قہقہے سے غم اوربڑھ جاتا ہے،انور مقصود کا ایک یادگار انٹریو

600

پاکستان ٹیلی ویژن سے مزاحیہ خاکوںکے پروگرام ’’ففٹی ففٹی‘‘ کے ابھی چند ہی خاکے مشہور ہوئے تھے کہ ایک دوپہر ٹی وی سینٹر کی سیڑھیوں پہ فاطمہ ثریا بجیا مل گئیں۔ معلوم تھا مجھے کہ یہ خاکے انور مقصود لکھ رہے ہیں۔ کون مقصود؟ بجیا کے چھوٹے بھائی۔ یقین نہ آیا۔ پوچھا بجیا سے:

’’یہ انور مقصود آپ کے چھوٹے بھائی ہیں؟‘‘
تیزی سے بولیں جیسے بولنے کی عادت تھی ’’تجھے کیوں شبہ ہے؟‘‘
عرض کیا ’’ملوں گا تو یقین بھی آ ہی جائے گا۔‘‘
فرمایا ’’کیا اپنے اخبار کے لیے ملنا ہے؟‘‘

’’ہاں‘‘ میں سر ہلایا تو بولیں ’’ابھی چل۔ ادھر ہی جا رہی ہوں۔‘‘
بجیا جو فالج کا شکار‘ بے بسی کی غم ناک تصویر بنی رہیں اور پھر دنیا سے چلی گئیں‘ ویسے ہی جیسے پچھلے سب جا چکے ہیں اور چلے جائیں گے سب کے سب‘ ایک نہ ایک دن۔ تب ہاں تب‘ جب ملی تھیں‘ غضب کی پھرتیلی‘ بھرپور ہوا کرتی تھیں زندگی سے۔ اپنی چھوٹی سی کار میں بٹھا کے‘ مجھے ڈرائیو کرتی ہوئی پرانی سبزی منڈی کے سامنے الہلال سوسائٹی کے ایک بنگلے پر اتریں۔ میں ڈرائنگ روم کے صوفے پر بیٹھ گیا اور وہ ’’انور… انورر‘‘ پکارتیں اندر چلی گئیں۔

تھوڑی ہی دیر بعد ایک سیف بالوں (کہ جن میں سیاہ بالوں کی ملاوٹ کچھ کم نہ تھی) جینز و جرسی پہنے آنکھیں ملتے ہوئے کوئی صاحب آئے اور آ کے سامنے کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ اب اپنے ذہن میں ادیب و شاعر اور ڈراما نگار‘ خاکہ نگار کا حلیہ ان صاحب سے ملتا جلتا نہ تھا۔ میں چپ چاپ ان ہی کی طرح انہیں دیکھتا رہا۔ چہرے پر ان کے نیند کا غبار‘ پلوں کے پیچھے شرارت سی چھپی جیسے ابھی ہنس پڑیں گے۔ مجھے چپ پا کر ایسے دیکھتے تھے جیسے ’’پوچھیے کیا پوچھنا ہے؟‘‘ کہہ رہے ہوں۔

اسی انداز میں یہ بھی تھا ’’میں ہی انور مقصود ہوں۔‘‘

تب نہ مجھے خبر تھی‘ نہ انہیں معلوم تھا کہ عزت‘ شہرت‘ دولت (غالباً) ہُن کی طرح برسیں گے ان کے گھر پر جو الہلال سوسائٹی سے کالا پُل کے اس پار ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں منتقل ہو جائے گا۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ٹیلی ویژن اور پھر اسٹیج پر ان ہی کا راج ہوگا‘ ڈرامے‘ خاکے‘ اسٹیج شو وغیرہ کی صورت میں۔

