انعام

420

’’امی آپ کتنی پیاری ہیں نا‘‘۔ رابعہ اپنی ماں کو بہت دیر سے بغور دیکھ رہی تھی۔ ان کی گوری گلابی رنگت، دل کش نین نقوش اور لمبے بال اکثر اسے سحر زدہ کردیتے تھے۔

سیاہ لباس میں ملبوس طاہرہ نے بیٹی کو پیار سے دیکھا۔ ’’رابعہ میری گڑیا، تم تو خود اتنی حسین ہو۔‘‘ وہ ہنسیں۔ اور رابعہ کو تو گویا موقع مل گیا اپنی بات دہرانے کا۔

’’امی اسی لیے تو میں آپ سے کہتی ہوں کہ مجھے عبایا دلا دیں، سچ مجھے اتنے مردوں کے درمیان سے اسکول سے نکلتے وقت بہت شرم محسوس ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بے شمار نظریں مجھے دیکھ رہی ہیں۔‘‘

طاہرہ نے حیرت سے اس کی بات سنی اور بولیں ’’مگر بیٹا! ابھی تو تم صرف آٹھویں کلاس میں ہو، پردہ کرنے کے لحاظ سے ابھی بہت چھوٹی ہو، ویسے بھی ہمارے گھر میں ایسا پردہ کون کرتا ہے!‘‘ اور بات آئی گئی ہوگئی۔

رابعہ شروع سے ہی بہت حساس مزاج رکھتی تھی، ہر چیز پر اُس کی گہری نظر ہوتی۔ آج اسکول میں سالانہ رزلٹ کا دن تھا، وہ ہمیشہ سے پڑھنے میں بہت آگے تھی۔ اسے کلاس کی بہترین طالبہ کا ایوارڈ ملنا تھا، اس لیے طاہرہ بھی شرکت کے لیے آئی تھیں۔ واپسی پر دور کھڑی ریڑھی پر گنڈیریاں دیکھ کر طاہرہ کو شدت سے پیاس محسوس ہوئی، انہوں نے سوچا ٹھنڈی میٹھی گنڈیریاں کھائے عرصہ ہوگیا۔ بیٹے سے کہا کہ گنڈیری والے کے پاس گاڑی روکے۔ مگر گاڑی کے نزدیک آتے ہی منظر بدل گیا۔ دور سے کٹتی گنڈیریاں بہت خوب لگ رہی تھیں مگر یہاں تو مکھیاں ہی مکھیاں تھیں… سفید سفید گنڈیریوں پر بھنبھناتی ہوئی کالی کالی مکھیاں دیکھ کر طاہرہ کو اُبکائی آگئی اور انہوں نے ارادہ بدل لیا۔

گھر آ کر رابعہ نے ماں کو پھر احساس دلانا چاہا ’’امی! آپ نے نوٹ نہیں کیا کہ کھلی پڑی ہونے کی وجہ سے آپ کی نظر میں گنڈیریوں کی اہمیت کم ہوگئی تھی۔ بالکل اسی طرح جن لڑکیوں پر غیر مردوں کی بری نظریں پڑتی ہیں اُن کی پاکیزگی کم ہوجاتی ہے۔ امی! پلیز آپ مجھے پردہ کرنے کی اجازت دے دیں۔ میں کسی غلط کام کے لیے تو نہیں کہہ رہی۔‘‘

اتفاق سے دونوں ماں بیٹی کی گفتگو رابعہ کے ابو نے سن لی۔ اور اس طرح آخر رابعہ کا عبایا آ گیا۔

’’ماہم! شادی جب ہونا ہے ہوجائے گی، مگر میں شادی کی خاطر اپنے اصولی مؤقف سے بالکل نہیں ہٹوں گی۔‘‘ رابعہ نے قطعی لہجے میں ماہم کو جواب دیا۔

رابعہ اسی سال ہاؤس جاب کرکے شہر کے معروف ادارے میں جاب کررہی تھی۔ عہدِ شباب میں قدم رکھتے ہی اس نے پردہ شروع کردیا تھا اور یہی چیز اس کے رشتہ ہونے میں کوہِ گراں بنی ہوئی تھی۔ اس کی بھابھی جو کہ اس کی سگی خالہ زاد بہن اور بچپن کی دوست تھی، ہر وقت اس کوشش میں لگی رہتی کہ کسی اچھے گھرانے میں اس کا رشتہ طے ہوجائے۔ مگر وقت گزرتا جا رہا تھا اور یہ ایک بات ایسی اٹک گئی تھی کہ جیسے کوئی بہت بڑا عیب ہو۔

رابعہ نے ایک پڑھے لکھے کھاتے پیتے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ، بڑے بھائی اور ایک چھوٹی بہن اُس کے ماں باپ کی کُل کائنات تھے۔ اس کی ماں سیدھی سادی گھریلو خاتون تھیں۔ چھوٹی بہن عاصمہ ابھی یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھی۔ وہ رابعہ کے برعکس انتہائی چلبلی اور لا اُبالی تھی۔ رابعہ کے گھر کی خواتین پردے کے معاملے میں بالکل سنجیدہ نہیں تھیں، بس واجبی اور روایتی سا پردہ تھا ان کا۔

رابعہ نے اصل میں اپنی دل چسپی کی بنا پر قرآن کو بارہا ترجمہ کے ساتھ پڑھا تھا۔ مختلف مفسرین کے بیانات بھی پابندی سے سنا کرتی تھی۔ دوسرے یہ کہ قدرتی طور پر اسے غور و فکر کرنے کی عادت تھی۔ بس اسی لیے قرآن کریم کے بہت سے احکامات پر ثابت قدمی کے ساتھ عمل پیرا تھی۔

