مولانا ماہر القادری

586

مولانا ماہر القادری کو عام طور پر ایک نعت گو اور غزل گو شاعaر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے، لیکن دیکھا جائے تو مولانا ماہر القادری جیسے نابغہ ادب کی نثری کاوشیں بھی خوب ہیں، وہ ایک بڑے ادیب و شاعر،دانشور،محقق،نقاد، کے ساتھ ساتھ کمال کے ایڈیٹر بھی تھے، ان کی ادارت میں شائع ہونے والے پرچے”فاران“ کی شہرت پورے برصغیر میں تھی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں”23 “سال کی مدت میں ہمارے قلم سے ڈھائی ہزار سے زائد کتابوں پر ”فاران“ میں تبصرہ ہوا، کسی مصنف، مترجم، مولف، شاعر و ادیب کے ساتھ ہم نے زیادتی نہیں کی۔” وہ ہر کتاب کو پوری توجہ سے پڑھتے اور دیانت داری سے اس پر رائے دیتے۔ شعراء ، اہل قلم، مصنفین ان کی تنقید کو اپنے لیے اعزاز و افتخار سمجھتے اور ان کی رائے کا انتظار کرتے۔ مولانا کی تبصرہ نگاری ، دیدہ ریزی، جانفشانی، دیانت داری اور ہمہ گیری کی ایک مثال ہی کافی ہے۔مولانا نے 1972 ء میں جوش ملیح آبادی کی سوانح عمری”یادوں کی برات“ پر”فاران“ میں اٹھائیس صفحات پر تبصرہ شائع کیا ، جس کی پورے برصغیر میں دھوم مچ گئی۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اسے اپنے رسالے میں قسط وار شائع کیا۔ اس تبصرہ میں وہ تحریر کرتے ہیں” جوش صاحب جنسی معاملات، ہوس ناک واردات اور تجربوں کے اظہار میں شرم و غیرت کو بزدلی اور نامردی سمجھتے ہیں۔ اس لیے”یادوں کی برات“ اپنی جگہ عریانی و برہنگی کا کوک شاشتر بن گئی ہے۔ کوک کا پنڈت زندہ ہوتا تو اس برہنگی کی واقعی داد جوش صاحب کو دیتا۔ وصل و ہم آغوشی کے ذکر و بیاں میں جنسی جذبات کے لیے بڑی لذت اور کشش ہوتی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس لذت اور کشش کی اس کتاب میں فراوانی ہے۔ اخلاق باختگی، ان کی نگاہ میں انسانیت کا بہت بڑا شرف ہے۔ طوائفیں اپنا کاروبار چمکانے کے لیے اپنی کم سن لڑکیوں کو جلد از جلد بالغ اور جنسی معاملات میں بے تکلف دیکھنا چاہتی ہیں، ”یادوں کی برات“ کے فحش و برہنہ مقامات ان نوچیوں کے کام کی چیز ہیں۔ جوش کو سب سے زیادہ دشمنی حیا اور غیرت سے ہے“۔

مولانا ماہرالقادری کا ایک بڑا وصف یہ بھی ہے کہ انھوں نے 28 سال تک (اپریل 49 سے مئی 1978 ءکے درمیانی عرصے میں) اپنے ماہنامے فاران میں یاد رفتگان کے تحت بے مثال کے خاکے لکھے ۔ مولانا نے رفتگان میں متوفی کی زندگی کے وہ واقعات لکھتے جو ان کے علم میں ہوتے، مولانا اس راز سے واقف تھے کہ ہر انسان کی کہانی دلچسپ ہوسکتی ہے۔ وہ کردار نگاری میں مہارت رکھتے تھے۔ اس لئے ان کے تعزیتی مضمون بے جان نہیں بلکہ دلچسپ اور خاصے کی چیز ہیں۔ اس باب میں مولانا عبدالماجد دریاآبادی اور آغا شورش کاشمیری، زیڈ اے بخاری، علامہ طالب جوہری،ذکی کیفی، حاتم علوی سمیت سینکڑوں شخصیات پر مضامین لکھے۔ وہ بہت عمدہ خاکہ نگاری کرتے، ایسی کے تصویر سامنے آجائے۔زیڈ اے بخاری کے سراپے کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔

