محمد حسن عسکری کل اور آج ،

324

شمس الرحمن فاروقی کی یادگار گفتگو

(آٹھویں)

اب ایک اور مثال۔ انہوں نے نثر والے مضمون میں لکھا ہے کہ ایک ناول ہے فلوبیئر کا۔ چھوٹا سا گم نام اور نامکمل ناول ہے :

et Pecuchet Buvard (بووار اور پیکوشے) اس کا ترجمہ ابھی حال میں شائع ہوا ہے۔ عسکری صاحب لکھتے ہیں کہ فلاں جگہ اس میں جو نثر ہے، بھائی اس طرح کی دولائنیں بھی نثر کی میں لکھ لوں تو میں اپنے کو نثر نگار مانوں گا۔ تو ظاہر ہے پہلی بار اس جملے کو پڑھیے تو غصہ آئے گا کہ فرانسیسی زبان کے ناول کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ ہمیں نہ تو فرانسیسی آتی ہے، نہ انگریزی میں اس ناول کا ترجمہ ہی ہم نے دیکھا ہے۔ اور اگر دیکھا بھی تو کیا، عسکری صاحب تو فرانسیسی زبان کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن عسکری صاحب بتارہے ہیں کہ آپ فلوبیئر کے نظریۂ فن سے واقف ہوں تو پتا لگے کہ اس جملے کا کیا مطلب ہے۔ مثلاً اس کو یہ دکھانا منظور ہے کہ سرد پا لے کی رات میں پودوں اور پتیوں پر کیا اثر پڑتا ہے، تو اس بات کو خود معلوم کرنے کے لیے وہ رات بھر کھلے میں بیٹھا رہتا ہے۔ جاکر اپنے باغ میں سردی کھاتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ رات کے بھیگنے کے ساتھ ساتھ پودوں پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ رنگ کتنا بدل رہے ہیں، کب اور کتنے پڑمردہ ہو رہے ہیں، کتنے وہ بھاری ہو رہے ہیں شبنم سے، تب وہ جاکر حسب حال الفاظ ڈھونڈ کر لاتا ہے۔ وہ آدمی یہ کہتا ہے کہ زبان میں مرادفات کا وجود ہی نہیں ہے۔ وہ صرف mot just یعنی بالکل درست لفظ، اور mot solitaire یعنی واحد لفظ، میں یقین رکھتا ہے۔ مثلاً ہم نے کا کہ ’’خوب ہے‘‘ اور ’’اچھا ہے‘‘ ہم معنی ہیں۔ فلوبیئر کہتا ہے کہ دونوں میں الگ الگ مفہوم ہیں۔ ’’اچھا‘‘ وہ نہیں ہے جو ’’خوب‘‘ ہے، جو ’’خوب‘‘ ہے وہ ’’اچھا‘‘ نہیں ہے۔ تو جو شخص کہ اپنی نثر میں اس حد تک احتیاط کرتا ہو اور جو کہ حقیقت نگاری کی اس منزل پر پہنچا ہوا ہو، لامحالہ وہ جس طرح کی نثر لکھے گا وہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔

تو اگر یہ باتیں نہیں معلوم ہیں تو عسکری صاحب کا جملہ ہمیں یقیناً ایک طرح کی ادعائیت معلوم ہوگا۔ ایک طرح کی مبالغہ آمیز بڑ معلوم ہوگا۔ لیکن جب اس کی گہرائی میں جائیے تو اس کے پیچھے ایک نظام کارفرما ملے گا۔

عسکری صاحب کے یہاں یہ ایک طرح کی کمی ہے۔ وہ بڑی گہری گہری باتیں یوں ہی کہہ جاتے ہیں۔ جو شخص اس نظام سے واقف نہیں ہے جس کے تحت یہ باتیں کہی گئی ہیں تو اس کے لیے پیچیدگی اور پریشانی کا موقع آجاتا ہے۔ لیکن عسکری صاحب کی تنقید کا ایک مقصد ہم لوگوں کی تعلیم اور تربیت بھی تھا۔ اگر ہمیں ادب سے دلچسپی ہے تو Buvard et Pecuchet کے بارے میں ان کا جملہ پڑھ کر سوچیں گے کہ یہ کیوں کہا گیا۔ اور اگر ہم تنقید کو تخلیق کا بدل سمجھ کر پڑھتے ہیں تو پھر اس طرح کے جملے ہمیں صرف دق کریں گے، کچھ بتائیں گے نہیں۔

