قدرتی آفات ۔۔۔خدا اور انسان

اللہ کے قانون اٹل ہمیشہ سے اٹل ہیں

معبود حقیقی نے جو قوانین نافذ کیے ان کو بستیوں پر لاگو کیا‘ اس نے انسان کے لیے بستیاں بنائی‘ ہر انسانی بستی اور آبادی میں تین قسم کے لوگ آباد کیے۔ پہلی قسم نافرمان لوگوں کی ہے جو کھلم کھلا بلا جھجک پوری سرکشی کے ساتھ اللہ کی نافرمانی کرتی ہے۔ اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتی ہے اور اس پر کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتی۔ دوسری قسم ان بزدل لوگوں کی ہوتی ہے جو خود خدا کے احکامات سے روگردانی نہیں کرتے مگر دوسرے نافرمان لوگوں کو غلط کام سے نہیں روکتے اور خاموشی سے تماش بین بنے رہتے ہیں۔ نصیحت کرنے والوں کو بھی منع کرتے ہیں کہ ان نافرمان لوگوں کو روکنا ٹوکنا بے کار ہے‘ یہ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئیں گے۔ تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کی غیرتِ ایمانی حدود اللہ کی اس کھلم کھلا بے حرمتی کو برداشت نہیں کرتی اور نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے روکنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں خواہ اس کے لیے انہیں کتنی ہی مخالفت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔ وہ ان نافرمانوں کو راہِ راست پر لانے کی بھرپور کوشش میں لگتے رہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ راہِ راست پر نہ بھی آئے تب بھی وہ اپنا فرض پورا کرتے رہیں گے اور اللہ کے سامنے اپنے عمل کے لیے سرخرو ہو جائیں گے۔

گناہوں کو دیکھنا اور طاقت کے باوجود اس کو نہ روکنا جرم ہے۔ جس پر اللہ کی گرفت ہو سکتی ہے۔ اسی لیے ہر دور میں صالحین نے اپنا فرض پورا کیا ہے اور نافرمانوں کو سمجھانے کی کوشس کی ہے‘ انہیں وعظ و تبلیغ سے راہِ راست پر لانے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔ مگر وہ ہٹ دھرم اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر اپنی روش بدلنے پر تیار نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ ہلاکت اور عذاب ہمارا مقدر ہے تو پھر ہمیںوعظ و نصیحت کیوں کرتے ہیں۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہونے والی جماعت انہیں برائیوں سے اس لیے روکتی ہے تاکہ اپنے خدا کے سامنے سرخرو ہو سکے۔ حقیقت یہی ہے کہ قانون قدرت کے تحت جب اللہ کا عذاب اس بستی پر آتا ہے تو اللہ کے عذاب سے صرف وہی لوگ بچا لیے جاتے ہیں جن کو اپنی معذرت پیش کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ باقی دونوں گروہ ظالموں میں شامل ہوتے ہیں اور اپنے جرم کی حد تک اللہ کے عذاب میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں۔ دین میں الحاد اختیار کج روی اور گمراہی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیے جاتا ہے حتیٰ کہ جب اس کو پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا۔ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کا عذاب‘ عذابِ اخرت سے بہت ہلکا ہے۔ دنیا کا عذاب عارضی اور فانی ہے اور آخرت کا عذاب دائمی ہے۔ اس کا زوال و فنا نہیں‘ جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے 79 گنا زیادہ ہے۔

قرآن مجید فرقان حمید میں سورہ رعد کی آیت نمبر 102 میں ارشاد ربانی ہے ’’اس طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ ظلم کی مرتکب بستیوں کو پکڑتا ہے۔ یقینا اس کی پکڑ بہت ہی سخت اور المناک ہے۔‘‘ اس مضمون کے تحت سورہ رعد میں آیت 34 میں ظالموں کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے ’’ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی زیادہ سخت ہے۔ انہیں اللہ کے غضب سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘

اس سورت کی 178 آیت میں ارشاد ہوا ’’جسے اللہ ہدایت بخشے وہی راہِ راست پاتا ہے اور جس کو اللہ اپنی رہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام و نامراد ہو کر رہتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہے مگر وہ سوچتے نہیں ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں‘ وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے۔ ہم انہیں بتدریج ایسے طریقے سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہیں ہوگی۔ میں تو انہیں ڈھیل دے رہا ہوں میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے۔‘‘ قرآن پاک میں بار بار اس فتنے سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعیت پر ضرب لگاتا ہے اور وبائے عام کی طرح معاشرے میں پھیل کر ایسی شامت لاتا ہے جس میں صرف گناہ گار ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی عتاب کا نشانہ بنتے ہیں جو اس گناہ گار معاشرے میں گناہوں سے روکنے کے لیے عملی اقدام نہیں کرتے اور زبان اور کان بند کیے رہتے ہیں اور جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ ہاں سن لیا ہم نے۔ ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں یہ تو وہی پرانی کہانیاں ہیں جوپہلے سے لوگ کہتے چلے آئے ہیں اور وہاں وہ بات بھی یاد ہے جو انہوں نے کہی تھی کہ خدایا اگر یہ واقعی حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی درد ناک عذاب ہم پر لے آ۔‘‘ سورہ توبہ میںآیات 34 اور 35 میں اس درد ناک عذاب کا تذکرہ ہے ’’درد ناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیںکرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کو پیشانیوں‘ پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے جمع کیا تھا۔ لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزا چکھو۔‘‘ سورہ یونس میں 22 تا 24 آیات میں اللہ کی پکڑ اور عذاب کا تذکرہ ہے۔ ’’دنیا کی زندگی کے چند روزہ مزے ہیں (لوٹ لو) پھر ہماری ہی طرف تم کو پلٹ کر آنا ہے اس وقت ہم تم کو بتا دیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر تم ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو) اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں خوب گھنی ہو گئی پھر عین اس وقت جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اورکھیتیاں اور کھلیان بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں یکایک رات کو ہمارا حکم آگیا اور ہم نے ایسے غارت کرکے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔

