محمد حسن عسکری کل اور آج

394

(نویں قسط)

کسی کے بارے میں یہ کہنا (جیسا کہ عسکری صاحب کے بارے میں کہا گیا) کہ انہوں نے کلاسیکیت میں پناہ لی، جدید مسائل کا سامنا نہ کرسکے، اگر رجعت پرست نہیں تو نوقدامت پرست conservative Neoضرور ہوگئے۔ یہ سب باتیں شکست خوردہ ذہن کی علامت ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو خود اپنی جگہ پر کلاسیکی ادب کو پڑھنے یا اس کو پڑھ کر لطف اندوز ہونے کے قابل نہیں ہیں اور جن میں کوئی علمی شغف نہیں ہے، اور وہ انہیں چیزوں کو پڑھنے کے قابل سمجھتے ہیں جو مغرب سے آئی ہوں، تو پھر ظاہر بات ہے کہ وہ عسکری کو جدید معاملات سے فراری ہی کہیں گے۔ ایک عرصے کی بات ہوگئی۔ میری درخواست پر عسکری صاحب نے ’’شب خون‘‘ میں ایک مضمون لکھا تھا، ’’اردو کی اصل ادبی روایت کیا ہے؟‘‘ وحید اختر مرحوم کا تو نام بھی نہ تھا، لیکن مشرق اور مغرب کے تصورات اور افکار، او رنوآبادیاتی ذہن کی ریشہ دوانیوں کو عسکری نے آئینہ کرکے رکھ دیا تھا۔ وحید اختر مرحوم بڑے فاضل اور بڑے ذہین شخص تھے۔ وہ آسانی سے ہار ماننے والوں میں نہ تھے۔ لیکن عسکری صاحب کے اس مضمون پر وہ خاموش رہے۔ یہ مضمون ’’وقت کی راگنی‘‘ میں شامل ہے۔

یہ کلاسیکی ادب میں پناہ لینے کی بات نہیں۔ کلاسیکی ادب پڑھ کر اپنے ذہنی اور روحانی افق کو وسیع کرنے کی بات ہے۔ سودا کو ہم لوگ آج کیا سمجھتے ہیں؟ یہی نا کہ تھا ایک ٹھٹھول گو، ہرزہ دار، قصیدے اور ہجو میں زور کیا دکھاتا تھا، اپنے باطن کی سیاہی اور مزاج کے تملق کو ظاہر کرتا تھا۔ ہاں غزل بھی تھوڑی بہت کہہ لیتا تھا۔ لیکن سودا کو نہیں پڑھا ہے آپ نے تو آپ کو کیا معلوم ہو کہ وہ کیا تھا۔ سودا کی ایک غزل ہے، سکندری جانے، افسری جانے۔ پندرہ سترہ شعر میں انہوں نے پورا فلسفۂ حکومت و نظم و نسق بیان کردیا ہے۔ ایک اور غزل ہے، ہنجار ہو پیدا، گفتار ہو پیدا۔ اس پندرہ شعر کی غزل میں اپنے زمانے کی شعریات لکھ دی ہے، اور میر پر نکتی چینی بھی شاید کی ہے۔ غزل کے بارے میں ہمارے یہاں جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ محض عشقیہ وشقیہ ہے اور رونا دھونا ہے، شراب و شباب ہے۔ ان کو کیا پتا لگے گا کہ سودا نے، جرات نے، انشا نے، ناسخ نے، میر نے، غزل میں کیا کیا ڈال دیا ہے جو صاحبان سودا کا مذاق اڑاتے ہیں، یا انہیں آج کے لیے بامعنی نہیں سمجھتے، وہ مندرجہ بالا زمینوں میں سودا کے مضامین پر مبنی، یا جدید فلسفۂ حکومت اور جدید اردو شعریات پر مبنی زیادہ نہیں تو چار ہی چار بامعنی اور رواں شعر لکھ کر دکھادیں، یا کسی سے لکھواکر لے آئیں۔

معاف کیجیے گا ہمارے نقادوں میں سہل انگاری بہت ہے۔ سستا کام بہت ہے۔ جو چیزیں جاری ہیں، سامنے آجاتی ہیں، انہیں پڑھ لیتے ہیں، انہیں پرلکھ دیتے ہیں۔ پرانی چیزوں کو پڑھنے میں ڈھونڈنا پڑتا ہے، دماغ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اب میر کا ہی بظاہر معمولی سا شعر ہے،