سوال: میرے خیال میں اب یہ بات تو مان لی گئی ہے کہ وہی نقاد بڑا نقاد ہے جو کلاسیکی ادب پر گرفت مضبوط رکھتا ہے۔ محمد حسن عسکری نے کلاسیکی ادب پر تو لکھا ہی، لیکن وہ داستان تک بھی گئے۔ انہوں نے ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کا بھی انتخاب کیا۔ اور آپ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے۔ آپ نے داستان پر کام کیا اور تین چار جلدوں میں ایک الگ انداز کی کتاب داستان پر بھی آپ لکھ رہے ہیں۔ ایک ضخیم جلد اس کی چھپ بھی چکی ہے۔ تو آپ کی کلاسیکی ادب سے جو دلچسپی ہے کیا وہ عسکری صاحب کی وجہ سے ہے؟

شمس الرحمٰن فاروقی: اس میں کچھ تو عسکری صاحب کا ضرور دخل ہے۔ جب میں نے عسکری صاحب کو پڑھنا شروع کیا تو پتا چلا کہ اگرچہ وہ یورپی ادب کے بڑے رسیا ہیں لیکن جگہ جگہ ان کے یہاں اشارے اور نکتے ملتے ہیں اپنے ادب کے بارے میں، کلاسیکی ادب کے بارے میں، فارسی ادب کے بارے میں۔ میں اپنی جگہ پر یہ سمجھتا تھا شروع شروع میں کہ سب ادب ایک ہی ہے، وہ انگریزی ہو، چاہے یونانی ہو، چاہے فرانسیسی ہو۔ چاہے اردو ہو، چاہے فارسی ہو، چاہے چینی ہو۔ سب ادب ایک ہے لہٰذا سب ادب پڑھنا چاہیے، اور اس کو پڑھنے کے طریقے کم و بیش ایک ہونا چاہیے۔ اگر میں انگریزی کا کلاسیکی ادب پڑھ رہا ہوں تو اردو کا بھی کلاسیکی ادب مجھے پڑھنا چاہیے۔ اگر میں ڈھائی ہزار برس پہلے کے ڈراما نگار کو یونان سے لاکر پڑھ رہا ہوں تو میں اپنے یہاں کے کالی داس کو کیوں نہ پڑھوں اور اپنے یہاں کے آغا حشر کو کیوں نہ پڑھوں؟ دونوں ضروری ہیں۔

یہ میرا خیال تھا، اور اب بھی ہے۔ لیکن اس کے پیچھے جو نظریہ تھا، کہ سب ادب ایک ہوتا ہے اور اس کو پڑھنے کے طریقے کم و بیش ایک ہوتے ہیں، تو اب میں اس نظریے پر قائم نہیں ہوں۔ لیکن اس نتیجے پر میں اب بھی قائم ہوں کہ اگر میں انگریزی یا فرانسیسی کے کلاسیکی ادب کو پڑھتا ہوں، یا اگر میں لاطینی یا چینی کلاسیکی ادب کو پڑھتا ہوں تو ظاہر ہے اپنے کلاسیکی ادب کا مجھ پر اس سے زیادہ ہی حق ہے کہ میں اسے پڑھوں اور اس سے اثر قبول کروں، اس سے لطف حاصل کروں۔

