شام زعفران:ایک زعفرانی مشاعرہ

542

’’ اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ ‘‘
حضرات! اردو کسی زبان کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک تہذیب کا نام ہے‘ ایک تہذیبی رکھ رکھاؤ کا نام ہے۔ اس کا تعلق نہ تو کسی مذہب سے ہے اور نہ ہی کسی قبیلے سے۔ جس نے اس زبان سے پیار کیا یہ اس کے دل میں اس طرح سما گئی گویا اس کی شریکِ جاں بن گئی۔

اردو ہے مرا نام میں خسرو کی پہیلی
میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی

اردو ادب نے مختلف اصناف تخلیق کیے مثلاً نثر‘ نظم‘ مرثیہ وغیرہ۔ غزل اردو ادب کی وہ واحد صنف ہے جو اپنے اندر ایک طلسماتی اثر رکھتی ہے۔ جب غزل پڑھی جاتی ہے تو بقول کرشن بہاری نورؔ

میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا
سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے

آج سے کوئی سات صدی قبل امیر خسرو وہ پہلے شاعر تھے جنہوں نے اردو غزل کی بنیاد رکھی حالانکہ اس وقت اس زبان میں وہ پختگی نہیں آئی تھی جو بعد میں آئی مگر آغاز ہو چلا تھا۔

گوری سووے سیج پر مُکھ پر ڈارے کیس
چل خسروؔ گھر آپنے سانجھ بھئی چوندیس

اس کے بعد بیشتر شاعر پیدا ہوئے جنہوں نے اردو غزل کی آبیاری کی اور اسے ادب میں اعلیٰ مقام دیا خاص طور پر میر تقی میرؔ کے دور میں اردو غزل جو ایک دلہن کی مانند تھی مگر اس کا لباس سادہ تھا۔ میرؔ نے اسے خوب صورت اور رنگین پیراہن سے نوازا بعدازاں مرزا غالبؔ نے اس دلہن کو زیورات سے آراستہ کیا۔ اردو ادب کی تمام اصناف میں غزل وہ واحد صنف ہے جس نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی اس کی ایک وجہ وہ مشاعرے ہیں جس میں شعرا کو اپنا کلام سنانے کا موقع ملتا ہے اور اہلِِ ذوق کو ان کے ذوق کی تسکین کا سامان۔ دراصل مشاعرے ہماری تہذیب اور ثقافت کی آئینہ دار ہیں۔ ایک عرصے سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایک دور وہ بھی تھا جب مشاعرے واحد ذریعہ تھے اہلِ ذوق اور اہل ِعلم کی تفریحِ طبع کے لیے۔ آج کے اس سائنسی اور الیکٹرونک میڈیا کے دور میں جب کہ بہت سی تفریحات میسر ہیں مگر مشاعرے آج بھی اسی جوش و خروش کے جذبے سے منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہ مشاعرے زبان کو بھی زندہ رکھتے ہیں اور اہلِ ذوق کے اس جذبۂ محبت کو بھی جو وہ زبان کے لیے اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔

گزشتہ اتوار کو پی ای سی ایچ ایس کمیونٹی ہال میں’’شامِ زعفران‘‘ کے نام سے ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے صرف وہی شعرا مدعو کیے گئے جو مزاح کہتے رہیں۔ میں جب وہاں پہنچا تو ہال کے اندر اور باہر جس قرینے سے اس کی تزین و آرائش کی گئی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی بگڑے نواب کی بارات کی آمد آمد ہے مہمانوں کے لیے کرسیوں کا اہتمام تھا باقی انتظامات بھی جس سلیقے سے کیے گئے تھے اس کے لے وہاں کی انتظامیہ مبارک باد کی مستحق ہے۔ سارا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شعرا مع دو عدد شاعرات کے اسٹیج پر جلوۂ افروز تھے۔ درمیان میں صدرِ محترم حضرت ِخالد عرفان‘ اُن کے پڑوس میں لاہور سے آئے ہوئے معروف مزاح گو سلمان گلارنی جو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیے گئے تھے اور اِدھر اُدھر باقی شاعر اور شاعرات۔