ٹیلی ویژن کے مزاح نگار کے طور پر انور مقصود کا یہ پہلا انٹرویو تھا جو ’’جسارت‘‘ میں چھپا۔ وہ شمارہ تو کہیں گم ہو گیا جیسے گم ہو جاتی ہیں وہ چیزیں جن کو اہم نہیں سمجھا جاتا مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ اہم ہوتی جاتی ہیں اور پھر ڈھونڈنے اور پچھتانے کے سوا کیا رہ جاتا ہے آدمی کے پاس۔ پھر بھی اس ملاقات کی دو ایک باتیں پتا نہیں کیوں ذہن سے یادداشت سے چمٹی رہیں۔ (یہ بھی ایک راز ہے کہ کوئی بات کیوں یاد رہ جاتی ہے) باتوں باتوں میں انور کہنے لگے ’’مزاح کے لیے لفظوں کا استعمال ضروری نہیں ہوتا۔ بسا اوقات ایک سچوئیشن خود اتنی مزاحیہ ہوتی ہے کہ اسے دیکھتے ہی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ کسی پٹھان کو سائیکل چلانا سیکھتے ہوئے دیکھیں۔ اس کی الٹی سیدھی معصومانہ حرکتیں پیٹ میں گدگدی کرنے لگیں گی۔‘‘

کئی فن کار چھپے ہیں انور مقصود میں۔ بلند پایہ مصور جو زندگی کو رنگوں میں پینٹ کرتا ہے وہ اپنی کھینچی ہوئی آڑھتی ترچھی لکیروں میں سرخ و سیاہ رنگ بھرتا ہے‘ جس کی داد شاکر علی جیسے بے مثل مصور نے بھی دی ہے۔ ان سے ملیے تو تھوڑی ہی دیر میں کوئی ایسا پھڑکتا ہوا ذومعنی جملہ‘ تیز دھار فقرہ بے ساختہ ادا کریں گے کہ مدتوں یاد رہ جائے گا‘ لطف دیتا رہے گا۔ یہ ان کے اندر کا طنز نگار ہے جو ان کی پہچان بن گیا ہے۔ چند ہی ملاقاتوں میں آپ پر کھلے گا کہ میر‘ مصحفی‘ انشا‘ غالب‘ ذوق‘ داغ‘ اقبال اور فیض کے سیکڑوں اشعار موصوف کو ازبر ہیں جنہیں موقع محل کی مناسبت سے استعمال کرنے کا ہنر بھی خوب آتا ہے۔ یہی نہیں‘ نہاں خانہ ذہن میں ایک پیروڈی کرنے والا شاعر بھی موجود‘ جو اچھے بھلے اشعار میں معمولی سے تحریف سے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے لیکن یہی شاعر کبھی سنجیدگی سے کہنے پر آئے تو ایسے نعتیہ شعر بھی کہہ دیتا ہے:

روٹھے ہو تو من جائو محبوبِ خدا ہم سے
مانا کہ برے ہیں ہم‘ ہے تم کو گلہ ہم سے

یا جواب قوالی لکھنا چاہے تو:

ہر صبح پریشاں ہے ہر شام غریباں ہے
اک شور سا رہتا ہے گھر والوں کے ماتم سے

٭
کس طرح گزارے دن کس طرح کٹی راتیں
مل جائو تو سن لینا سب روزِ جزا ہم سے

٭

ناکامی دگر کیا تھی کس کس کو بتائیں ہم
شرماتے ہیں یاں دریا اک دیدۂ پُر نم سے

 

مرجھائے چہروں پر شگفتگی اور ہنسی کے پھول کھلانے والا یہ فن کار اندر سے کتنا غم زدہ ہے‘ اس کابہت کچھ اندازہ اس کے لکھے ’’دورِ جنوں‘‘ ’’نہ قفس نہ آشیانہ‘‘ اور ’’یہ کہاں کی دستی ہے‘‘ جیسے طویل دورانیے کے سنجیدہ ڈراموں سے ہوتا ہے جن پر رنج و الم کی ایسی پرچھائیاں ہیں کہ زندگی کی تلخ اور اداس کر دینے والی حقیقتیں آدمی کو غم زدہ کر دیتی ہیں۔ فن کار دکھی نہ ہو تو دوروں کو اپنا دکھ بھلا کیسے منتقل کر سکتا ہے۔