اللہ کے قانون ہمیشہ سے اٹل ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیںآتی۔ سورہ ہود میں آیات نمبر 102 سے 106 تک اللہ کے نافرمان بندوں اور ان پر عذاب کا ذکر کیا گیا ہے ’’تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتاہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔ فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور درد ناک ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایک نشانی ہے کہ ہر اس شخص کے لیے جو عذابِ آخرت کا خوف کرے۔‘‘

جن لوگوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کر لی ہے ان کے لیے بھلائی ہے اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوںاور اتنی ہی اور فراہم کر لیں تو وہ خدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے ان سب کو فدیہ میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہو جائیں گے یہی وہ لوگ ہیں جن سے بری طرح حساب لیا جائے گا اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔‘‘ (سورہ رعد 18) جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے‘ ان پر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی رہتی ہے یا ان کے گھر کے قریب کہیںآفت نازل ہوتی ہے‘ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۔ یقینا اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوںکا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخر کار ان کو پکڑ لیا پھر دیکھ لو میری سزاکیسی سخت تھی۔ (آیت 36) اگر تم نے علم کے باوجود جو تمہارے پاس آچکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی ومددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچاسکتا ہے۔

قرآن انسان کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی تاکید کرتا ہے اس کے لیے بار بار ہدایت کرتا ہے ’’پھر کیا وہ لوگ جو (پغیمبر کی مخالفت میں) بد سے بدتر چالیں چل رہے ہیں اس بات سے بالکل ہی بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے یا اسے گوشے سے ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے آنے کا وہم و گمان تک نہ ہو یا اچانک چلتے پھرتے ان کو پکڑ لے یا ایسی حالت میں انہیں پکڑے جب کہ انہیں خود آنے والی مصیبت کا کھٹکا لگا ہوا ہو اور وہ اس سے بچنے کی فکر میں چوکنے ہوں۔‘‘

عذاب الٰہی کافروں کا حتمی انجام ہے اور یہی قانونِ قدرت ہے کہ ظالم کو ظلم کی سزا ملے۔ سورہ اعراف 171 ویں آیت میں اراشاد ہوا ’’ کچھ یاد ہے ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا گویا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ ان پر آن پڑے گا اور اس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو۔ توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے۔‘‘ سورہ ہود میں اسی قانونِ قدرت اور اللہ کے عذاب کا تذکرہ ان الفاظ میں ہوا ’’اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے بڑی سخت اور درد ناک۔ اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بچنے کے لیے تقویٰ اختیار کرنا ضروری ہے۔‘‘ تقویٰ کا مطلب اللہ کی اطاعت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق کرنا اور پھر اسی معبودِ حقیقی سے ثواب کی امید رکھنا اور اللہ کی معصیت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ترک کر دینا ہے۔ ’’متقی اور پرہیزگار اللہ کے نزدیک وہی لوگ ہیںکہ جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو وہ فوراً اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ یعنی جب ان سے کسی غلطی کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو وہ فوراً توبہ اور استغفار کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں ہے اور باوجود علم رکھنے کے کسی برے کام پر انہیں ضد نہیں ہو جاتی۔ ہٹ دھرمی نہیں کرتے اور جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل تھرا جاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پائوں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریںاور برے کاموں سے منع کریں اور تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔۔ (سورہ حج 41) یہی حق کے پیروکار‘ معزز اور اشراف ہیں۔ یہ مومن بندے اللہ کی نافرمانیوں سے اجتناب کرتے ہیں‘ ہر لمحہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہوئے ظلم سے بچتے ہیں۔‘‘

ہر لمحہ عافیت اور رحمت الٰہی کی توقع کرنا ضروری ہے۔ اللہ کی پکڑ بہت سخت اور عذاب الٰہی اٹل ہے‘ اس کی قدرتِ کاملہ میں یہی شامل ہے کہ وہ ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچاتا ہے۔ خواہ انسان اپنے غرور و تکبر میں اس سے کتنا ہی بھاگے۔ اللہ کی پکڑ اس کو اچانک انجام سے دوچار کر دیتی ہے۔ اللہ سے ڈرنا اس سے اپنے گناہوں کی توبہ کرنا اور سنت نبویؐ کی پیروی کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ جو اپنے فرائض سے روگردانی کرتے ہیں وہ ہمیشہ انجامِ بد سے آشنا ہوتے ہیں یہی قانونِ قدرت ہے۔