بخارا پیلس کے ساتھ والی سڑک

353

ایک دور تھا جب ہاتھ سے بنائے جانے والے قالینوں کا کاروبار اپنے عروج پر ہوا کرتا تھا۔ اُس وقت پاکستان میں تیار ہونے والے قالینوں کی خاصی مانگ تھی اس لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا روزگار اس صنعت سے وابستہ تھا۔ اُس زمانے میں ہمارے علاقے سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ بخارا پیلس نامی فیکٹری جایا کرتے، جہاں قالینوں کی بنوائی، کٹائی اور دھلائی کا کام ہوتا، اور تیار کردہ مال دنیا کے مختلف ممالک خاص طور پر وسطی ایشیا جایا کرتا تھا۔ جبکہ غریب آبادیوں میں رہنے والے اکثر خاندانوں کی خواتین گھروں میں قالین بنایا کرتیں، اس لیے اسے گھریلو صنعت کا درجہ بھی حاصل تھا۔ وقت گزرتا گیا اور مہنگائی بڑھنے لگی جس کے باعث ہاتھ سے بنائے جانے والے قالینوں کی جگہ ایرانی مشینی قالینوں نے لے لی۔ یوں رفتہ رفتہ یہ صنعت پاکستان سمیت دنیا بھر سے ختم ہونے لگی بلکہ ختم ہوگئی، جس کے نتیجے میں کئی گھرانوں کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہمارے علاقے میں ایک فیکٹری بخارا پیلس کے نام سے قائم تھی، وہاں بھی تالے پڑ گئے، نتیجتاً نہ صرف بخارا پیلس بلکہ اس کے اطراف کی سڑکوں پر بھی ویرانی چھا گئی۔ اتفاق سے کل میرا گزر اُس علاقے سے ہوا جہاں یہ فیکٹری قائم تھی، میں نے دیکھا کہ بخارا پیلس کے ساتھ جاتی ہوئی سڑک پر کھڑے شخص کے گرد لوگوں کا ایک جم غفیر ہے، اور وہ قطار بنائے اس شخصیت سے مصافحہ کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ یہ دیکھ کر میرے دل میں بھی اُس شخصیت سے ملاقات کرنے کی خواہش جاگ اٹھی۔ ظاہر ہے کسی بھی چلتی ہوئی سڑک پر کھڑے شخص کے گرد اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا جمع ہونا اس شخص کی معاشرتی حیثیت کا منہ بولتا ثبوت تھا، ایسے میں میرا وہاں سے اُن سے ملے بغیر گزرنا،یا یوں کہیے ایسی شخصیت سے مصافحہ نہ کرنا زیادتی سے کم نہ تھا، سو میں تیزی سے اس ہجوم کی جانب بڑھنے لگا۔ ابھی چند قدم ہی بڑھا تھا کہ میری نظر سڑک کے دوسری جانب کھڑے طاہر پر پڑی۔ طاہر چونکہ میرے اسکول کے زمانے کا دوست ہے اور وہ ایک عرصے بعد دکھائی دیا تھا، اس لیے میں اُس کی جانب چل دیا۔ حال چال پوچھنے کے بعد میں نے اُس سے سڑک پر کھڑے لوگوں سے مصافحہ کرنے والے شخص کے بارے میں پوچھنے کے ساتھ اس کے اتنا عرصہ منظرعام سے غائب رہنے کے بارے میں بھی سوالات کرنا شروع کردیے۔

میرے سوالات سن کر طاہر میرے چہرے پر گہری نظر ڈالتے ہوئے بولا: ’’تم یہاں کیا کررہے ہو، اور تمہارا یہاں کیا کام؟ میں خاصی دیر سے تمہیں یہاں دیکھ رہا ہوں، کیا تم نے بھی ٹوکن لینا شروع کردیا ہے؟‘‘

’’یہ ٹوکن کیا ہے؟ اور ٹوکن لینے سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘میں نے طاہر سے فوری طور پر پوچھا۔

’’جب ٹوکن نہیں لینا ہے تو پھر تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘

’’بھائی کیا بولے جارہے ہو! دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا؟ میں تو یہاں سے گزر رہا تھا، سڑک کے کنارے کھڑے اس شخص کو جس سے لوگ مصافحہ کررہے ہیں، دیکھ کر رک گیا۔ سوچا کوئی مشہور شخصیت ہیں اس لیے میں بھی سلام کرتا چلوں، بس اتنی سی بات ہے، اور تم نہ جانے کیا کیا بولے جارہے ہو۔‘‘