انور مقصود میں ایک منفرد کمپیئر بھی ہے‘ جس نے کمپیئرنگ کے فن میں اپنی انفرادیت کی راہ ایسی نکالی ہے کہ معلوم ہوا کہ کمپیئرنگ یوں بھی کی جاسکتی ہے۔ اتنی دل چسپ کہ مقررین کی تقریریں کمپیئر کے پُر لطف فقروں کے آگے ماند پڑ جائیں۔ ایک تقریب کے آغاز پر کسی قدر جانی پہچانی خاتون نعت خواں کو دعوت دیتے ہوئے حالیؔ مرحوم کا مشہور مصرع پڑھا:

اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے

خاتون نعت خواں کا نام لے کر انہیں نعت خوانی کے لیے مدعو کیا اور پھر یہ مصرع پڑھ کر روسٹرم سے ہٹ گئے کہ:

اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

سوچ سکتے ہیں آپ کہ حاضرین ِ محفل کے قہقہوں میں خاتون پر کیا گزری ہوگی۔ انور مقصود ایک ورسٹائل فن کار ہیں۔ ورسٹائل تو اور بھی بہت سے فن کار ہوں گے مگر مقبولیت‘ ہر دل عزیزی‘ مداحوں اور چاہنے والوں کا وسیع حلقہ‘ عوام میں سرکار دربار میں ہر جگہ پزیرائی ہر ایک کا مقدر نہیں ہوتا۔ یہ اوپر والے کی عطا ہے۔ وہ اپنے کسی خاص بندے ہی کو کیوں نوازتا ہے یہ وہی جانتا ہے‘ شاید وجہ یہ ہو کہ پچھلے پچیس تیس برسوذں میں میرے تجربے و مشاہدے میں جو انور مقصود آئے ہیں‘ میں نے انہیں سوز و گداز سے معمور قلب رکھنے والا ایک نہایت عمدہ انسان پایا ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا۔ خدا کے بندوں سے پیار کے بغیر تحریر میں درد پیدا ہوتا ہے یہ طنز میں ظرافت و مزاح کے عقب میں بھی اَلم کے سائے لرزتے ہیں۔

فن کار کا فن جو زندگی سے آمیز ہو کر فن پارہ بنتا ہے تو اس میں تجربات و مشاہدات کے ساتھ مطالعے کا بھی گہرا دخل ہوتا ہے۔ ڈیفنس میں آپ انور مقصود کے بنگلے پر جائیں تو مجسموں اور تصویروں کے علاوہ نیچے سے اوپری منزل تک ہر طرف کتابیں ہی کتابیں نظر آئیں گی۔ ادب‘ شاعری‘ افسانہ‘ ناول‘ مصوری اور فنون لطیفہ کے سارے موضوعات پر اردو‘ انگریزی‘ فارسی زبانوں کے ادبی شاہ کار کتابیں ہی کتابیں۔

ہاں مگر ایک کمی ہے انور مقصود میں‘ ڈھیروں ان کتابوں میں انور مقصود کی لکھی اپنی کوئی کتاب نہیں۔ اب وہ ایک سفر نامہ لکھ رہے ہیں‘ ان مقامات کا سفر نامہ جہاں کا انہوں نے سفر نہیں کیا۔ اگر وہ اسے لکھ سکے تو یہ ایک نیا سفر نامہ ہوگا‘ الگ ہی ذائقے کا۔

انور مقصود نے بتایا ان کی زندگی میں جس نے ان کا بھی بوجھ اٹھایا ہے اور ان کے دو بچوں بلال اور ارجمند کا‘ وہ ان کی سلیقہ شعار‘ محنتی اور لیکھکھ بیگم عمرانہ ہیں جو خود بھی بچوں کے ادب کی آٹھ دس کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ (حال ہی میں عمرانہ نے اپنے میاں کی بابت ایک کتاب مرتب کی ہے ’’الجھے سلجھے انور مقصود۔‘‘ کتاب میں انور مقصود کے بارے میں ان کے تجربات‘ مشاہدات و تاثرات کے ساتھ انور کی دل چسپ تحریروں کا انتخاب بھی شامل ہے۔) میں نے کہا تو یو کہیے کہ آپ بھی ان ہی کامیاب لوگوں میں ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے۔