عسکری صاحب کی جس خوبی نے میرا دل بہت کھینچا وہ یہ تھی کہ وہ اپنی زمین کو چھوڑتے نہیں۔ چاہے وہ بات کر رہے ہوں چاسر (Chaucer) کی یا قرون وسطیٰ کے فرانسیسی ادب کی، چاہے وہ بو دلیئر اور لوتریاموں (Lautreamont) کی بات رات بھر سے کر رہے ہوں، چاہے وہ چھوٹے سے چھوٹے، کسی کم مشہور فرانسیسی فن پارے کی باریکیاں بیان کریں، لیکن قدم ان کے زمین پر ہمیشہ رہتے ہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ میں اس بات کا شروع سے ہی قائل ہوں اور جو تربیت حاصل کی میں نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے اور اس سے پہلے بھی، اس میں بھی یہ بات بہت اہم طور پر ہم لوگوں کو بتائی گئی تھی کہ ادب ایک طرح کا مسلسل عمل ہے۔ یہ نہیں ہے کہ کوئی عہد ختم ہوا تو اس کے بعد اس کا دروازہ بند ہوگیا۔ اس کو کھول نہیں سکتے۔ ایسا نہیں کہ جو نیا عہد آیا اس کا پرانے عہد سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، کوئی رشتہ نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ بتایا بلکہ سمجھایا گیا کہ ہر ادب ایک اکائی کی طرح سے ہوتا ہے۔ اور جس ادب میں راشد اور میراجی ہیں اسی ادب میں میر اور سودا بھی ہیں اور اسی ادب میں محمد قلی قطب شاہ اور ہاشمی بیجاپوری بھی ہیں۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ وہ ادب کوئی اور تھا اور راشد اور میراجی کچھ اور ادب لکھ رہے تھے۔

یہ اور بات ہے کہ زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ زبان، زبان کے بارے میں ہمارا رویہ، تاریخ اور سیاست کی لائی ہوئی تبدیلیاں، اور ان سے بڑھ کر تصورات کی لائی ہوئی تبدیلیاں، یہ سب چیزیں ادب کی ظاہری اور ایک حد تک داخلی شکل بدل دیتی ہیں۔ الیٹ (Eliot) نے ہمیں یہ بات سکھائی کہ نیا ادب پڑھیں تو پرانے ادب کو پڑھنے کے نئے طریقے ہاتھ آتے ہیں۔ راشد اور میراجی کے درمیان جو تاریخ تصورات مشترک ہیں وہ راشد، میراجی، اور نصرتی اور خوب محمد چشتی میں مشترک نہیں ہیں۔ لیکن وہ سب ایک ہی ادب ہے، اردو ادب، اور جو ذہن کام کر رہا ہے، جو تصور کائنات ہے، وہ اپنی اصل میں ایک ہی ہے۔ اس کو اصل میں ایک نہ مانیں گے تو نہ آپ راشد اور میراجی کو ٹھیک سے پڑھ سکیں گے، نہ آپ ہاشمی اور غواصی اور خوب محمد چشتی کو ٹھیک سے پڑھ سکیں گے۔ الیٹ نے یہ بات بھی سجھائی کہ جو شاعر جتنا ہی نیا ہوگا، اتنا ہی زیادہ اس نے پرانے کا اثر قبول کیا ہوگا۔ فرینک کرموڈنے اس نکتے کو اور پھیلاکر بیان کیا۔

یہ بات شروع سے ہی میرے ذہن میں جاگزیں رہی ہے۔ میں نے بہت پہلے لکھا تھا کہ جدید شاعری اور قدیم شاعری میں کوئی فرق نہیں، کہ ہیں دونوں شاعری ہی۔ اور اس لیے مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں کہ میں تو پرانے زمانے کا آدمی ہوں لیکن میں جدید بھی ہوں۔ جدید اس معنی میں ہوں کہ 1857 کی لائی ہوئی تبدیلیوں کا میں شکار بھی ہوں اور پروردہ بھی۔ میں یہ جانتا ہوں کہ 1857کے زخم مغرب پرستی یا مارکسیت کے مرہم سے نہیں بھر سکتے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ دنیا 1950کے بعد بہت سکڑ گئی ہے اور اس کو مجموعی حیثیت سے ایسے مسائل درپیش ہیں جو پہلے کسی ایک ملک یا خطے کو بھی درپیش نہ تھے۔ لہٰذا اب نہ کلاسیکی ادب ہوسکتا ہے اور نہ نو آبادیاتی ادب۔ ترقی پسند ادب بھی نوآبادیاتی ذہنیت کا نمائندہ ہے، کیونکہ اس کا بنیادی مقصد ہمیں ذہنی طور پر مارکسی افکار کا غلام بنانا تھا، اور مارکسی فکر بھی وہ جن پر اسٹالن کا ٹھپہ تھا، مارکس یا انگلز کا نہیں۔