نظامت کی ذمے داری ایک ایسے شاعر کو دی گئی تھی جنہیں میں نے پہلی مرتبہ بہ طور ناظم دیکھا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ موصوف کو شاعری کے علاوہ نظامت جیسے مشکل فن میں بھی مہارت حاصل ہے۔ بہرحال نظامت کے فرائض موصوف نے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ جس شاعر کو دعوتِ سخن دیتے اس کی شاعرانہ خوبیوں کے ساتھ اس کا تعارف کراتے۔ بعدازاں اس شاعر کا ایک بھلا سا شعر پڑھ کر بہت ہی ادب و احترام سے ڈائس پر آنے کی دعوت دیتے۔ یقینا آپ تجسس میں پڑ گئے ہوں گے کہ ایسی کون سی شخصیت ہے جس کی اتنی خوبیاں تو بیان کر دی گئیں مگر ابھی تک اس کا نام مخفی رکھا گیاہے؟ تو بھئی وہ آپ سب کے بہت ہی پسندیدہ اور معروف مزاح گو جناب عبدالحکم ناصف ہیں۔

مشاعرے کا آغاز ہو چلا‘ ہر شاعر کی کوشش تھی کہ بہتر سے بہتر مزاح پیش کرے سامعین باذوق تھے اس لیے داد صرف اچھے اشعار پر ہی مل سکتی تھی آج کے مشاعرے مں انٹرنیشنل سامع محترم جہانگرن خان تو تھے نہیں جو ہر شاعر کو اس کے پہلے ہی مصرعے پر بھر پور داد سے نوازتے ہیں بھلے شعر کیسا ہی کیوں نہ ہو وہ کسی بھی شاعر کی دل شکنی نہیں کرنا چاہتے آخرانہیں اللہ کو جواب دینا ہے۔

مزاحیہ شاعری ادب کی کوئی علیحدہ صنف نہیں ہے‘ وہی اشعار جو غزل یا نظم میں کہے جاتے ہیں بس ان کی ترتیب اور ایسے الفاظ کا انتخاب جسے سن یا پڑھ کر قاری کے لبوں پر اگر ہلکی سی بھی مسکراہٹ آ جائے بس اسی فن کا نام مزاح ہے۔ مزاح کہنا اتنا آسان نہیں ہے ’’اتنا آساں نہیں لہو رونا‘‘ نامورمزاح گو انور مسعود مزاح کو مکئی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جب مکئی جلتی ہے تو کھلنے لگتی ہے گویا مسکرا رہی ہے۔

زعفرانی شام کو پُر مزاح اور رونق بخشنے والے شعرا اور شاعرات کا چیدہ چیدہ کلام حاضرِ خدمت ہے۔

عفت مسعود
ڈالرز میں بڑے مہنگے گھنگرو ہیں منگائے
اور تھاپ پہ امریکہ کی رقصاں ہے سیاست
بحران ہے آٹے کا غریبوں کے واسطے
اس ملک میں آٹے پہ بھی ہوتی ہے سیاست

فخر اللہ شاد: ماشاء اللہ صاحبِ کتاب ہیں‘ اچھا مزاح کہتے ہیں۔

پوچھا بیگم سے مشک یا دربار
کون سی خوشبو تم کو پیاری ہے
بولی مجھ سے کہ تم تو احمق ہو

خوشبو نوٹوں کی سب پہ بھاری ہے

مرزا عابد عباس:
ہاتھ کی الجھی لکیروں کو نجومی نے پڑھا
یہ کہا امکان ہے تم دوسری شادی کرو
میں یہ بولا دوسری کا دل میں ارماں ہے بہت
دوسری شادی بھی کرلوں گا مگر پہلی تو ہو

روبینہ تحسین بینا: مزاح کہنے والی شاعرات کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے چند ہیں جنہوں نے اس مشکل فن کے لیے تگ و دو کی اور کامیاب ٹھیریں۔ روبینہ تحسین بینا کافی عرصے سے مزاح کہہ رہی ہیں اور احباب میں مقبول بھی ہیں۔ مندرجہ ذیل قطعہ میں نشانے پر ان کا اپنا ’’ذاتی‘‘ شوہر ہے۔

وہ میرا دل اگر ہتھیا رہا ہے
کسی کے باپ کا کیا جا رہا ہے
نکمّا کیوں کہوں اپنے میاں کو
کچن میں رات دن کام آ رہا ہے

صفدر علی انشا: ساری زندگی درس و تدریس میں گزاری ہے‘ اب ریٹائرہو چکے ہیں تقریباً بیس سال سے سہ ماہی رسالہ ’’انشا‘‘کی طباعت میں مصروف ہیں۔ مزاح کہنا اُن کی مجبوری ہے کہ ’’یہی متاع ِحیات ہے‘ یہی ساری کائنات ہے‘‘ شعری مجموعہ “آبیل‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔

صفدر غزالی نین حسینہ سے گفتگو
کرتے رہے کچھ ایسے کہ بے باک ہو گئے
اُس دل رُبا حسین کے بھائی کے ہاتھ سے
’’دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے‘‘

