قیصروکسریٰ قسط(92)

308

قیصر نے آزردہ ہو کر کہا۔ ’’ہم برسوں سے ایرانیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ لیکن وہ صلح اور امن کے الفاظ تک سننے کے لیے تیار نہیں۔ دو سال قبل ہم نے صلح کی شرائط معلوم کرنے کے لیے ایرانی سپہ سالار کے پاس تین آدمی بھیجے لیکن انہیں باسفورس کے پار پہنچانے والی کشتی کا صرف ایک ملاح ایرانیوں کے تیروں سے بچ کر یہاں پہنچا تھا اور اس نے ہمیں یہ اطلاع دی تھی کہ ایرانیوں نے ہمارے ایلچیوں کے ساتھ کوئی بات کرنے کی بجائے اُن کے سر قلم کردیے تھے۔ اس سے قبل ہمارا ایک ایلچی سپہ سالار کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا لیکن مصالحت کی گفتگو کے لیے ایرانی سپہ سالار کی پہلی شرط یہ تھی کہ ہم اُس کے لیے قسطنطنیہ کے دروازے کھول دیں‘‘۔

عاصم نے کہا… ’’میں آپ کو یہ اطمینان نہیں دلا سکتا کہ صلح کے لیے ایرانیوں کی نئی شرائط، آپ کے نزدیک کس حد تک قابل قبول ہوں گی، لیکن میں اُن کے سپہ سالار کے پاس جانے کے لیے تیار ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ایرانی سپاہی مجھے اپنے سپہ سالار کے سامنے پیش کرنے کی بجائے میرا سر قلم نہیں کردیں گے۔ اگر سین ابھی تک ایرانی فوج کا سپہ سالار ہے تو وہ میری بات ضرور سنے گا۔ کبھی وہ مجھے اپنا بیٹا سمجھتا تھا‘‘۔

قیصر نے کہا۔ ‘‘سین کو کبھی ہم بھی اپنا دوست سمجھتے تھے اور جب ہم نے اُسے قید سے رہا کیا تھا تو ہمیں یہ اُمید تھی کہ وہ کسریٰ کو مصالحت پر آمادہ کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ لیکن یہ ایک خود فریبی تھی اب وہ روم کی دشمنی میں اپنے بادشاہ سے ایک قدم آگے ہے‘‘۔

عاصم نے کہا ’’یہ باتیں مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ سین نے کسریٰ کو صلح پر آمادہ کرنے کی کتنی کوشش کی تھی لیکن اس وقت کسریٰ کو یہ یقین تھا کہ وہ شام اور مصر فتح کرنے کے بعد کسی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر قسطنطنیہ فتح کرلے گا، اس لیے سین کی پیش کش قبول نہ گئی لیکن برسوں کی ناکام کوششوں کے بعد کسریٰ کے خیالات میں بھی تبدیلی آسکتی ہے‘‘۔

حاضرین اب پُرامید ہو کر عاصم کی طرف دیکھ رہے تھے۔ قیصر نے کہا۔ ’’اگر ایرانیوں کے لیے قسطنطنیہ کے دروازے کھول دینے کے علاوہ تمہارے ذہن میں مصالحت کی کوئی تجویز ہے تو ہم سننے کے لیے تیار ہیں‘‘۔

’’جناب! ایران اور روم کی مصالحت کے لیے تجاویز سوچنا کسریٰ اور قیصر کا کام ہے۔ اگر آپ مصالحانہ گفتگو کے لیے تیار ہیں تو میں سین کی مدد سے کسریٰ کے دروازے پر دستک دینے کا ذمہ لیتا ہوں۔ میری کامیابی کا انحصار اِس بات پر ہے کہ سین کس حد تک میری باتوں سے قائل ہوتا ہے اور اگر میں اُسے مصالحت کی بات چیت پر آمادہ کرلوں تو وہ کہاں تک ایران کے حکمران پر اثر انداز ہوسکے گا۔ اگر سین نے مجھے کوئی حوصلہ افزا جواب دیا تو میں واپس آکر آپ کو اطلاع دوں گا۔ اور اگر میں واپس نہ آسکا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مجھے اپنی مہم میں کامیابی نہیں ہوئی۔ پہلے مرحلے میں میری کامیابی کا مطلب یہ ہوگا کہ سین آپ کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے تیار ہے۔ سردست میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ سین کے ساتھ براہِ راست یا بالواسطہ آپ کی گفت و شنید سے کیا نتیجہ نکلے گا لیکن میں پورے اطمینان کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ آپ کو خاقان کی طرح دھوکا نہیں دے گا‘‘۔

قیصر نے کہا۔ ’’تم یہ پسند کرو گے کہ ہم براہِ راست سین کے ساتھ ملاقات کریں‘‘۔

’’عالیجاہ اگر سین نے آپ کو ملاقات کی دعوت دی تو میں اسے ایک نیک شگون خیال کروں گا‘‘۔
’’تم سین کو قسطنطنیہ آنے پر آمادہ کرسکو گے؟‘‘۔