’’بس یہی بات ہے؟ اس کے علاوہ تو کوئی بات نہیں ہے نا!‘‘

’’ہاں ہاں بس یہی بات ہے۔ چھوڑو ان باتوں کو، اپنی سنائو، کہاں غائب تھے؟ کیا اب یہاں رہتے ہو؟ پرانا محلہ چھوڑ دیا؟‘‘

’’خدا کا شکر ہے تمہارے متعلق میرے دل میں آنے والے خیالات درست نہ تھے، میں تو ڈر گیا تھا۔‘‘

’’او بھائی کیا ہوگیا، کیا غلط فہمی ہوگئی ہے؟‘‘

’’کچھ نہیں، تم چھوڑو ان باتوں کو۔ اور ہاں، میں یہاں نہیں رہتا،نہ ہی پرانے محلے میں ہوں۔ ایک عرصہ ہوا نئی آبادی میں شفٹ ہوئے۔ اب وہیں رہتا ہوں۔ جسے تم مشہور شخصیت سمجھ کر مصافحہ کرنے کا شرف حاصل کرنا چاہتے تھے میں یہاں اسی کے چکر میں کھڑا ہوں۔ یہ کوئی روحانی شخصیت ہے اور نہ ہی اس سے ہاتھ ملانے والے اس کے مرید۔ اس سے ہاتھ ملانے والا ہر شخص نشے کی پڑیا لے رہا ہے۔ میں اس ہیروئن فروش کے پیچھے لگا ہوا ہوں، اسی لیے تمہیں یہاں دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا، اور نہ جانے کیا کیا بول گیا۔ مجھے معاف کردینا میرے دوست۔‘‘

’’ارے یار خیر ہے۔لیکن تم اس کے پیچھے کیوں لگے ہوئے ہو؟ یہ تمہارا کام تو نہیں ہے۔ کیا کسی ایسے ادارے میں نوکری کرلی ہے جس کا کام منشیات کی روک تھام ہے؟‘‘

’’ادارے کہاں روکتے ہیں! میں تو خود متاثرین میں سے ہوں، ایک عرصہ ہوا نشے کی لت ایسی لگی کہ زندگی تباہ ہوگئی۔ اب تو دن پورے کررہا ہوں، سوچتا ہوں جب تک زندہ ہوں اس زہرِ قاتل کو فروخت کرنے والوں کے خلاف کام کروں اور اپنی نوجوان نسل کو ان درندہ صفت انسانوں کے چنگل سے بچائوں۔‘‘

’’یار اگر اتنی سمجھ ہے تو نشہ چھوڑ دو اور اپنا علاج کرواکر اچھی زندگی گزارو… جو ہوگیا اسے بھول جاؤ۔‘‘

’’میرا کوئی علاج نہیں، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ یہ زہر میرے سارے وجود میں سرایت کرچکا ہے۔‘‘

’’یہ سب کیسے ہوگیا؟ تم تو اچھے خاصے سمجھ دار تھے، کیسے نشہ کرنے لگے؟‘‘

’’دوستی، میرے یار دوستی… یہ سب دوستی کے چکر میں ہوجاتا ہے۔ جب حلقۂ احباب اچھا نہ ہو تو اسی قسم کے نتائج آیا کرتے ہیں۔‘‘

’’لیکن…‘‘

’’لیکن ویکن کچھ نہیں ہوتا، بس یہی سچ ہے کہ ہمارے نوجوان محض دوستوں کے کہنے، یا فیشن کے طور پر منشیات کا استعمال کرتے ہیں، اور یہی ان کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔ منشیات کے عادی افراد ہیروئن اور شراب کا استعمال تو پہلے سے ہی کثرت سے کرتے تھے، اب تو کرسٹل آگیا ہے جسے آئس بھی کہا جاتا ہے۔‘‘

’’شراب، چرس، افیون، ہیروئن یا مختلف نشہ آور اشیاء کے بارے میں تو خوب سنا ہے لیکن کرسٹل کے بارے میں پہلی مرتبہ سن رہا ہوں۔ یہ ’’کرسٹل‘‘ کس چڑیا کا نام ہے؟‘‘