میں جدید ادب کا پرستار ہوں اور جدید ادب کے ساتھ جو تصورات وابستہ ہیں ان تصورات کو عام کرنے میں میرا بھی ہاتھ ہے۔ میں ان کا قائل بھی ہوں اور ان پر عمل بھی کرتا ہوں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان تصورات کو، اور اس ادب کو جسے جدید کہا جاتا ہے، اس کو خریدوں اس قیمت پر کہ میں میر، سودا، اور ولی، اور شاہ سراج، غواصی، اور نصرتی، اور بہاء￿ الدین باجن، داغ اور امیر مینائی، اور ان جیسے سیکڑوں کو چھوڑدوں۔ یہ قیمت میں ادا نہیں کرسکتا، اور نہ کوی بھی شخص جسے اپنے ادبی اور قومی تشخص کا شعور ہے، ایسی قیمت ادا کرسکتا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ ہمارا ایک بڑا طبقہ، جیسا کہ کل بات ہو رہی تھی، دو غلط فہمیاں اس کے یہاں عام ہوئیں، ایک تو یہ کہ روایت کے کچھ حصے گندے، ازکار رفتہ، غیر صالح، یا غیر کارآمد بھی ہوسکتے ہیں اور انہیں ہم کاٹ کر پھینک سکتے ہیں۔ گویا روایت کوئی درخت ہے کہ اس میں سے بہت کچھ چھانٹ دیجیے، پھر بھی کچھ بچ سکتا ہے، اور چھانٹنا ہر درخت کے لیے اچھا ہے۔ دوسری بات یہ ہم نے اپنے ادب کے بارے میں خود پھیلائی کہ اس کا بڑا حصہ غیرواقعی اور بے معنی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ روایت ایک درخت نہیں، بلکہ روایت ایک جسم ہے۔ اگر میرے جسم کا کوئی ایک حصہ کاٹ دیں تو میں رہوں گا تو شمس الرحمٰن فاروقی لیکن میں ایک ہاتھ کے بغیر رہوں گا، ایک پاؤں کے بغیر رہوں گا، ایک آنکھ کے بغیر رہوں گا۔ اور اگر آپ میرے جسم سے دل نکال دیں یا میرا سر کاٹ دیں تو میں مرجاؤں گا۔

یہ خیال کرنا کہ روایت کوئی نامیاتی وجود نہیں ہے، بلکہ مشینی وجود ہے، غلط ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے کہا کہ روایت کا کچھ حصہ ہمارے یہاں فرسودہ ہے یا از کار رفتہ ہے۔ یا غیر کارآمد ہے، یانقصان دہ ہے۔ مثلاً جرت کا کلام غیر کارآمد اور فرسودہ ہے بلکہ فحش بھی۔ اور دیکھیے یہ ریختی کس قدر گندی چیز ہے، بہو بیٹیاں اسے کیوں کر پڑھ سکتی ہیں؟ یہ تو زوال میں مبتلا تہذیب کی علامت ہے۔

قصیدے میں جھوٹ بولا جاتا ہے۔ شاعر لوگ فضولیات لکھ لکھ کر بادشاہوں کی تعریف کرتے رہتے ہیں، بادشاہ تو ایک کوڑی کے بھی نہیں تھے۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک بزرگ نقاد نے فرمایا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ بہادر شاہ ظفر کہ جن کی حکومت لال قلعے سے آگے نہ تھی ان کے لیے ذوق اور غالب نے کیا کیا طومار باندھے۔ اور بھلا بہادر شاہ کے پاس دینے کے لیے بھی کیا تھا؟ پھر ایسے مفلس اور قلاش کی مداحی سے کیا حاصل؟