’’نہیں میں آپ کو یہ اُمید نہیں دلا سکتا، اور میری مایوسی کی وجہ یہ نہیں کہ سین مغرور یا خودپسند ہے، بلکہ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اگر سین یہاں آنا پسند کرے تو بھی ایرانی فوج کے ایک ادنیٰ سپاہی سے لے کر کسریٰ تک اُسے ملامت کریں گے۔ آپ کو یہ تلخ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ ایرانی فتوحات کے نشے سے سرشار ہیں اور اگر وہ جنگ کی طوالت سے تنگ آکر مصالحت پر آمادہ ہوگئے تو بھی وہ آپ کے ساتھ صرف فاتح کی حیثیت سے ہمکلام ہونا پسند کریں گے۔ میں آپ کو یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ صلح کے لیے کسریٰ کی شرائط انتہائی توہین آمیز ہوں گی۔ لیکن اگر آپ صلح اور امن کو اپنی موت و حیات کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اگر آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ بازنطینی سلطنت تباہی کے آخری کنارے پہنچ چکی ہے اور آپ کے لیے مغرور اور بے رحم دشمن کے سامنے گرکر صلح کی بھیک مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اگر آپ یہ نہیں چاہتے کہ کسی دن قسطنطنیہ میں بھی، انطاکیہ اور یروشلم کی تباہی کی داستان دہرائی جائے تو آپ کو یہ تلخ گھونٹ پینا ہی پڑے گا‘‘۔

عام حالات میں ایسی تقریر سن کر ایک ادنیٰ رومی بھی عاصم کی بوٹیاں نوچنے کے لیے تیار ہوجاتا، لیکن سامعین کی بے بسی اور بے چارگی کا یہ عالم تھا کہ وہ اِس اجتماع میں اُس کی آمد کو تائید غیبی سمجھ رہے تھے۔

قیصر کچھ دیر اضطراب کی حالت میں اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد اُس کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’تمہیں یقین ہے کہ اگر سین ہمارے ساتھ ملاقات پر رضا مند ہوگیا تو ہمیں اُس کے پاس جانے میں کوئی خطرہ نہیں ہوگا؟‘‘۔

’’عالیجاہ! میں سین کے خیالات معلوم کیے بغیر آپ کو کوئی اطمینان نہیں دلا سکتا‘‘۔
قیصر نے کلاڈیوس کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ کلاڈیوس ہمیں یقین ہے کہ تمہارے متعلق اگر کسی کو غلط فہمی تھی تو وہ دور ہوچکی ہے۔ اور ہماری سینٹ کے جن ارکان نے تمہارے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا ہے وہ اب تمہاری جرأت اور وفاداری کا اعتراف کرنے میں نجل سے کام نہیں لیں گے لیکن ہمیں یہ بات پسند نہیں آئی کہ تم نے ہمارے حصے کا بوجھ بھی اپنے سر اٹھالیا تھا۔ تم نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ ہم اپنی رعایا کو تباہی سے بچانے کے لیے ہر خطرہ مول لینے کے لیے تیار تھے اور اگر خاقان ہرقلیہ آنے پر آمادہ نہ ہوتا تو ہم اُس کے کیمپ میں جانے کے لیے بھی آمادہ ہوجاتے۔ بہرحال ہم تمہارے شکر گزار ہیں اور ہمیں اُمید ہے کہ آئندہ تمہیں بڑی سے بڑی ذمہ داری کا اہل سمجھا جائے گا‘‘۔

سامعین کی زبانیں گنگ ہو چکی تھیں اور کلاڈیوس تشکر کے آنسوئوں سے قیصر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ہرقل عاصم کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’تم نے ایک مرتبہ ہماری جان بچائی ہے اور ہم تمہاری نیک نیتی پر شبہ نہیں کرسکتے۔ تاہم کسی فیصلہ پر پہنچنے کے لیے ہمیں مزید صلاح و مشورہ کی ضرورت ہے۔ ہم دو یا تین دن کے اندر اندر تمہیں کوئی تسلی بخش جواب دے سکیں گے۔ لیکن آج سے تم کلاڈیوس کی بجائے ہمارے مہمان ہو… اب یہ مجلس برخاست ہوتی ہے‘‘۔

دس روز بعد رات کے وقت ایک کشتی آبنائے فاسفورس سے نکل کر بحریہ مارمورا کے ساحل کے ساتھ ساتھ مشرق کا رُخ کررہی تھی۔ عاصم کلاڈیوس اور ولیریس کے علاوہ چار ملاح اس کشتی پر سوار تھے۔ آسمان پر بادل آئے ہوئے تھے اور ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ ولیریس کشتی کا پتوار سنبھالے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کنارے کے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ کلاڈیوس اور عاصم کے دوسرے سرے پر بیٹھے آپس میں باتیں کررہے تھے۔