لوہو پیتے ہی مرا اشک نہ منھ کو لاگا
بوسہ جب لے ہے ترے ہونٹوں کی بیری کا مزہ

دیوان میں چھپا ہوا ہے ’’پیڑی کا مزا‘‘ اور غزل کے قافیے ہیں، ’’اسیری، فقیری‘‘ وغیرہ۔ اس میں پیڑی‘‘ کا کیا دخل؟ اب آپ روتے رہیے۔ متن ظاہر ہے کہ غلط ہے، لیکن صحیح کیا ہے معلوم نہیں۔ جب غور کریں اور لغات دیکھیں تو پتا لگے گا کہ یہ ’’بیری‘‘ ہے، یعنی باے موحدہ اور یاے معروف سے ہے۔ ’’بیری‘‘ کے معنی ہیں پان کا وہ رنگ جو ہونٹ یا دانت پر لگ جاتا ہے۔ میں نے جب سے خون کے گھونٹ پئے، تب سے یہ معمولی پانی والے آنسو مجھے بھلے نہیں لگتے۔ جب میں نے تیرا بوسہ لیا تو منھ اور زبان پر تیرے ہونٹوں کی سرخی کا مزہ لگ گیا۔ پھر وہ لطف کہاں، خوناب کا لطف کہاں، اور معمولی آنسو کہاں۔

ظاہر ہے کہ اس شعر کو سمجھنے میں جتنی محنت پڑی ہے، ہمارے زیادہ تر نقادوں کے پاس اتنا وقت نہیں، نہ اتنی محنت کے وہ عادی ہیں۔ جب عسکری صاحب بیٹھ کر جرات پر چالیس صفحات لکھتے ہیں تو محنت لگتی ہے، سوچنا پڑتا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ بھائی ایسے زبردست آدمی کو میر نے اگر کہہ دیا کہ تمہاری شاعری میں چوما چاٹا کے سوا کچھ نہیں، تو ایسا کیوں کہہ دیا؟ پھر وہ آتے ہیں مثلاً حالی کے پاس۔ وہ دیکھتے ہیں کہ غزل کا سچا شاعر ہے، لیکن پھر بھی غزل کی مخالفت کرتا ہے۔ تو دونوں میں تطابق کس طرح کیا جائے، اور نہ کیا جائے تو دونوں کو الگ الگ سچائی کیسے ثابت کرسکتے ہیں؟ اس طرح کے سوچنے میں دماغ اور عقل لگتی ہے، مطالعہ اور فکر لگتی ہے۔

سوال: محمد حسن عسکری تنقید کے ہی نہیں تخلیق کے بھی آدمی تھے۔ اور انہوں نے درجن بھر سے زائد افسانے لکھے اور کئی افسانے بہت مقبول ہوئے، ’’پھسلن‘‘ وغیرہ۔ ان افسانوں کے معیار کے حوالے سے ان کے معاصرین مثلاً غلام عباس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ یا ’’پھسلن‘‘ کے بارے میں ایک بزرگ نقاد سے ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ عسکری صاحب نے اس افسانے میں اپنے اور فراق صاحب کے مابین جنسی تعلقات کو افسانے کا رنگ دیا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ عسکری نے افسانہ نگاری کیوں چھوڑ دی تھی؟