مرزا عاصی اختر: صفدر علی انشا کی طرح مرزا عاصی اختر کی زندگی بھی درس و تدریس میں گزری ہے۔ مستقل رہائش میرپورخاص میں تھی اب کراچی کو مسکن بنا لیا ہے۔ ماشاء اللہ صاحبِ ِکتاب ہیں‘ دو عدد شعری مجموعے کے خالق ہیں۔ مزاح بہت خوب کہتے ہیں۔ تضمین جو پیشِ خدمت ہے مسلمانوں کی فرقہ واریت پر بہت بڑا طنز ہے۔

ایک تقریب کے دوران ہوا ظہر کا وقت
اپنی اپنی ہی مساجد میں پڑھی سب نے نماز
اور جونہی کھانا لگا ہم نے یہ منظر دیکھا
’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘‘

عبد الحکم ناصف: اشعار پڑھنے کے دوران ان کے ہاتھوں اور جسم کی حرکت شعر کا مفہوم سمجھنے میں کافی مددگار ثابت ہوتی ہے۔

زمیں پہ روٹی میسر نہ پیرہن نہ مکان
نہ کوئی کام کیے تم نے لا مکاں کے لیے
ابے غریب خلا میں کہیں بھی گم ہو جا
’’نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے‘‘

اے ایچ خانزادہ:
یہ سیاست ہے الٹ پھیر بھی ہو سکتا ہے
جو چھٹنکی ہے سوا سیر بھی ہو سکتا ہے
کھانستے پھرتے ہیں سب سینے میں کنجشن کے بعد
نرس لگتی ہے اسے حوریں اس انجکشن کے بعد

کشور عدیل جعفری:
تیرے گھٹیا شعر پر بھی واہ واہ کرتا ہوں میں
تو بھی کرتا ہے یہی، جلتا رہے جلتا ہے جو
ہم بڑے شاعر بنے ہیں ایک دوجے کے طفیل
’’من ترا حاجی بگویم تو مرا ملّا بگو‘‘

ناظمِ مشاعرہ نے مہمانِ خصوصی سید سلمان گیلانی کا نام کیا پکارا سامعین کی زوردار تالیوں سے مشاعرہ گاہ گونج اٹھی۔ کچھ احباب جو ان کے کچھ زیادہ ہی معتقد اور قدر شناس تھے شاعر ِمحترم کی زیارت کے لیے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر تالیاں بجا رہے تھے۔ سلمان گیلانی نے اپنے مخصوص انداز میں کلام سنانا شروع کیا ماشاء اللہ آواز اچھی ہے اس لیے ترنم کو ترجیح دیتے ہیں‘ ہر شعر اور ہر قطعہ کے بعد سامعین کی تالیاں اس بات کی غمّاز تھیں کہ احباب ان کی شاعری سے محظوظ ہو رہے ہیں چند اشعار آپ کی خدمت میں۔

میں مولوی تو نہیں مولوی نما تو ہوں
نہ دے تو حلوہ مجھے روز فیرنی دے دے
ایک اور شادی کا مجھ کو بھی شوق ہے یارب
نہ شاہزادی کوئی دے فقیرنی دے دے
جو ایک دم سے مجھے ایک دم بنادے وزیر
تو مرے عقد میں ایک ایسی پیرنی دے دے

سلمان گیلانی کے بعد صدرِ مشاعرہ محترم خالد عرفان کو دعوتِ سخن دی گئی۔ خالد عرفان نے ساری زندگی امریکا میں گزاری ہے۔ اِدھر چند ماہ سے کراچی میں مقیم ہیں اور مسلسل مشاعرہ پڑھ رہے ہیں۔ ان کے عقیدت مندوں کی تعداد پاکستان میںہی نہیں پاکستان کے باہر بھی ہے۔ جہاں جہاں اردو بولی اور پڑھی جاتی ہے وہاں وہاں خالد عرفان کے شیدائی بھی موجود ہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر پوری نظر رکھتے ہیں۔ بات مزاح کے پیرائے میں کہی جاتی ہے مگر اس میں طنز بھی شامل ہوتا ہے۔

کبھی وطن میں ہمارا بھی آب و دانہ تھا
یہ بات تب کی ہے جب ملک میں خزانہ تھا
تمام بینک لٹیروں نے مل کہ لوٹ لیے
وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا
٭

تمھاری دعوت قبول مجھ کو مگر تم اتنا خیال رکھنا
بیئر کسی بھی برانڈ کی ہو چکن فرائیڈ حلال رکھنا

مشاعرہ ختم ہوا‘بریانی سے احباب کی ضیافت کی گئی۔ خاکسار کو اجازت دیجیے’’پھر ملیں گے اگر خدا لایا۔‘‘

حصہ