مسٹر ذولفقار بخاری کو پہلے پہل یوم اقبال کی تقریب میں دیکھا۔ سرخ سپید رنگت، کشیدہ قامت، سلک کا پاجامہ اور سلک کا کرتا، جس کے حاشیوں پر سفید بیل ٹکی ہوئی، کرتے پر کشید کی ہوئی صدری جس میں ریشمیں خوبصورت تکمے جھلملاتے تھے۔سلیم شاہی کامدار جوتیاں جن میں سفید نگ ٹکے تھے۔ اس حلیہ اور وضع قطع کے آدمی کو پوری محفل میں توجہ کا مرکز بننا ہی چاہئے۔

مولانا ماہر القادری نے بہت پہلے 1941ء میں اس بات کا ادراک کرلیا تھا کہ کمیونسٹ شاعروں اور ادیبوں کا نقطہ نگاہ اور مقصد مزدور کی ہمدردی کے پردے میں کمیونزم اور لادینیت کی تبلیغ اور اشتراکی انقلاب کے لیے زمین ہموار کرنا ہے اور اس ادب کا نام انہوں نے ” ترقی پسند ادب“ رکھا۔ اس زمانے میں مولانا ماہر القادری کی نظم مزدور بہت مشہور تھی۔

اب کسی کے سامنے مزدور جھک سکتا نہیں
آنے والا انقلاب آئے گا، رک سکتا نہیں

شاید اسی وجہ سے سجاد ظہیر نے انھیں چائے پر بلایا۔لیکن مولانا تو لادینی اور اشتراکی رجحانات کے سخت خلاف تھے۔ انھوں نے اسی دور میں تن تنہا ہر اسٹیج پر اس کی مخالفت شروع کردی۔ 1945 ءمیں انھوں نے بمبئی میں” حلقہ فکرو نظر“ قائم کیا جس کے افتتاحی اجلاس میں ”ادب اور ترقی پسندی“ کے موضوع پر پونے دو گھنٹے کی تقریر کی۔ اس اجلاس کی صدارت راجہ صاحب محمود آباد نے کی تھی۔ سجاد ظہیر اور ترقی پسند مولانا ماہر القادری سے شدید خائف تھے۔ سجاد ظہیر نے ترقی پسند مصنفین کے مینی فیسٹو میں لکھا کہ ایک راجہ( راجہ صاحب محمود آباد، ایک شاعر ماہر القادری، اور ایک حکیم یعنی حکیم حیدربیگ ہمارے مخالف ہیں۔ ایک تقریب میں رضیہ( بیگم سجاد ظہیر) نے اعلانیہ ماہر صاحب سے کہا ” ماہر صاحب آپ تو ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کے پیچھے لٹھ لیے پھرتے ہیں“۔

ایک اور واقعہ کے بارے میں ماہر صاحب لکھتے ہیں کہ” 1946 ءکے وسط میں حضرت جگر مرادآبادی اور میں حکیم حیدر بیگ کے یہاں مہمان تھے، سجاد ظہیر نے جگر مراد آبادی کو اپنے یہاں شعری نشست پر بلایا۔ جگر نے ماہر القادری سے کہا، ماہر تمھیں ان لوگوں نے مدعو نہیں کیا۔ کمیونسٹ تو میں بھی نہیں ہوں۔ مولانا ماہر القادری نے فرمایا، بے شک آپ کمیونسٹ نہیں ہیں۔مگر کمیونزم کی تردید میں کچھ نہیں فرماتے، اس لیے کمیونسٹ آپ کو گوارا کرلیتے ہیں۔ میں نام نہاد ترقی پسند ادب کی مخالفت کرتا ہوں،کیونکہ یہ ادب لادینیت کا آئینہ دار ہے۔

