مرقس نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں بیٹا قیصر تمہیں اپنے ماضی کی اُن کوتاہیوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرائے گا جن کے باعث ہم اپنے حقیر دشمن سے امن اور صلح کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ سینٹ کا کوئی رکن تمہارے خلاف زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرے گا‘‘۔
کلاڈیوس کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اچانک کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی اور وہ دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر وہ اُچھل کر آگے بڑھا اور بے اختیار آنے والے کے ساتھ لپٹ گیا۔ یہ عاصم تھا۔ اُس کے چہرے سے وحشت برس رہی تھی۔ ولیریس کو تھوڑی دیر اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ پھر وہ اُٹھ کر آگے بڑھا اور مغموم لہجے میں بولا۔ ’’عاصم تمہیں یقین نہیں آئے گا لیکن میں بے قصور ہوں۔ مجھ سے صرف یہ غلطی ہوئی کہ میں تمہیں بتائے بغیر گھوڑے لینے چلا گیا تھا‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، مجھے آپ کے غلام نے بتادیا تھا‘‘۔
کلاڈیوس نے پوچھا۔ ’’وہ کہاں ہے؟‘‘۔
’’کون! آپ کا غلام؟ مجھے معلوم نہیں۔ وہ آپ کا انتظار کررہا تھا۔ اور میں نے اُسے بھاگنے کی ہدایت کی تھی‘‘۔
مرقس نے آگے بڑھ کر عاصم سے مصافحہ کیا اور اُسے اپنے قریب بٹھالیا۔ کچھ دیر یہ چاروں مغموم نگاہوں سے کبھی عاصم اور کبھی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ بالآخر کلاڈیوس نے کہا۔ ’’عاصم تمہیں معلوم ہے کہ…‘‘۔
’’مجھے سب معلوم ہے‘‘۔ اُس نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’میں سیدھا سرائے کی طرف گیا تھا اور اِس کے بعد اُس کی قبر سے بھی ہو آیا ہوں‘‘۔
’’میں انطونیہ کو اطلاع دیتی ہوں‘‘۔ جولیا یہ کہہ کر عقب کے کمرے میں چلی گئی۔ اور تھوڑی دیر بعد انطونیہ اُس کے ساتھ عقبی دروازے میں کھڑی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے عاصم کی طرف دیکھ رہی تھی۔
کلاڈیوس جلدی سے اُٹھ کر آگے بڑھا اور اُس نے انطونیہ کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے قریب بٹھالیا۔ انطونیہ بدستور عاصم کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اور عاصم کو اُس کی خاموش نگاہوں کی فریاد الفاظ سے کہیں زیادہ موثر محسوس ہورہی تھی۔ عاصم نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’میری بہن، فرمس تمہارا باپ تھا، لیکن اس دُنیا میں مجھے اُس کی زیادہ ضرورت تھی۔ میں نے اپنے مقدر کی تاریکیوں میں صرف ایک ستارہ دیکھا تھا اور اب وہ بھی روپوش ہوچکا ہے‘‘۔
انطونیہ آہستہ آہستہ سسکیاں لینے لگی اور پھر اچانک اُس کی آنکھوں سے آنسوئوں کا ایک سیلاب پھوٹ نکلا۔ پھر اُس نے قدرے سنبھل کر اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’وہ حملے سے چند گھڑیاں قبل یہاں آئے تھے اور میں نے بہت التجائیں کی تھیں کہ آپ یہاں ٹھہر جائیں، لیکن وہ کہتے تھے کہ اب تمہیں، بچوں کی طرح ضد کرنے کی عادت چھوڑ دینی چاہیے۔ اب تم بڑی ہوچکی ہو۔ پھر جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ دشمن شہر کے قریب پہپنچ چکا ہے تو میں نوکر کے ساتھ اُن کا پتا کرنے کے لیے بھاگی، لیکن شہر کا دروازہ بند ہوچکا تھا اور نوکر سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود مجھے یہ تسلی دینے کی کوشش کررہا تھا کہ وہ حملے سے پہلے شہر میں آگئے ہوں گے‘‘۔
عاصم نے کلاڈیوس سے سوال کیا۔ ’’دشمن آپ سے پہلے یہاں پہنچ گیا تھا؟‘‘۔
