کھاؤ، پیو ، مزے اُڑاؤ

516

کھاؤ، پیو ، مزے اُڑاؤ کے نعرے میں بڑی دلکشی ہے، لیکن ہمارے یہاں اکثر لوگوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کھاتے پیتے ضرور ہیں لیکن اس کے باوجود ” مزے اُڑانے کی مسرت ان کے ہاتھ نہیں لگتی یا پھر وہ مزے اڑاتے بھی ہیں تو اس طرح جیسے مزے نہ اُڑا رہے ہوں ،مکھیاں اڑا رہے ہوں۔ یعنی انہیں کافی سوچنا اور محسوس کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے مزے اُڑائے ہیں یا پھر انہیں اس سلسلے میں دوسروں کی گواہی پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو انہیں مختلف طریقوں اور انداز سے بتاتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ انہوں نے مزے اُڑائے ہیں۔ مطلب یہ کہ برجستہ اور فطری مزہ ان کا مقدر نہیں بن پا تا مگر کیوں؟

اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ بیشک ” کھاؤ پیو، مزے اُڑاؤ ! “ کے نعرے میں بڑی کشش ہے اور ہم تیزی کے ساتھ اس کی جانب لپک رہے ہیں اور ہمیں کبھی بھی اس نعرے کے اچھے خاصے فلسفیانہ ہونے کا بھی گمان ہوتا ہے لیکن بہر حال یہ نعرہ ابھی تک ہمارے لیے نیا ہے۔ دراصل اس نعرے کو نعرہ کہنا بھی درست نہیں، یہ ایک تصور زندگی ہے جو اور بہت سی چیزوں کی طرح ہمارے یہاں جدید مغرب سے آیا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس تصور سے متاثر تو بہت ہیں، لیکن ابھی تک اس سے مانوس نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم زندگی کا جو تصور رکھتے ہیں اس میں ” کھاؤ پیو، مزے اُڑاؤ ! ” کی بات ایک بہت پست در جے سے تعلق رکھتی ہے، اتنے پست درجے سے کہ انسان، حیوان کی سطح پر اتر جاتا ہے۔ بیشک ہم اپنے بلند عمیق تصور زندگی سے بہت دور نکل آئے ہیں، بلکہ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ اس تصویر زندگی سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں لیکن بہر حال، نظری سطح اور تصور کے دائرے میں ہم ابھی تک اپنے تصور زندگی سے منسلک و وابستہ ہیں اور ہم جب تک اس تصور سے منسلک اور وابستہ رہیں گے ” کھاؤ پیو، مزے اُڑاؤ !” کا تصور ہمارے اندر اس حد تک راسخ نہیں ہو سکتا کہ ہم اس سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز ہو سکیں۔ زندگی کا تجر بہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ ہم اپنے تصور زندگی سے بہت دور نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ ہم اسے یکسر فراموش کر دیتے ہیں لیکن پھر اچانک کسی وجہ سے کسی مرحلے پرہمیں یاد آ جاتا ہے کہ ہم کہیں بہت دور نکل آئے ہیں اور اب ہمیں اپنی اصل کی طرف پلٹ جاتا چاہیے۔ بیشک ہم میں سے اکثر لوگ اپنے تصور زندگی کی طرف پلٹ نہیں پاتے لیکن اپنے تصور زندگی کی یاد اور اس کا احساس ہمارے اس مزے میں کھنڈت ڈالتا رہتا ہے جو ،’’کھائو، پیو، مزے اُڑاؤ !” کے تصور سے وابستہ ہے، ایک مسئلہ تو یہ ہے۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ کھاؤ پیو، مزے اڑاؤ ! حقیقی معنوں میں زندگی کا محض ایک جزو ہے لیکن یہ تصور پوری زندگی پر محیط ہونے کا تاثر دیتا ہے۔ مغربی دُنیا کے اکثر لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے تصور زندگی اور تجربے میں ہم آہنگی پیدا کر لی ہے، انہوں نے اپنی ضروریات کے محدود تصور کو حقیقی اور حتمی تصور کر لیا ہے۔ چنانچہ وہ کسی نہ کسی حد تک خود کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، کھا پی کر اور مزے اُڑا کر وہ نہ صرف یہ کہ پوری زندگی بسر کر رہے ہیں بلکہ زندگی کی پوری مسرت بھی انہیں مہیا ہورہی ہے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم شعوری یا لاشعوری طور پر ابھی تک زندگی کے محض ایک جزو سے پوری طرح آسودہ نہیں ہو پاتے ۔ ہمارے روحانی ، نفسیاتی اور جذباتی مطالبات ہمیں کسی نہ کسی صورت میں پریشان کرتے رہتے ہیں۔