’’حیرت ہے، تمہیں اس کے بارے میں نہیں معلوم! آج کل تو اس کی بڑی ڈیمانڈ ہے۔ یہ نشہ میتھ ایمفٹامین نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے، جو چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر کی سفید چیز ہوتی ہے، جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ اس نشے کے لیے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ نشہ کرنے والے افراد اسے انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں داخل کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا طاقت ور نشہ ہے، جو پہلی بار کے استعمال سے ہی انسان کو اپنا عادی بنا لیتا ہے۔ یہ کوئی سستا نشہ نہیں، بلکہ اس کی قیمت انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ آئس کا زیادہ تر استعمال ہائی کلاس پارٹیوں میں اسٹیٹس کی علامت کے طور پر ہونے لگا ہے، اسے عموماً شیشے کے ایک چھوٹے پائپ کی مدد سے پیا جاتا ہے، تاہم کچھ لوگ اسے نگل کر، سونگھ کر، یا سرنج کے ذریعے نس میں داخل کرکے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایک گرام کوکین اگر 10ہزار سے 12 ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے تو ایک گرام آئس1500 روپے سے 3 ہزار روپے میں مل جاتی ہے۔ آئس کا نشہ کرنے کے بعد انسان کی توانائی وقتی طور پر دُگنی ہوجاتی ہے اور ایک عام شخص 24 سے لے کر 48 گھنٹوں تک جاگ سکتا ہے، اس دوران وہ چاق چوبند رہتا ہے۔‘‘

’’طاہر! تمہاری باتوں سے تو ظاہر ہوتا ہے جیسے یہ نشہ کوئی ایسا وٹامن ہے جس کے استعمال سے توانائی دُگنی ہوجاتی ہے اور انسانی صحت کو کسی قسم کا کوئی نقصان بھی نہیں پہنچتا۔ اور یہ کہ تمہاری باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمہیں نشہ آور اشیاء کے بارے میں خاصی معلومات ہیں۔“

’’جیسے کہ پہلے بتا چکا ہوں میں خود بھی نشے کا عادی ہوں، اسی لیے اتنا کچھ جانتا ہوں۔ میری زندگی کا تو اب اختتام ہے، مرنے سے پہلے بس یہی خواہش ہے کہ اپنی نوجوان نسل کو اس لعنت سے بچا سکوں، اسی لیے منشیات فروشوں کے خلاف جو بن پڑتا ہے کرتا رہتا ہوں۔ کبھی پولیس،تو کبھی اینٹی نارکوٹکس کنٹرول جیسے اداروں کو باخبر کرتا رہتا ہوں، لیکن کہیں سے بھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملتی۔ لیکن میں ناامید نہیں ہوں، مجھے خدا کی ذات پر پورا بھروسا ہے کہ وہ میری اس جدوجہد کو ضرور کامیاب کرے گا۔ جہاں تک اس علاقے میں چرس و ہیروئن فروخت کرنے والوں کا تعلق ہے میں ان کے پیچھے لگا ہوں، اِن شاء جلد ہی اس گروہ کو کیفرِ کردار تک پہنچا دیا جائے گا۔“

……٭٭٭……
طاہر کی باتیں اپنی جگہ سو فیصد درست ہیں۔ گلی محلوں میں کھلے عام فروخت ہوتی نشہ آور اشیاء کے خاتمے اور اپنی نوجوان نسل کو منشیات جیسی لعنت سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں اینٹی نارکوٹکس فورس سمیت دیگر اداروں کو فعال بنانے کی ضرورت ہے، محکمہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی، منشیات فروشی میں ملوث اور منشیات فروشوں کی سرپرستی کرنے والوں سے سختی سے نمٹنا ہوگا، سب سے بڑھ کر ایسے افراد پر نظر رکھنی ہوگی جو کسی بھی سیاسی جماعت کا سہارا لے کر منشیات فروشوں کی سرپرستی کرنے جیسے جرائم میں ملوث ہیں، اور پولیس ان کی اسی حیثیت کے باعث ان پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔

محکمہ پولیس کو بھی اپنی صفوں سے ایسے اہلکاروں کا صفایا کرنا ہوگا جن کی وجہ سے عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ پولیس کی جانب سے منشیات کے خلاف جتنی بھی کارروائیاں ہوتی ہیں ان میں منشیات کے عادی افراد کو منشیات فروش ظاہر کرکے، یا پھر چھوٹے پیمانے پر منشیات کا کاروبار کرنے والے افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ جبکہ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام منشیات کے بدنام سوداگروں کے کوائف حاصل کرکے تمام تھانوں کے انچارجز کو انہیں فوری طور پر قانون کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت کریں۔ یہی وہ راہ ہے جس پر گامزن ہوکر نہ صرف بخارا پیلس کے ساتھ گزرتی سڑک پر نشہ آور اشیاء کی فروخت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے بلکہ ملک بھر کی تمام شاہراہوں کو ان نشہ فروشوں کی آماج گاہ بننے سے محفوظ کیا جاسکتا ہے، بصورتِ دیگر اس زہرِ قاتل کو نوجوان نسل کی رگوں میں اترنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

حصہ