے ذریعے بہت کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ باپ دادا کا کاروبار سمجھ میں نہیں آتا، کیوں کہ کاروبار میں نفع نقصان چلتا رہتا ہے، لیکن جب تک نفع ہورہا ہو تو سب اچھا لگتا ہے اور جہاں تھوڑا بہت نقصان ہوا تو وہی کام برا لگنے لگتا ہے کہ کون اتنی ذہنی پریشانی اٹھائے! حالانکہ کاروبار تو نام ہی نفع اور نقصان کا ہے، مگر اب بہت کچھ جلد ازجلد پا لینے کی کوشش میں نوکری زیادہ جاذب نظر آتی ہے کہ ایک لگی بندھی تنخواہ وقت پر مل رہی ہوتی ہے اور نفع نقصان سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، بس اپنی تنخواہ سے مطلب ہوتا ہے۔ بلکہ کچھ تو ایسے مطمئن بھی ہوتے ہیں کہ ان میں آگے بڑھنے کی لگن بھی نہیں ہوتی۔

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کچھ عرصہ نوکری کرلیتے ہیں تو ان کو اپنے کاروبار کی قدر سمجھ میں آتی ہے۔ اپنا کاروبار کرنے میں آپ بادشاہ ہوتے ہیں اور نوکری کرنے میں ملازم۔ کتنی ہی اچھی جاب کیوں نا ہو، باس آپ کو کسی بھی وقت فارغ کرسکتا ہے، آپ کی بے عزتی کرسکتا ہے، کسی کے سامنے آپ کے کام کی تعریف کرتا ہے تو برائی بھی کرسکتا ہے۔

پڑھے لکھے ہیں تو آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ آپ کے والد نے بہت محنت سے یہ کاروبار سیٹ کیا ہے، اب آپ کا کام ہے کہ اُن کے تجربے اور اپنی تعلیم کا فائدہ اٹھاکر کاروبار میں ترقی کی نئی راہیں ہموار کریں۔ کوئی بھی کام خواہ وہ ڈرائی کلین کا ہو، جوتوں کی یا پرچون کی دکان ہو، جیولری یا کاسمیٹکس کی دکان ہو، کیمیکل کا کام ہو یا کپڑے کی دکان یا فیکٹری ہو… چھوٹا سا ہوٹل ہو یا آپ کے ابا ریڑھی ہی کیوں نہ لگاتے ہوں، آپ ان کے کندھوں سے کندھا ملا کر ان کے کاروبار میں مدد کریں اور اس میں جدت لائیں۔ بے شک ہر کسی میں کاروبار کی صلاحیت نہیں ہوتی، مگر ایک کوشش تو ضرورکرنی چاہیے (کیوں کہ ہمارے مذہب میں بھی نوکری سے زیادہ کاروبار کی ترغیب دی گئی ہے)، ورنہ آپ شاید ملازمت کے لیے ہی بنے ہیں۔ ظاہر ہے کہ نہ تو ہر کوئی نوکری کرسکتا ہے اور نہ ہی کاروبار ہر کسی کے بس کی بات ہے۔ لیکن اس بات سے متفق ہونا ضروری ہے کہ کچھ نہ کچھ کرنا ضرور ہے۔ ہمیں محنت کرنی ہے اور اس کا پھل اللہ تعالیٰ کو دینا ہے۔ بے شک اللہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔

حصہ