شمس الرحمٰن فاروقی: عسکری صاحب بطور افسانہ نگار بالکل ایک اور واحد آواز ہیں اردو ادب میں۔ دو طرح سے۔ ایک تو ان کی جو نثر ہے اس میں کوئی بھی شعوری کوشش نظر نہیں آتی ہے نثر بنانے کی۔ مثلاً بیدی کے یہاں نظر آتا ہے۔ بہت سوچ ساچ کر لکھتے ہیں، بہت سوچ سوچ کر نثر بناتے ہیں۔ بیدی کے بارے میں کہیں پہلے میں نے کہا تھا کہ بیدی کا ایک لفظ بھی بدل نہیں سکتے۔ اگر کوئی لفظ انہوں نے لکھا ہے افسانے میں شروع میں، اور وہ لفظ آپ کو نامناسب نظر آتا ہے اور آپ اسے بدلنا چاہیں گے تو بعد میں آپ کو مایوسی ہوگی جب آپ دیکھیں گے کہ اس لفظ کی کوئی معنویت آگے جاکر کھلتی ہے۔ وہ لفظ پہلی نظر میں آپ کو بھونڈا یا ہلکا معلوم ہوا ہو، لیکن پورے افسانے کے تناظر میں اس کی معنویت ہے۔ منٹو ہیں کہ وہ اتنی آسانی سے لکھتے چلے جاتے ہیں کہ یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ آدمی لکھ رہا ہے یا بول رہا ہے یا اس پر لفظ اتر رہے ہیں۔ لیکن ذرا ساغور کیجیے تو منٹو کے یہاں تشبیہات، انوکھے الفاظ کااستعمال، مکالمے کی چمک دمک، یہ سب صاف ظاہر کردیتا ہے کہ بہت ہی تنظیم سے یہ آدمی لکھ رہا ہے۔ ضروری نہیں کہ ایک ایک فقرہ لکھ کر وہ سوچتا ہو، لیکن اس کا ذہن اتنا منظم ہے کہ لگتا ہے اس کی عبارت کا بڑا حصہ اس کے ذہن میں پہلے سے آچکا تھا جب اس نے لکھنا آغاز کیا۔

اب عسکری صاحب کا معاملہ یہ تھا کہ ان کے ہاں نثری اسلوب کو سنوارنے بنانے یا افسانوی طرز اختیار کرنے، یا جوان کے زمانے میں بہت مقبول تھا۔ نثر میں شاعرانہ انداز اختیار کرنے کا رویہ، اس طرح کی کوشش عسکری صاحب کے یہاں نہیں ملتی۔ وہ بہت تھکی ہوئی لیکن بظاہر سادہ نثر لکھتے تھے میں نے ہمیشہ سوچا ہے ان کے بارے میں کہ اگر ان کی نثر کا مقابلہ کیا جائے تو اردو میں تو شاید کوئی نہ ملے۔ انگریزی یا فرانسیسی میں ایک دو آدمی ایسے ضرور ہیں جن کی نثر ان کے مشابہ ہم کہہ سکتے ہیں، یہ کہ فطری، لیکن بہت سوچی ہوئی نثر ہے۔ افسانویت لانے کا، افسانے کو ڈرامائی بنانے کا، یا افسانے کو شعریت سے بھردینے کا کوئی طوران کے یہاں نظر نہیں آتا۔

دوسری بات یہ کہ جو ان کے موضوعات ہیں، وہ بھی اردو ادب میں اس وقت تک کسی نے نہیں برتے تھے۔ اگرچہ عصمت کے کئی افسانے عورت کی داخلی جنسی زندگی کے بارے میں ہیں، لیکن عصمت کے یہاں عورت کے نقطہ? نظر سے افسانہ لکھا جاتا ہے، اور عورت کا نقطۂ نظر بھی کہیں روایتی، گھریلو، کہیں اوپر سے اوڑھا ہوا ’’جدید‘‘ ہے، اور کہیں زیادہ فطری ہے۔ اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے، بلکہ سادہ سا بیان ہے، اور افسانہ نگار کی نگاہ میں حقیقت پر مبنی ہے یعنی افسانہ نگار بزعم خود ’’حقیقت‘‘ بیان کر رہی ہے۔ کرداروں کی ذہنی کیفیات کا کوئی بیان نہیں ہے۔ ان کی پیچیدگیوں کا ذکر، کہ وہ اپنے عمل یا روئیے کو اچھا سمجھ رہے ہیں کہ برا سمجھ رہے ہیں، کہ فطری اور اضطراری سمجھ رہے ہیں، یہ سب باتیں عصمت کے یہاں نہیں۔ بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک قوت ہے جس کے وہ کردار تابع ہوگئے ہیں اور اس کے اندر کی جو باریکیاں یا گہرائیاں ہیں، اور خود اس قوت کی پوشیدہ قوتوں کا انہیں کوئی پتہ نہیں ہے۔

اختر حسین رائے پوری کا ایک افسانہ اس کے کچھ بعد کا ہے۔ ’’جسم کی پکار‘‘، اس میں بھی ہم جنسی کا موضوع لیا گیا ہے، لڑکے اور استاد کے بارے میں۔ ہوسکتا ہے ہمارے ان بزرگ نے، جن کا تم نے ابھی ذکر کیا ہے، اس افسانے اور ’’پھسلن‘‘ کو اپنے ذہن میں گڈمڈ کردیا ہو۔ ’’جسم کی پکار‘‘ میں یہ ضرور ہے کہ ایک لڑکا ہے، اس کو ایک طرح کی دلکشی اور دلچسپی محسوس ہوتی ہے اپنے استاد میں، اس کی جسمانی صفات، مثلاً وہ قدآور ہے، اس کی پنڈلیوں پر بال بہت ہیں، وغیرہ، یہ چیزیں اس لڑکے کو بے چین کرتی ہیں۔