برجستہ بولے ’’ضروری تو نہیں کہ وہ عورت بیوی ہی ہو۔‘‘ اور پھر ہنسنے لگے۔ اپنے فقروں میں پہلے ہنس پڑنا‘ یہ بھی ان کی عادت ہے۔

ان کے مزے دار طنزیہ فقرے ’’مرزا غالب بندر روڈ پر‘‘ اور ’’لال قلعہ سے لالو کھیت تک‘‘ والے خواجہ معین الدین کی یاد دلاتے ہیں اور کیوں یاد نہ دلائیں‘ انور مقصود اسکول کے زمانے میں خواجہ صاحب کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ قدر مشترک یہ بھی ہے کہ استاد و شاگرد دونوں کا مرزبوم حیدرآباد دکن ہے۔

75 سالہ انور مقصود اپنے استاد خواجہ معین الدین ہی کی طرح اپنے خاکوں اور ڈراموں میں یہاں تک کہ کمپیئرنگ میں بھی اقتدار کے طاقت ور نمائندوں کا جرأت مندی سے مضحکہ اڑاتے ہیں۔ آرٹس کونسل میں ان کے دو اسٹیج ڈرامے ’’پونے چودہ اگست‘‘ اور ’’سوا چودہ اگست‘‘ جنہوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنائے‘ ان ڈراموں میں انہوں نے کسی کو بھی تو نہیں بخشا‘ انانیت پسندی سیاسی لیڈر‘ بیمار ذہنیت والے فرعون رہنما‘ فوجی جنتا اور وہ جنہوں نے ملک بنایا اور وہ بھی جنہوںنے ہوس اقتدار میں ملک کو توڑا۔ پوری ملکی تاریخ اور قومی سانحوں کی درد ناک داستان ان دونوں ڈراموں میں بیان کر دی گئی۔ ایسی داستان کہ جسے سنتے ہوئے ہنسی تو آتی ہی ہے‘ آنسو بھی پلکوں سے چھلک پڑتے ہیں۔ ایک ایسا فن کار جو لگی لپٹی رکھے بغیر حکمرانوں‘ سیاست دانوں‘ ’’عزیز ہم وطنو‘‘ سے مخاطب ہونے والے طالع آزما جنرلوں اور افسر شاہی کی کلف زدہ گردنوں میں بڑی بے تکلفی سے ہاتھ ڈال دیتا ہو‘ بھلا اس کی جگہ عوام کے دلوں میں نہ ہوگی؟ چنانچہ عوام میں انور مقصود مقبول تو ہوئے مگر مدت دراز تک پی ٹی وی اور سرکار دربار نے انہیں غالباً بطور سزا ہر قسم کے انعام و اکرام کے داغ دھبے سے محفوظ رکھا۔ لیکن تابکے؟ پیپلزپارٹی جس کی خبر انہوں نے اپنی تحریروں میںکچھ کم نہ لی تھی‘ اپنے دو ادوارِ حکومت میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس اور ہلال امتیاز سے نواز کر خود کو کسی قدر معتبر کیا۔

انور مقصود کے والد قمر مقصود کے گھر دس بچے تولد ہوئے۔ چھ لڑکیاں‘ چار لڑکے۔ ان بچوںنے آگے چل کر اپنے اپنے شعبوں میں جو کمالات دکھائے بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔ تفصیل یہ ہے:

