حقوقِ نسواں کے محافظ کیا کر رہے ہیں ؟

382

ہر سال 8 مارچ کو ’’خواتین کا عالمی‘‘ دن منایا جاتا ہے۔ ترقی پسند خواتین، این جی اوز اور دیگر اداروں کی طرف سے رنگا رنگ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، پُرجوش تقاریر ہوتی ہیں، اخبارات اور رسائل میں خواتین کے حقوق اور ان پر ہونے والے مظالم کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور اس کی تلافی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اور انہیں ایسا کرنا بھی چاہیے، بلکہ اہلِ قلم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ معاشرے میں ہونے والی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائیں۔ خواتین کے حقوق کی پامالی کے خلاف آوازِ احتجاج بلند قابلِ قدر اقدام ہے۔
مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تمام ملکوں اور معاشروں میں خواتین کے حقوق کا پیمانہ ایک ہی ہے یا ہر جگہ اس کی الگ شکل ہے؟ مثلاً ہندوؤں کا عورت کو اُس کے شوہر کے انتقال پر اس کے ساتھ ’’ستی‘‘ کے نام پر زندہ جلا دینا، یا نیل کی وادی کے کنارے بسنے والے قدیم مصریوں کا دوشیزاؤں کو دلہن بناکر نیل کی موجوں کے حوالے کردینا… اس ظلم و زیادتی کو رسومات کا نام دیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ذی عقل یہ تسلیم کرے گا کہ خواتین کے حقوق کی بحالی کے لیے ایک ایسا متفقہ قانون ہونا چاہیے جو انہیں معاشرے کی زیادتیوں اور ظلم سے نجات دلائے۔

اگر دنیا کے تمام منصف مزاج مفکرین اور دانشور غیر جانب دار ہوکر غور و فکر کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ حقوقِ نسواں کا سب سے بہتر حل اسلامی شریعت میں موجود ہے۔

بحیثیت مسلمان ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اسلام کی عالمگیریت ہی اس کا حل ہے۔ اسلام نے حقوقِ نسواں کا ایسا جامع منشور پیش کیا ہے جو کسی ادارے یا معاشرے نے پیش نہیں کیا۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں بلند مقام عطا کیا ہے اور عورت کو جو حقوق دیے ہیں کسی اور مذہب اور معاشرے میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسلام ایسا مذہب ہے جو خواتین کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیا اسلام کے ماننے والے بھی ایسا کرتے ہیں؟

حصہ