’’پھسلن‘‘ میں تو کوئی ذکر ہی نہیں ہے استاد شاگرد وغیرہ کا۔ اگر کسی نے یہ کہا کہ ’’پھسلن‘‘ میں عسکری صاحب نے اپنے اور فراق صاحب کے تعلقات بیان کیے ہیں تو اول تو یہ بات ہی بے بنیاد ہے کہ عسکری اور فراق میں شاگردی استادی کے سواکوئی اور رشتہ بھی تھا، اور دوسری بات یہ کہ ’’پھسلن‘‘ میں یہ موضوع ہی نہیں ہے استاد اور شاگرد کے درمیان کسی جسمانی کشش یا تعلق کا۔ یہ افسانہ ’’جسم کی پکار‘‘ کے مقابلے میں بہت زیادہ پیچیدہ، اور ایک طرح سے گھبرادینے والا ہے۔ اس میں نوکر اور مالک کے معاملات ہیں۔ ایک بالغ ہوتا ہوا نوکر ہے، اور اس سے کچھ کم عمر کا لڑکا ہے جو صاحب خانہ کا لڑکا ہے۔

ان کے درمیان جو کچھ ہے وہ زیادہ تر اندر ہی اندر ہے، باہر ابھی کچھ بہت نظر نہیں آتا۔ یعنی یہ نہیں کہ وہ اس کو کھلے بندوں چھوتا ہے، اس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ یہ سب کچھ نہیں ہے بس اندر ہی اندر جو کچھ ہے، ہم آہستہ آہستہ اس سے واقف ہوتے ہیں۔ تو اس افسانے کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اس میں غیر معمولی حبس، بلکہ احتباس ہے۔ اس حیثیت میں یہ افسانہ مجھے ٹامس مان (Thomas Mann) کے افسانے Death in Venice کی یاد دلاتا ہے۔ اس میں ایک بزرگ مصنف ایک لڑکے کے عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اس کو وہ ریسٹوراں میں دیکھتا ہے اور اس پر عاشق ہوجاتا ہے۔ سارے افسانے میں ایک دفعہ بھی ان کی آپس میں بات نہیں ہوتی ہے۔ وہ اس کو دور سے دیکھتا ہے، اس کے پیچھے پیچھے جہاں جہاں وہ جاتا ہے، وہاں ا ٹھتا بیٹھتا ہے۔ لیکن اس کمبخت نے کبھی اس سے ایک جملہ بات بھی نہیں کی یہاں تک کہ وہ خودکشی بھی کرلیتا ہے۔ اپنے کو گولی مار لیتا ہے۔ وہ افسانہ نگار اور وہ سارا افسانہ پھر بھی جنسی احتباس سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن بار بار کوفت ہوتی ہے کہ کمبخت کچھ کرتا کیوں نہیں۔ اپنی اور ہماری جان کیوں جلائے جارہا ہے؟ ’’پھسلن‘‘ کا تقریباً وہی معاملہ ہے کہ دونوں کے درمیان جو کچھ ہے وہ بیشتر اس نوکر، نذرو جس کا نام ہے، کی باتوں اور جھجکتی ہوئی حرکتوں، یا صاحب خانہ کے لڑکے جمیل کے اسکولی مشاہدوں اور ذہنی کوائف میں ہے۔ آگے بڑھ جانے کی تو کوئی نوبت ہی نہیں آتی ہے۔ تو ’’پھسلن‘‘ بہت غیرمعمولی افسانہ ہے اور یہ بالکل ہی غلط مفروضہ ہے کہ اس میں استاد شاگرد کے آپسی جنسی تعلقات کا بیان ہے اور یہ بات کہیں سے بھی ثابت نہیں، بلکہ ایسی کوئی افواہ بھی میں نے نہیں سنی کہ عسکری اور فراق میں کچھ رشتہ اور بھی تھا۔