فاطمہ ثریا بجیا‘ ٹیلی ویژن کی مقبول ڈراما نگار اور سوشل ورکر‘ سارہ نقوی بی بی سی کی براڈ کاسٹر‘ زہرہ نگاہ مشہور شاعرہ‘ احمد مقصود حمیدی انتہائی وسیع المطالعہ بیورو کریٹ‘ زبیدہ طارق جو گھریلو ٹوٹکوںکے حوالے سے ملک گیر شہرت رکھتی ہیں‘ صغریٰ کاظمی شادی بیاہ کے ملبوسات کی تیاری کے حوالے سے معروف ہیں۔

انور مقصود ان میں ساتویں نمبر پر ہیں۔ اسما سراج اور دو بھائیوں عمر مقصود اور عامر مقصود غالباً نیک نفسی کے سبب شہرت طلبی سے دور رہے۔ سب بھائی بہنوں میں مثالی تعلقات پیار و محبت کے ہیں۔ انور مقصود کہتے ہیں کہ والدین نے اولاد ہی چھوڑی‘ بینک بیلنس اور جائداد چھوڑ جاتے تو صورت پھر لڑائی جھگڑے اور تنازع کی نکلتی۔ اب آپس میں پیار و محبت کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔

انور مقصود کے والد اصلاً بدایوں کے رہنے والے تھے جب کہ والدہ حیدرآباد دکن کی۔ یہ گھرانا اہلِ علم کا تھا۔ والد اور والدہ کے نکاح نامے پر مولانا مودودیؒ اور بابائے اردو مولوی عبدالحقؒ نے بطور گواہ دستخط کیے تھے۔

طاہر مسعود: برسوں پہلے میں نے بچوں کے رسالے آنکھ مچولی کی طرف سے آپ کو ایک سوال نامہ بھیجا تھا جس میں آپ سے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی زندگی میں پہلی تحریر کون سی لکھی۔ آپ نے جوابدیا تھا ’’والد صاحب کی طرف سے اسکول کے پرنسپل کے نام خط کہ آج انور میاں اسکول نہیں آئیںگے‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا طنز و مزاح کی بنیاد اکثر جھوٹ اور مبالغے پر نہیں ہوتی؟

انور مقصود: جس ملک میں ہم رہتے ہیں وہاں جھوٹ آخر میںسچ نکلتا ہے‘ میں مزاحیہ ڈرامے لکھوں یا سنجیدہ‘ میری معلومات کا ذریعہ اخبارات ہوتے ہیں۔ اخبارات پڑھتے اور اس ملک کے حالات سدھرنے کا انتظار کرتے اڑسٹھ برس تو ہوگئے۔ انتظار کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ بقول میرؔ

باغ کیا ہے جائے وحشت گاہ ہے
اب یہاںسے گُل کا موسم ہو چکا

میں ان لوگوں کے لیے لکھتا ہوں جو سنیما گھر کا ٹکٹ نہیں خرید سکتے۔ اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے ان کے پاس کہ بیوی بچوں کو لے کر کہیں سیر و تفریح کے لیے نکل سکیں۔ وہ ٹی وی پر میرے ڈرامے‘ میرے پروگرام دیکھتے ہیں۔ ان سے انہیں خوشی ملتی ہے۔ ایسے ہی لوگوں سے میرا کمٹ منٹ ہے کہ میں ان کے لیے لکھتا رہوں گا۔ جب کسی چوراہے پر میری گاڑی روک کر کوئی پھول بیچنے والا مجھ سے کہتا ہے ’’اوئے انور! تیرا پلے بہت اچھا تھا۔‘‘

تو میں سمجھتا ہوں کہ میں نے واقعی لکھا ہے اور مجھے لکھتے ہی رہنا چاہیے۔

طاہر مسعود: آپ کے لکھے کو عوام تو مانتے ہیں‘ سرکار کب مانتی ہے؟

انور مقصود: جن لوگوں کو آخر کار جانا ہوتا ہے وہ کسی کی بات نہیں مانتے۔جن کو رہنا ہے‘ وہ میری باتوں پر سوچتے ہیں اور سوچنے کے بعد مان لیتے ہیں۔