اس حوالے سے ہمارا سماجی اور اقتصادی ڈھانچا بھی ہمارے لیے ایک مسئلہ بنا رہتا ہے، بیشک مغربی دنیا بھی وسائل کی ناہمواری کے مسئلے کا شکار ہے، لیکن بہر حال اقتصادی اور سماجی طبقہ بندی کا جو نظام ہمارے یہاں ہے ، وہ اب مغرب کا تجر بہ نہیں ہے۔ اگر چہ ہم لوگ بھی خاصے بے حس اور سنگ دل ہو گئے ہیں لیکن بہر حال ہم دُنیا سے کئے ہوئے کسی جزیرے میں نہیں رہتے ۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں غربت و افلاس کے مظاہر ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں جو ہمیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ کھاؤ پیو ، مزے اُڑاؤ ! “ کے جس فلسفے پر ہم عمل پیرا ہیں ، وہ ٹھیک نہیں۔ ہمارے آس پاس کچھ اور لوگ بھی زندگی بسر کر رہے ہیں، ایسی زندگی جو زندگی نہیں ، زندگی کی تردید ہے ۔ یہ تجربہ، یہ مشاہدہ اور یہ احساس کچھ اور نہیں تو مزے کو ضرور کر کرا کرتارہتا ہے۔

اس ضمن میں اوسوالڈ سپینگر صاحب بھی بہت سے مسائل کھڑے کر گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک تہذیب دوسری تہذیب کے فنی اوزاع اختیار نہیں کر سکتی۔ یہ ذرا مشکل بات ہے جسے سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ہم ایک مثال کا سہارا لیتے ہیں، مثلاً یہ طے ہے کہ کسی بھی زبان کی شاعری اور مزاح کا دوسری زبان میں ترجمہ نہیں ہوسکتا، اگر ہو گا تو شاعری اور مزاح کی حسیت اور اس کا لطف ترجمے سے باہر رہ جائے گا۔ ترجمے سے جو چیز ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہوگی ، وہ محض مفہوم ہوگا اور مفہوم بھی سارے کا سارا منتقل نہیں ہو سکے گا۔ یہ زبانوں کی محدودات اور تہذیبوں اور ثقافتوں کے امتیازات کا مسئلہ ہے۔ اب اگر ہم کھانے پینے اور مزے اُڑانے کی بات کو لغوی معنوں میں لے لیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم جو زردہ پلاؤ ، مرغ مسلم اور شامی کباب کے ذائقے کے عادی لوگ ہیں، کیا ہم حقیقی معنوں میں برگر اور پیزا سے لذت کشید کر سکتے ہیں؟ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ذائقے کا مسئلہ ہے اور ذائقے کو گدھے گھوڑوں کی طرح سدھایا جا سکتا ہے اور ہم اپنے ٹیسٹ میں وسعت پیدا کر سکتے ہیں، یہ بات ایک حد تک درست ہے، مگر بات یہ ہے کہ ہم جب فائیو اسٹار ہوٹل میں چینی یا اطالوی کھانے نوش فرماتے ہیں تو اس میں کھانے سے زیادہ فائیو اسٹار ہوٹل جانے کی لذت شامل ہوتی ہے، لیکن اس بات کا احساس اور اعتراف کم لوگوں کو ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس صورت میں انسان مزے کو مکھیوں کی طرح نہیں اُڑائیں گے تو اور کیا کریں گے۔

ہم گزشتہ سو سوا سو سال سے مغربی چیزیں استعمال کر کے ان سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مغربی تعلیم ، مغربی سائنس، مغربی ٹیکنالوجی، مغربی جمہوریت ، مغربی معیشت ، مغربی معقولات اور اب بات مغربی ماکولات کے وسیع دائرے تک آ پہنچی ہے لیکن جس طرح ہمیں مغربی تعلیم اور مغربی جمہوریت راس نہیں آئی ، مغربی زندگی کا نعرہ کھاؤ پیو، مزے اُڑاؤ ! اور مغربی کھانوں کے ذائقے بھی کیا راس آئیں گے۔ راس آنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم انہیں استعمال نہیں کریں گے، انہیں نوشِ جاں نہ کریں گے بلکہ راس آنے کا مفہوم یہ ہے کہ ہمیں لغوی اور علامتی دونوں معنوں میں مزے اُڑانے کا حقیقی لطف حاصل نہیں ہو سکے گا۔ اسپنگلر صاحب کی بات درست تسلیم کر لی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ فرد ہو یا قوم، انسان بگڑتا بھی اپنی طرح ہے اور سنورتا بھی اپنی طرح ہے اور ایسا ہی ہونا بھی چاہیے۔ آدمی دوسرے کی طرح بنے اور دوسرے کی طرح بگڑے تو نہ سنورنے میں حقیقی لطف آتا ہے اور نہ بگڑنے میں ۔ مثل مشہور ہے ” کوا چلا ہنس کی چال ، اپنی بھی بھول گیا ۔“

حصہ