تو انہوں نے افسانہ نگاری چھوڑ کیوں دی جب کہ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ میں افسانہ نگار پہلے ہوں اور باقی چیزیں بعد میں ہوں؟ اس کا جواب میں نے ابھی تلاش نہیں کیا ہے۔ بہرحال، کچھ باتیں ذہن میں آتی ہیں۔ افسانہ نگاری انہوں نے یوں ترک کی ہوگی شاید کہ انہوں نے یہ خیال کیا ہو کہ بطور نقاد جو ان کا منصب ہے کہ معاصر اردو ادب اور ادیبوں کو وہ ایک خاص راستے پر لگائیں یا انہوں نے جو سوچا یا پڑھا ہے ادب کے بارے میں، اسے اوروں تک پہنچائیں، اس میں رخنہ انداز ہوتی ہوگی ان کی افسانہ نگاری۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے انگریزی اورفرانسیسی فکشن بہت سارا ترجمہ کیا۔ تو ایک حد تک ان کا افسانہ نگاری کا جو شوق تھا یا جبلت تھی وہ بڑی حدتک تراجم سے آسودہ ہوگئی۔ ترجمے کو وہ جتنی اہمیت دیتے تھے، تم اس سے واقف ہو۔

سوال: بات افسانے پر ہو رہی ہے تو اور آگے اس کو بڑھاتے ہیں۔ انہوں نے غلام عباس پر مضمون لکھا ہے، منٹو اور انتظار حسین پر بھی لکھا۔ آپ کے نزدیک ان تین افسانہ نگاروں میں وہ کون سی خوبیاں تھیں جن سے وہ متاثر تھے؟

شمس الرحمن فاروقی: انتظار حسین تو بہت بعد میں آئے۔ غلام عباس ایسے ہرگز نہیں تھے کہ وہ کہیں سے عسکری کو متاثر کرتے۔ عسکری صاحب کو تو ہم سب غلام عباس سے بہت اچھا افسانہ نگار مانتے ہیں۔ ان کے دو مشہور افسانے تو انگریزی سے مستعار ہیں، لیکن خیر وہ بھی اچھے افسانہ نگار تھے۔ عسکری صاحب اس معنی میں فقیدالمثال ہیں کہ عسکری کے سارے افسانوں کا محور انسانی تعلقات اور جنسی تحرکات ہیں۔ جنسی ہیجانات تحرکات اور تعلقات کااتنا باریک تجزیہ اور کسی کے یہاں نہیں ملتا۔ مثلاً منٹو کے یہاں جنس کے معاملات کا بہت گہرا مطالعہ ہے، لیکن منٹو کے یہاں یہ ایک ذریعہ ہے کچھ اور باتیں بیان کرنے کا، کسی نکتے کو واضح کرنے کا۔ جسے انگریزی میں کہیں He wants to put across a point. منٹو کے یہاں جو جنسی تحرکات کا بیان ہے تو وہ مقصود بالذات نہیں ہے۔ وہ ذریعہ ہے کردار نگاری کا، یا کسی طبقے کے بارے میں کوئی بات بیان کرنے کا۔ بابو گوپی ناتھ ہیں، سو گندھی ہے، یا ’’بو‘‘ کی گھاٹن ہے، یہ سب کسی پیغام کے حامل ہیں۔ عسکری کا افسانوں کا میدان صحیح معنی میں جنس کی نفسیات ہے۔ ان میں کوئی پیغام، کوئی تعلیم، کوئی سبق نہیں۔

سوال: تو کیا یہ کہا جائے کہ عسکری صاحب کے افسانوں میں زندگی کے بارے میں کوئی بصیرت نہیں ملتی؟

شمس الرحمن فاروقی: یہی تو لطف کی بات ہے کہ بصیرت پھر بھی موجود ہے۔ لیکن ’’بصیرت‘‘ وغیرہ کو عسکری صاحب کچھ زیادہ اہمیت دیتے نہیں تھے۔ ان کی نظر میں ادب کا سب سے بڑا فائدہ اس کی بصیرتوں میں نہیں، بلکہ اس کی صلاحیت میں تھا کہ وہ ہمیں اپنے وجود سے روشناس کراتا ہے۔ بودلیئر کا یہ قول کتنا زبردست ہے کہ میرا قاری میرا بھائی ہے، اور ہر قاری ریاکار ہوتا ہے۔
(جاری ہے)

حصہ