مولانا ماہر القادری کو جمعیت الفلاح سے خصوصی شغف تھا، جمعیت الفلاح کے ڈاکٹر امیر حسن صدیقی سے ان کی دوستی تھی، مولانا ماہر القادری ، کہتے ہیں کہ ”جمعیت الفلاح میں کوئی ادبی جلسہ یا قومی تقریب ہوتی تو راقم الحروف کو خاص طور پر یاد فرماتے، کئی بار جمعیت الفلاح کے نعتیہ مشاعرے کی صدارت کے لیے راقم الحروف کو نامزد کیا“۔ ڈاکٹر امیرحسن صدیقی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، ماہر القادری رقم طراز ہیں”جمعیت الفلاح کی شاندار عمارت، اس ادارے کا استحکام اور ترقی ڈاکٹر صاحب کی ان تھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جمعیت الفلاح کے انگریزی آرگن ”وائس آف اسلام“ میں کئی ہزار روپے ماہوار کے اشتہارانہی کے اثر رسوخ سے ملتے تھے۔ جمعیت الفلاح کی خدمات انہوں نے کسی معاوضہ یا الائونس کے بغیر انجام دیں۔ اس معاملے میں وہ بڑے محتاط اور ایثار پسند تھے۔”مولانا ماہر القادری کو جمعیت الفلاح سے خاص نسبت تھی، مولوی تمیز الدین خان کے بارے میں اپنے مضون میں لکھتے ہیں کہ ، مولوی تمیز الدین خان مرحوم جمعیت الفلاح کے سرپرست صدر اور بانی تھے۔ جمعیت کی پارٹیوں اور جلسوں میں مولوی صاحب مرحوم سے ملاقات ہوتی، میں نے ان کی موجودگی میں کئی بار نظمیں سنائی، جمعیت الفلاح کی طرف سے ایک میں پروگرام میں دعوت کا اہتمام ہوا۔ کھانے کے بعد مولوی تمیز الدین خان نے اردو میں تقریر فرمائی، بولے جمعیت الفلاح کے کسی جلسہ میں اتنا مجمع نہیں ہوا، جتنا آج کی دعوت میں ہوا ہے۔ بھائیو! لوگوں کی طبیعت کا یہی رنگ ہے،تو اب جمعیت کے جلسہ کے ساتھ کھانا بھی رہے گا، الحمد للہ یہ روایت آج بھی قیصر خان اور قمر محمد خان اسی طرح نبھا رہے ہیں۔

مولانا ماہر القادری جماعت اسلامی اور سید مولانا مودودیؒ سے خاص لگاؤ رکھتے تھے، مولانا کے بارے میں وہ شورش کاشمیری سے بھی مکالمہ جاری رکھتے اور ان کی غلط روش پر انھیں تنبیہ کرتے، مولانا مودودیؒ کو جماعت اسلامی کی دینی جدوجہد اور رفاہی کاموں کے لیے کراچی کے شہریوں کی طرف سے فریر ہال کے لان میں ایک بڑا استقبالیہ دیا گیا اور کثیر زر پیش کیا گیا، تو ماہر القادری نے بھی بڑے بڑے لوگوں سے رابطہ کیا، کراچی کے سابق مئیر حاتم علوی سے بھی انھوں نے پانچ سو روپے کا عطیہ حاصل کیا۔

ماہرالقادری نے بمبئی کی فلمی زندگی میں بھی وقت گزرا، خود کہتے تھے کہ ”میری طلب اور کوشش کے بغیر فلم کمپنیوں میں مجھے گانے لکھنے کا کام مل گیا“ پاکستان میں بھی لاہور میں ان کا فلم والوں سے ملنا جلنا تھا۔ ایک بارمشہور فلمی پروڈیوسر آغا گل نے اپنے اسٹوڈیو میں نخشب، ذکی کیفی، اور ماہر القادری کو چائے پر بلایا، مغرب کے بعد کسی فلم کی شوٹنگ بھی تھی، تینوں بیٹھے شوٹنگ دیکھ رہے تھے ، اتنے میں حمید نظامی اور شورش کاشمیری بھی وہاں آگئے۔ شورش نے مولانا ماہر القادری کو دیکھتے ہی فرمایا”ماہر صاحب آپ کا یہی صحیح مقام ہے“۔” جمنا کا کنارا “ جیسی رنگین نظمیں کہنے والا جماعت میں کہا جا پھنساذکی کیفی کے کہنے پر مولانا ماہر نے در گزر سے کام لیا۔ اگلے دن شورش کاشمیری ادارہ اسلامیات میں تشریف لائے۔ ماہر القادری بھی موجود تھے۔ شورش نے ہنس ہنس کا رات کا واقعہ سنایا اور کہا کہ میں اس واقعہ پر ایک نظم کہوں گا۔ مولانا نے ترکی بہ ترکی حساب بے باق کرتے ہوئے، فرمایا میں نے نظم شروع بھی کردی ہے۔

لطف لینے کا جہاں جذبہ بھی تھا کوشش بھی تھی
ہائے وہ محفل جہاں شورش بھی تھا شورش بھی تھی

حصہ