میٹھی زبان

338

بعض اوقات کتابوں میں پڑھی باتیں اچھی لگتی ہیں، دل کو بھاتی ہیں، لیکن وہ آپ کی زندگی پر اتنا اثر نہیں ڈالتیں جتنا کسی باعمل انسان کے خلوص سے کہے گئے الفاظ آپ کی دنیا بدل دیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ فرح کے ساتھ ہوا۔ اس کا گھرانہ کلمہ گو تھا۔ نماز، روزے کا بھی اہتمام ہوتا لیکن پردے کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ سسرال میں بھی ان سب چیزوں کا خیال تو رکھا جاتا تھا لیکن دین صرف یہیں تک محدود تھا۔ اچھا بڑا خاندان تھا، ان میں ایک جیٹھانی(عائشہ بھابھی) نمایاں تھیں۔ پڑھے لکھے دین دار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ پڑھی لکھی، نیک دل اور سب کی خیر خواہ تھیں۔ جہاں سے کوئی اچھی بات پتا چلتی، سب کو بتاتیں۔ کھانا پکانے کی ترکیبیں ہوں یا سلائی کڑھائی کے بارے میں پوچھنا ہو، ہر کوئی بلا جھجک ان سے پوچھ لیتا۔

پہلے وہ پردے کی پابند نہیں تھیں، پھر ان کی زندگی میں انقلاب آیا اور انہوں نے شرعی پردہ کرنا شروع کردیا۔ خاندان والوں نے باتیں بنائیں، مذاق بھی اُڑایا، کسی نے کہا ’’چار دن کی چاندنی ہے‘‘، کسی نے کہا ’’نو سو چوہے کھاکے بلی…‘‘ خیر اِن باتوں نے اُن کے ارادوں کو متزلزل نہیں کیا۔ فرح، عالیہ بھابھی کی گرویدہ تھی۔

ایک دفعہ خاندان میں کوئی تقریب تھی، گرمی کی وجہ سے فرح نے ایسا سوٹ پہنا جس کی آستینیں آدھی تھیں۔ فرح عالیہ بھابھی کے ساتھ ہی بیٹھی تھی، اچانک انہوں نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھاما اور ہلکے ہلکے سہلاتے ہوئے بولیں ’’تمہارا سوٹ بہت اچھا ہے۔‘‘ پھر آستین کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگیں ’’اگر آستیں پوری ہوتی تو اور خوب صورت لگتا اور تمہاری خوب صورتی کو بھی چار چاند لگ جاتے۔‘‘

انھوں نے اتنے پیار سے کہا کہ فرح قائل ہوگئی، اس نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ اب کبھی آدھی آستین کی قمیص نہیں پہنے گی۔ اس کے بعد فرح کی بہنوں نے کہا ’’کم از کم گرمیوں کے کپڑوں کی آستین تو آدھی رکھ لو…‘‘ لیکن اس نے سختی سے منع کردیا۔

اسی طرح ایک دفعہ ساس صاحبہ کی طبیعت خراب ہوگئی، ایمرجنسی میں انہیں اسپتال لے جایا گیا۔ سب گھر والے وہاں موجود تھے اور آپس میں بات چیت کررہے تھے اور ان کے لیے دعائیں بھی کررہے تھے۔ فرح نے چادر اوڑھی ہوئی تھی، عالیہ بھابھی اس کے پاس آکر بیٹھ گئیں اور باتوں باتوں میں مخاطب کرکے کہا ’’پردہ کرنا مشکل تو نہیں ہے، چادرکے ایک پلو سے آدھے چہرے کو ڈھانک لو، ہوگیا پردہ۔‘‘

فرح ایک بار پھر لاجواب ہوگئی۔ انہوں نے فرح کو شرمندگی سے نکالنے کے لیے کہا ’’پہلے مجھے بھی مشکل لگتا تھا، لیکن جب سے پتا چلا ہے کہ عورت کو قرآن میں ’’چھپے ہوئے موتی‘‘ سے تشبیہ دی گئی ہے تواب آسان ہوگیا ہے۔‘‘
بزرگوں نے صحیح فرمایا ہے کہ نصیحت کرنے والے کے دل میں خلوص اور سچائی نہ ہو تو نصیحت کا اثر نہیں ہوتا بلکہ دوسرا ضد پر اتر آتا ہے۔ جب کہ سامنے والا حکمت اور نرمی سے دلائل کے ساتھ سمجھائے تو ساری منطقیں دھری رہ جاتی ہیں۔
فرح پر عالیہ بھابھی کی صحبت اور نصیحت کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے اپنے آپ کوحیا کے پیکر میں ڈھال لیا۔ وہ ان کو دعائیں دیتی ہے جن کی وجہ سے اس نے جانا کہ شرم وحیا ہی عورت کا اصل حُسن ہے۔

حصہ