شیخی خور کی مونچھیں

227

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک سفلے اور شیخی خور آدمی کو کہیں سے دنبے کی چکتی کا ایک ٹکڑا مل گیا۔ وہ روزانہ صبح اٹھتے ہی اپنی مونچھیں دنبے کی چکتی سے چکنی کرکے اکڑاتا اور امیروں اور دولت مندوں کی محفل میں جاکر بیٹھتا اور بڑے اکڑ کر بار بار کہتا ’’آج تو بڑے مرغن کھانے کھائے ہیں۔ بہت مزا آیا۔‘‘ لوگ اس کی بات کا یقین کرلیتے۔ جب جب وہ شخص اپنی جھوٹی امیری کا ڈھنڈورا پیٹتا اُس کا معدہ اللہ سے دعا کرتا کہ ’’یااللہ اس شیخی خور کی حقیقت لوگوں پر ظاہر کردے۔‘‘ آخر اللہ نے اس کے معدے کی فریادکو سن لیا اور ایک روز اس کمینے شخص کے مکان میں ایک بلی گھس آئی اور دنبے کی چکتی کا ٹکڑا منہ میں دباکر بھاگ گئی۔ اس شخص کے بچے نے دولت مندوں کی محفل میں جاکر اونچی آواز میں باپ کو اطلاع دی کہ ’’دنبے کی چکتی کا وہ ٹکڑا جس سے آپ روزانہ اپنی مونچھیں چکنی کیا کرتے تھے، ایک بلی منہ میں دبا کر لے گئی ہے۔ میں نے اسے پکڑنے کی بہت کوشش کی مگر وہ بھاگ گئی۔‘‘
بچے کے یہ کلمات سننے تھے کہ اس آدمی کا رنگ فق ہوگیا۔ محفل میں بیٹھے تمام لوگ بڑے حیران ہوئے، بعض تو بے اختیار ہنس پڑے۔ مگر کسی نے اس سے کچھ نہ کہا۔ وہ خود ہی اتنا شرمندہ تھا کہ کسی سے آنکھیں نہ ملا سکا۔ ان لوگوں نے اس کی ندامت دور کرنے کے لیے اس کی خوب دعوتیں کیں۔ اسے خوب کھلا پلا کر اس کا پیٹ بھرا۔ اس نے لوگوں کا ایسا رویہ دیکھا تو شیخی چھوڑ کر سچائی کو اپنا لیا۔
درسِ حیات: جھوٹ بہت بڑی لعنت ہے۔ (مولانا جلال الدین رومیؒ)

حصہ