عاصم نے کہا۔ ’’کلاڈیوس اب بارش زیادہ تیز ہورہی ہے، اگر تم لوگ اتنی دور آنے کی بجائے باسفورس سے نکلتے ہی مجھے کسی جگہ اُتار دیتے تو بھی میرے لیے کوئی فرق نہ پڑتا‘‘۔

کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’نہیں عاصم ہمیں ہر ممکن احتیاط کرنی چاہیے۔ ولیریس کا یہ خیال صحیح ہو کہ خلقدون کے آس پاس ایرانی سپاہی زیادہ چوکس ہوں گے۔ وہ اس طرف سے بھی غافل نہیں ہوں گے۔ تاہم یہ علاقہ نسبتاً زیادہ محفوظ ہوگا‘‘۔

عاصم خاموش ہوگیا۔ اور کلاڈیوس نے کچھ دیر بعد اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’عاصم! اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اب بھی تمہیں کشتی سے اُتارنے کی بجائے اپنے ساتھ واپس لے جانا زیادہ پسند کرتا۔ میرے دل میں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ کیا ہم دوبارہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’اگر سین ابھی تک ایرانی لشکر کا سپہ سالار ہے تو مجھے یقین ہے کہ دو دن بعد تم مجھے اپنا منتظر پائو گے، سمندر کے کنارے آگ کی روشنی اس بات کا ثبوت ہوگی کہ میں زندہ ہوں۔

کشتی کے دوسرے سرے سے ولیریس کی آواز سنائی دی، ’’میرے خیال میں اب ہمیں اس سے آگے جانے کی ضرورت نہیں۔ میں کنارے کا رُخ کررہا ہوں اس لیے آپ خاموش ہوجائیں‘‘۔

اس کے بعد کشتی کی رفتار بتدریج کم ہونے لگی اور وہ دم بخود ہو کر کنارے کی سیاہ چٹانوں کے ساتھ ہلکی ہلکی لہروں کے تھپیڑوں کا شور سننے لگے، پھر کشتی کسی بھاری پتھر کے ساتھ رگڑ کھانے کے بعد رُک گئی اور ایک ملاح نے جلدی سے گھٹنے گھٹنے پانی میں کودتے ہوئے دبی زبان میں کہا۔ ’’یہاں پانی بہت کم ہے۔ اور کشتی کو آگے لے جانا ممکن نہیں‘‘۔

عاصم نے اپنے موزے اُتار کر ہاتھ میں پکڑ لیے اور پھر اپنی قبا سنبھالتا ہوا پانی میں اُتر پڑا۔ ملاح کشتی کو چند قدم پیچھے دھکیلنے کے بعد اس پر سوار ہوگیا اور عاصم کسی توقف کے بغیر کنارے کی طرف بڑھا۔ تھوڑی دیر وہ کنارے کے ایک ٹیلے پر کھڑا اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ اور کشتی جسے وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا رات کی تاریکی میں غائب ہوچکی تھی۔ بارش بتدریج زیادہ ہورہی تھی۔ اس نے جلدی سے اپنے موزے پہنے اور ایک طرف چل دیا۔ مہیب تاریکی میں اُسے ہر سمت یکساں محفوظ اور یکساں غیر محفوظ معلوم ہوتی تھی۔ کچھ اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بعد وہ ایک جگہ رُک کر فارسی زبان میں آوازیں دینے لگا۔ ’’کوئی ہے! کوئی ہے!! میں ایرانیوں کا دوست ہوں۔ یہ سپہ سالار کے پاس جانا چاہتا ہوں، میری مدد کرو، مجھے سپہ سالار کی قیام کا راستہ دکھادو… کوئی ہے!‘‘

لیکن اس کی آوازیں رات کی ہولناک تاریکیوں میں گم ہو کر رہ گئیں۔ وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد پوری قوت سے آوازیں دیتا رہا۔ اور بالآخر نڈھال سا ہو کر زمین پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد اچانک اس نے محسوس کیا کہ چند سائے اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پھر اسے کوئی ایسی آہٹ محسوس ہونے لگی جو بارش کے دھیمے دھیمے شور اور اس کے دل کی دھڑکنوں سے مختلف تھی چند ثانیے بعد اسے اپنی آنکھوں اور کانوں پر کوئی شبہ نہ رہا۔

وہ چلایا۔ ’’میں راستہ بھول چکا ہوں۔ میری مدد کرو۔ مجھے سپہ سالار کے پاس لے چلو!‘‘

سائے تاریکی کی آغوش سے نکل کر اس کے گرد جمع ہوگئے اور عاصم بدستور چلا رہا تھا۔ ’’اگر تم ایران کے سپاہی ہو تو میں تمہارا ساتھی ہوں۔ سپہ سالار مجھے جانتا ہے‘‘۔ (جاری ہے)

حصہ