طاہر مسعود: کوئی قلق‘ کوئی افسوس اس بات کا کہ سرکاری سطح پر آپ کی خدمات کا اعتراف دیر تک نہیں کیا گیا۔

انور مقصود: میں نے پی ٹی وی کے لیے 55 سال تک لکھا۔ کبھی ایوارڈ کے لیے نامزد نہیں کیا گیا۔ ’’اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا۔‘‘

ایک دن ایم ڈی پی ٹی وی نے کہا کہ اب کے تمہیں ایوارڈ دیا جا رہا ہے‘ تقریب میں ایوارڈ لینے کے لیے ضرور آنا۔ میں نے روسٹرم پر آکر کہا کہ ’’دوسرا پلے میرے کھیل سے زیادہ اچھا تھا‘ ایوارڈ اسے دیا جانا چاہیے تھا۔‘‘

طاہر مسعود: کون سا دوسرا پلے؟

انور مقصود: (مسکرا کر) وہی دوسرا پلے جسے اب تک ایوارڈ جاتا رہا تھا۔

طاہر مسعود: تصویریں کیوں بناتے ہیں؟

انور مقصود: گھر کا خرچ ان ہی سے چلتا ہے۔ صدر ضیا الحق نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا تھا ’’انور صاحب! آپ مصوری بھی تو کرتے ہیں۔ حکومت آپ کی تصویریں خریدنا چاہتی ہے‘ ہم ان تصویروںکو ایوانِ صدر میں آویزاں کریں گے۔‘‘

میں نے جواب دیا ’’جناب! میں غریب لڑکیوں کی تصویریں بناتا ہوں۔‘‘

فرمانے لگے ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے‘ آپ تو قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔‘‘

میں نے کہا ’’مگر جناب وہ لڑکیاں اتنی غریب ہیں کہ ان کے پاس پہننے کو کپڑے تک نہیں ہیں۔ کیا آپ ان کی تصویریں ایوانِ صدر میں لٹکا سکیں گے؟‘‘ یہ سن کر چپ ہو گئے۔ آٹھ سال پہلے میرا اوپن ہارٹ سرجری ہوا تھا۔ اس کے اخراجات کے لیے میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ میں نے اپنے دوست خاور کاظمی سے کہا کہ ڈیڑھ لاکھ روپوں کا بندوبست کہیںسے کرو۔ آپریشن کے دوران سرجن کی غلطی سے ایک شریان کٹ گئی۔ خون ہی خون تھا ہر طرف۔ میں کوئی دس گھنٹے تک تھیٹر میں بے ہوش پڑا رہا۔ اسی اثنا میں امتیاز نامی ایک صاحبِ ثروت نے میرے گھر والوں سے رابطہ کیا اور میری بنائی ہوئی چار تصویریں چھ لاکھ روپے میں خرید لیں۔ بعد میں مجھے میرے معالج ڈاکٹر سمیع نے فون پر بتایا کہ جب آپ بے ہوش تھے تو امتیاز نام کے ایک صاحب کا بار بار فون آرہا تھا‘ وہ آپ کی طبیعت کا پوچھتے تھے اور پھر فون رکھ دیتے تھے۔جب میں ذرا اچھا ہوا تو ان کی دی ہوئی رقم لے کر ان کے پاس گیا پوچھا میری تصویریں کہاں ہیں؟ انہوں نے تصویریں لا کر رکھ دیں۔ تمہیں سن کر حیرت ہوگی کہوہ تصویریں اسی طرح بندھی رکھی تھیں‘ انہوں نے کھولنے کی زحمت تک نہیں کی تھی۔ میں نے ان کے چھ لاکھ روپے لوٹائے اور اپنی تصویریں اٹھا لایا۔ اصل میں میری تصویروں پر انہوں نے چھ لاکھ روپے Invest کیے تھے اور پھر انہیں میری موت کا انتظار تھا۔ ظاہر ہے اگر میں مر جاتا تو یہ تصویریں پندرہ بیس لاکھ میں تو بک ہی جاتیں۔افسوس میں مر کر نہ دیا۔سو میں نے انہیں گھاٹے کا سودا کرنے کے پچھتاوے سے آزاد کر دیا۔