میں شروع سے یہ بات کہتا رہا ہوں کہ غزل کے بغیر قصیدے کا تصور ممکن نہیں۔ مثنوی کے بغیر مرثیے کا تصور ممکن نہیں۔ اسی طرح، افراد کو لیجیے تو ذوق، غالب، مومن، ناسخ نہیں ہیں تو میں بھی نہیں ہوں۔ اگر ولی اور سودا اور میر نہیں ہیں تو ذوق و ناسخ بھی نہیں ہیں۔ شاہ نصیر نہیں ہیں تو ناسخ اور مصحفی اور غالب بھی نہیں ہیں۔ پوری کہانی میں ایک تسلسل ہے۔ چاہے ناسخ اور غالب کو یہ نہ معلوم رہا ہو کہ دکن اور گجرات میں کیا ہوتا رہا ہے لیکن وہ بھی شامل اسی روایت میں ہیں۔ کیونکہ ایک پل ہے جو اس روایت کو دکن اور اورنگ آباد اور گجرات سے دلی لایا۔ وہ پل ولی، عبدالولی عزلت، اور پھر ذرا بعد میں سراج اورنگ آبادی نے بنایا۔ میر چاہے کہہ دیں کہ دکن میں کوئی شاعر واعر نہیں ہوا۔ لیکن حق یہ ہے کہ دکن نہ ہوتا تو میر بھی نہ ہوتے۔ ان سے وہ بھاگ نہیں سکتے۔ اور پھر وہ تصور کائنات ہے جو نصرتی اور وجہی سے لے کر باقر آگاہ اور داغ وامیر تک ایک ہے۔

رہی دوسری بات، تو انیسویں صدی کی آخری چوتھائی کے زمانے سے ہمارے یہاں یہ غلط فہمی بڑی عام ہوگئی تھی کہ صاحب بہت ساری شاعری ہماری حقائق پر مبنی نہیں ہے اور حقائق پر مبنی نہ ہونے کی وجہ سے ہم پر وہ کھلتی نہیں۔ مصنوعی ہے اس لیے اس کا طلسم ہم کو بے جان معلوم ہوتا ہے۔ ہماری شاعری نہ نیچرل شاعری ہے اور نہ نیچر کی شاعری ہے۔ یہ بات اس قدر مقبول اور موثر ثابت ہوئی کہ آج بھی ہمارے مطالعات ادب اور اردو شاعری کی ہماری قرتیں اس کے سحر سے آزاد نہیں ہیں۔ دس بارہ سال پہلے ایک دفعہ میں علی گڑھ یونیورسٹی میں ایک لکچر دے رہا تھا۔ اور لکچر وہی تھا جو میں نے ’’شعرشور انگیز‘‘ کی جلد سوم اور چہارم کے دیباچوں میں زیادہ تفصیل سے بیان کیا، یعنی کلاسیکی غزل کی شعریات۔ تو اس میں میں نے مثالیں دیں نسیم دہلوی سے، جلال سے، رشک سے، مومن سے، اور چھوٹے چھوٹے لوگوں سے اور بڑے بڑے لوگوں سے۔ تو ایک بہت بڑے شاعر، فلسفی، نقاد، یعنی وحید اختر نے کھڑے ہوکر کہا کہ صاحب یہ درجۂ دوم کے لوگ تو مجھے بالکل ہی اپیل نہیں کرتے۔ میرے لیے یہ بند کتاب کی طرح ہیں۔ ان کو پڑھنے سے کیا فائدہ؟ میں نے جواب میں کہا کہ کسی بھی ادبی تہذیب میں عام طور پر درجۂ اوّل کے نام دس فیصدی ہوتے ہیں۔ اور باقی سب نام درجۂ دوم، بلکہ اس سے بھی کم تر درجے کے ہوتے ہیں۔ تو وہ تہذیب کتنی بدنصیب ہوگی جس کا ایک سربرآوردہ نمائندہ اپنے ادب کے نوے فیصد حصے سے واقف نہ ہو، اور واقفیت حاصل کرنے سے انکار کرتا ہو اور کہتا ہو کہ یہ حصہ میرے لیے کھلتا ہی نہیں، بند رہتا ہے۔

ان دو اصولوں پر میں شروع سے کاربند رہا ہوں: ایک تو یہ کہ ہمارا کلاسیکی ادب اب بھی بامعنی ہے، اور دوسرا یہ جدید اور قدیم ایک دوسرے کی تنسیخ نہیں، بلکہ تکمیل کرتے ہیں۔ (جاری ہے)

حصہ