’’چچی! آپ کا تو حلقۂ احباب خاصا وسیع ہے، پلیز آپ میری نند رابعہ کے لیے کوئی رشتہ دیکھیں نا۔‘‘ اب کی بار ماہم میکے آئی تو اُس نے اپنی چچی سے رابعہ کے بارے میں مدد چاہی۔

’’بیٹا! مسئلہ اصل میں کیا ہے، بظاہر تو بڑی پیاری بچی ہے۔پھر رشتہ کیوں نہیں مل رہا؟‘‘

ماہم کا جواب سن کر انھوں نے اپنے سر پر ہاتھ مارا، ’’لو بھئی! نیکی برائی بن گئی۔ حد ہے، اس بات کی تو قدر کرنی چاہیے کہ بچی عمر کے اس حصے میں دل کی بری خواہشات کو پیچھے کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں لگی ہوئی ہے۔‘‘

چچی کو بہت دکھ ہو رہا تھا، مگر وہ جانتی تھیں کہ اللہ بڑا قدردان ہے، وہ اِن شاء اللہ اس کے ساتھ اچھا ہی کرے گا۔

آج پھر شہلا نے اپنی دوست کو اپنی ایک تحریر واٹس ایپ کی، جسے پڑھتے ہی سارہ نے حسبِ معمول چند تعریفی جملے جواباً لکھ بھیجے۔ ان دونوں کی دوستی بھی عجب تھی، دونوں کبھی ملی تھیں نہ ایک دوسرے کو دیکھا تھا، مگر سوچ کے تانے بانے دونوں کو ایک جان دو قالب میں ڈھال گئے تھے۔ سارہ شہلا کی تحریروں کی معترف و شیدائی تھیں، اس کی ہر نئی تحریر کو اپنی دوستوں اور رشتے داروں کے تمام گروپوں میں شیئر کرنا نہ بھولتی تھیں۔

’’سارہ کوئی ڈاکٹر لڑکی نظر میں ہو تو بتاؤ، میں اپنے بیٹے کے لیے ڈھونڈ رہی ہوں، مگر آج کل تو لگتا ہے کہ لڑکیوں نے پردہ کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ مجھے باپردہ حیادار لڑکی چاہیے۔‘‘ شہلا نے تفصیل سے اپنا مدعا بیان کیا۔ اور سارہ کو لگا کہ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔

’’لڑکی تو بالکل ہے میری نظر میں، ڈاکٹر بھی ہے، پیاری اور باپردہ بھی۔‘‘ سارہ روانی میں بولتی چلی گئیں۔

’’ارے واہ ایسی بات ہے تو جلدی بتاؤ، پردہ دار لڑکی کے حصول میں ویسے ہی ہمارا بہت وقت ضائع ہو چکا ہے۔‘‘ خوشی اور جوش سے شہلا کی آواز بھرا گئی۔

ابھی شہلا رابعہ کی امی سے بات کرنے کا سوچ ہی رہی تھیں کہ رابعہ کا ایک بہت ہی اونچے گھرانے سے رشتہ آ گیا۔ لڑکا باہر سے پڑھ کر آیا تھا، جاب بھی بہترین، شہر کے پوش علاقے میں وسیع رقبے پر پھیلی ذاتی کوٹھی اور مختصر فیملی۔ غرض یہ کہ رشتہ ہر زاویے سے آئیڈیل تھا۔ طاہرہ نے جب رابعہ سے رضامندی چاہی تو اس نے اپنی شرط بتا دی:

’’امی! وہ باہر سے پڑھ کر آئے ہیں مجھے نہیں لگتا کہ وہ لوگ میرا پردہ کرنا پسند کریں گے۔ آپ ان لوگوں پر واضح کر دیں کہ میں شادی کے بعد پردہ نہیں چھوڑوں گی۔‘‘

طاہرہ نے اپنے شوہر سے مشورے کے بعد جب لڑکے کی امی کو رابعہ کے ارادے سے آگاہ کیا تو وہ شش و پنج کا شکار ہو گئیں۔ رابعہ انہیں اور ان کے بیٹے کو بہت پسند آئی تھی، مگر وہ اپنے بیٹے کے خیالات سے بھی واقف تھیں۔ بہرحال بیٹے سے مشورے کے بعد جواب دینے کا کہہ کر اجازت چاہی اور پھر وہی ہوا جس کا رابعہ کے والدین کو اندیشہ تھا۔ مگر رابعہ مطمئن تھی کہ وہ رب کی بھیجی ہوئی آزمائش میں سرخرو ٹھیری۔ اتفاق سے اگلے ہی دن شہلا کا فون آ گیا، وہ رابعہ کو دیکھنے آنا چاہتی تھیں۔ بس پھر کیا تھا، شہلا اور ان کے گھر والوں کو رابعہ ہر لحاظ سے پسند آئی اور شہلا، ان کے گھر والے اور بیٹا ارسلان بھی رابعہ کے تمام گھر والوں کو بہت بھائے۔ شہلا کے گھر کی تمام خواتین باپردہ تھیں اور ارسلان کی خواہش تھی کہ اس کی ہونے والی بیوی بھی پردہ کرتی ہو۔

دونوں طرف شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں اور آخر جلد ہی رابعہ رخصت ہو کر پیا گھر سدھاری۔

رخصتی کے بعد طاہرہ یہ سوچ رہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی آزمائش ضرور کرتے ہیں مگر پھر انعام سے بھی نوازتے ہیں۔ قرآن میں اللہ نے فرما دیا ہے ’’نیک مرد نیک عورتوں کے لیے اور برے مرد بری عورتوں کے لیے ہیں۔‘‘

حصہ