طاہر مسعود: کیا یہ سچ ہے کہ ہر مزاح کے پیچھے غم کا سایہ ہوتا ہے؟

انور مقصود: ہوتا تو ہے مگر ضروری نہیں کہ غم اپنا ہی ہو۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کے کسی گھر کی کھڑکی بھی کھول کر آپ اندر جھانکیں تو جو کچھ نظر آئے گا‘ اسے دیکھ کر طبیعت خراب ہو جائے گی۔ بہت سے لوگ اپنے دکھ چھپا لیتے ہیں‘ اپنے دل کی کھڑکی بند کرکے چٹخنی لگا لیتے ہیں۔ یومام لی شاعرہ سیفو کی ایک نظم کی لائن

Pain Penetrates Drop by drop

طاہر مسعود: کیا قہقہے سے‘ ہنس پڑنے غم غلط ہو جاتا ہے؟

انور مقصود: نہیں۔ قہقہے سے غم اور بڑھ جاتا ہے۔

دن رات میری آنکھوں سے آنسو چلے گئے
برسات اب کے شہر میں سارے برس رہی ہے

طاہر مسعود: کہتے ہیں طنز کسی مقصد سے وابستہ ہوتا ہے‘ جب کہ مزاح اپنا مقصد آپ ہوتا ہے؟

انور مقصود: طنز کرنا بہت آسان ہے‘ مزاح لکھنے میں ایک آگ کے دریار کو پار کرنا پڑتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ قلم لکھتے لکھتے جب رک جائے تو لکھنا چھوڑ دینا چاہیے کیوں کہ اس کے آگے بے ہودگی شروع ہو جاتی ہے۔

طاہر مسعود: مشتاق احمد یوسفی کی طرح آپ کے طنز و مزاح میں بھی خصوصاً اسٹیج کے کھیلوں میں جنسی مذاق کچھ زیادہ نہیں ہوتا؟

انور مقصود: میرے اسٹیج ڈراموں کے ڈائریکٹر اکثر نوجوان ہوتے ہیں‘ جو ڈرامے کی مقبولیت کے لیے اپنی طرف سے ایسے جملوں کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ میں ذومعنی جملے نہیں لکھتا‘ لکھوں گا تو صاف صاف لکھوں گا۔ ڈائریکٹر تالیاں بجوانے کے لیے اپنی طرف سے اسکرپٹ میں کچھ بڑھا دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو مجھے اسٹیج پر آکر معافی مانگنی پڑتی ہے۔

طاہر مسعود: ٹیلی ویژن کے مقابلے میں اسٹیج کے لیے لکھنے کا تجربہ کیسا رہا؟

انور مقصود: ٹیلی ویژن کے ناظرین میں ہر طبقۂ فکر کے لوگ ہوتے ہیں۔ پڑھے لکھے بھی‘ ان پڑھ بھی۔ اس لیے ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہوئے بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اسٹیج میں یہ صورت نہیں ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں کسی کو پریشان نہیں دیکھ سکتا‘ جب کسی کو پریشانی میں مبتلا دیکھتا ہوں تو لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔

طاہر مسعود: کیا لکھ لینے سے سکون مل جاتا ہے؟

انور مقصود: جی نہیں‘ لکھنے کے بعد میری پریشانی اور بڑھ جاتی ہے۔

طاہر مسعود: تو پھر لکھنے کا حاصل؟ غالب نے بھی تو یہی کہا تھا کہ

کھلا کہ فائدہ عرضِ ہنر میں خاک نہیں

انور مقصود: ایک انٹرویو میں کسی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ آپ پچاس سال سے پاکستان کے لیے لکھ رہے ہیں‘ کیا لکھنے لکھانے سے پاکستان ٹھیک ہو سکتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ پاکستان کے لیے 68 برس سے دعائیں مانگی جا رہی ہیں اب تک تو یہ ملک ٹھیک ہوا نہیں‘ اب ہمیں چاہیے کہ بد دعا مانگ کر دیکھیں‘ شاید یہ ملک ٹھیک ہو جائے۔

طاہر مسعود: کیا ٹھیک ہونے کی کوئی امید ہے؟

انور مقصود: یہ کسی خاتون سے پوچھیے کہ امید سے خواتین ہوتی ہیں‘ ویسے میری رائے میں

یہ چمن یوں ہی رہے گا اور سارے جانور
اپنی اپنی بولیاں بول کر اُڑ جائیں گے

اس وقت ہماری آدھی فوج وزیرستان میں اور آدھی سرحدوں پر ہے۔ اس لیے امکان ہے کہ آئندہ بحری فوج یعنی نیوی اقتدار میں آجائے گی۔ ماضی میں دو بدمعاشوںمیں لڑائی ہوتی تھی تو فیصلہ جلد ہو جاتا تھا۔ آج پنجاب میں دو شریف لڑ رہے ہیں‘ جو زیادہ شریف ہوگا‘ وہی جیتے گا۔

طاہر مسعود: ’’سوا چودہ اگست‘‘ والے ڈرامے میں آپ نے قائداعظم کے کردار سے کہلوایا ہے کہ میں زندگی میں صرف دو بار رویا ہوں ایک پاکستان ٹوٹنے پر دوسرے بھٹو کی پھانسی کے موقع پر۔ آپ بھول گئے کہ سانحۂ مشرقی پاکستان کی ذمہ داری بھٹو پر بھی عائد کی جاتی ہے۔

انور مقصود: یہ بات ٹھیک ہے‘ بھٹو بھی اس سانحے کے ذمہ دار تھے‘ لیکن میرا فقرہ طنزیہ تھا‘ ان کی تعریف نہیں تھی۔ اس ڈرامے میں ایک بنگالی کہتا ہے کہ ’’ہمیں حکومت کرنے تم لوگوں نے کیوں نہیں دیا‘ ہم حکومت کرتا تو پانچ سال بھی پورا نہیں ہوتا اور فوج آجاتا ہے۔‘‘ مشرقی پاکستان کا سانحہ بہت بڑا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ملک میں اس کا دکھ نہیں پایا جاتا۔ وہاں کے بنگالی مصور مرتضیٰ بشیر‘ امین الاسلام‘ کبریا۔ ان سب کے چھوٹ جانے کا مجھے آج بھی دکھ ہے۔

طاہر مسعود: آج کل کیا لکھ رہے ہیں؟

انور مقصود: ’’سیاچن‘‘ کے عنوان سے ایک ڈراما ستمبر میں آ رہا ہے۔ فوج کا محکمہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) اس ڈرامے میں پارٹنر ہے۔ اسکرپٹ دکھانے سے اب تک چھ سات مرتبہ جی ایچ کیو جا چکا ہوں۔ میرے لکھے جملوں پر وہ اعتراضات کرتے ہیں‘ میں ان جملوں کا دفاع کرتا ہوں‘ مگر پھر بھی مجبوراً کاٹنا پڑتا ہے۔ میں ’’سیاچن‘‘ پاک افواج کے سپاہیوں کے لیے لکھ رہا ہوں۔

(’’سیاچن‘‘ نے انور مقصود کے دیگر اسٹیج ڈراموں کی طرح مقبولیت حاصل کی‘ جس میں بجا طور پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ جنرلوں کے لیے تو پلاٹ اور سینکڑوں مراعات ہیں‘ دنیا کے بلند ترین محاذ پر ملک کا دفاع کرنے والے عام سپاہیوں کو صلے میں کیا ملتا ہے؟ (طاہر مسعود)

(جاری ہے)

حصہ