اُس نے جواب دیا۔ آوار نے کئی سمتوں سے پیش قدمی کی تھی۔ اور یہ وہ دستے تھے جو خاقان نے ہرقلیہ میں ہمارے ساتھ جنگ کرنے سے پہلے قسطنطنیہ کی طرف روانہ کردیے تھے۔ جب ہم یہاں پہنچے تھے تو وہ مضافات کی بستیوں کو تباہ و برباد کررہے تھے اور یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں کسی شدید مزاحمت کا سامنا کیے بغیر شہر میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔ ورنہ اگر وہ تھوڑی دیر کے لیے بھی ہمیں روک لیتے تو ہمارے پیچھے جو لشکر آرہا تھا وہ ہمیں روندتا ہوا شہر کے دروازے تک پہنچ جاتا۔ میں شہر میں داخل ہوتے ہی فصیل کے محافظ دستوں میں شامل ہوگیا۔ پھر جب مجھے انطونیہ کے ابا جان کا خیال آیا تو باہر یہ حالت تھی کہ اگر میں قسطنطنیہ کی ساری فوج کو لے کر باہر نکلتا تو بھی خاقان کا لشکر ہمیں چند قدم سے زیادہ آگے بڑھنے کا موقع نہ دیتا۔ میں بھی انطونیہ کی طرح اپنے دل کو یہی تسلی دے سکتا تھا کہ وہ ہمارے گھر پہنچ چکے ہوں گے۔ جب دشمن نے شہر کی فصیل پر تیر برسانے کے بعد پسپائی اختیار کی تو میں گھر جانے سے پہلے سرائے میں پہنچا اور اُس کے بعد جو کچھ میں نے دیکھا وہ ناقابل بیان ہے۔ وہاں صرف ایک بوڑھا نوکر موجود تھا جس نے حملے کے وقت گھاس کے انبار میں چھپ کر اپنی جان بچائی تھی‘‘۔
عاصم نے آبدیدہ ہو کر کہا۔ ’’وہ نوکر اب بھی وہیں تھا اور میں اُس سے ساری داستان سن چکا ہوں‘‘۔
ولیریس نے کہا۔ ’’ہمارا خیال تھا کہ آپ سیدھے وہاں آئیں گے۔ اِس لیے ہم نے اُسے انتظار کرنے کا مشورہ دیا تھا‘‘۔
کلاڈیوس نے پوچھا۔ ’’لیکن تم کہاں غائب ہوگئے تھے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’اپنا گھوڑا غائب دیکھنے کے بعد میرے لیے شہر کی طرف بھاگنے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ وہاں ایک شریف آدمی نے میری مدد کی اور مجھے گھوڑا اور ایک ساتھی دے کر رات کے وقت روانہ کردیا۔ راستے میں جگہ جگہ دشمن کا خدشہ محسوس کرکے ہم نے ایک طویل راستہ اختیار کیا اور اگلا دن ایک جنگل میں چھپے رہے۔ میں شاید ایک لمحہ کی تاخیر بھی گوارا نہ کرتا، لیکن میرا ساتھی بہت محتاط تھا اور مجھے ان دیکھے راستوں پر اُس کی رہنمائی کی ضرورت تھی‘‘۔
’’تمہارا ساتھی کہاں ہے؟‘‘۔
’’وہ واپس چلا گیا، قسطنطنیہ کے آس پاس تباہی کے دلخراش مناظر کے دیکھنے کے بعد اُس میں آگے بڑھنے کی سکت نہ تھی۔ لیکن اب کیا ہوگا؟‘‘۔
کلاڈیوس بولا۔ ’’اب ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔ کل سینٹ کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ اِس تباہی کی ساری ذمہ داری مجھ پر ڈال دی جائے گی؟‘‘۔
مرقس نے کہا۔ ’’نہیں، نہیں بیٹا یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔
کلاڈیوس نے عاصم کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’میرے ابا جان سینٹ کے متعلق بہت مطمئن ہیں، لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ وہاں ایک آواز بھی میرے حق میں نہیں اُٹھے گی۔ مجھے اگر جلاوطن نہ کیا گیا تو بھی میری کم از کم سزا یہ ہوگی کہ میں اُن کے سامنے اپنی نااہلیت کا اعتراف کرکے ملازمت سے مستعفی ہوجائوں‘‘۔
انطونیہ جسے اپنے باپ کی موت کے سوا دنیا کا ہر مسئلہ بے حقیقت محسوس ہوتا تھا۔ اب مضطرب سی ہو کر کبھی اپنے شوہر اور کبھی عاصم کی طرف دیکھ رہی تھی۔
عاصم نے کلاڈیوس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’کیا میں سینٹ کے سامنے جاسکتا ہوں؟‘‘۔
’’تمہیں سینٹ کے سامنے لے جانا مشکل نہیں، لیکن وہاں تم میری بے بسی کے سوا اور کیا دیکھو گے…؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’آج ہر رومی سے زیادہ بے بس ہے… میرے نزدیک انہیں تباہی سے بچانے کی یہی ایک صورت ہے کہ مستقبل کے متعلق جو امیدیں خاقان کی بدعہدی کے باعث ختم ہوگئی ہیں وہ ازسرِ نو زندہ کی جائیں‘‘۔
’’تم یہ سمجھتے ہو کہ تم انہیں اُمید کی نئی روشنی دکھا سکتے ہو؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’مجھے اپنی کم مائیگی اور بے بسی کا اعتراف ہے۔ لیکن آج جب میں فرمس کی قبر پر کھڑا تھا تو مجھے ایساس محسوس ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے کہہ رہا ہے عاصم! اس شہر کو تباہی سے بچائو، جہاں تمہاری وہ بہن رہتی ہے جس کے آنسو قیصر کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہیں‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’ایسی بات کہنا روم کے ایک سپاہی کو زیب نہیں دیتا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قسطنطنیہ کو اب کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ کل سینٹ کے اجلاس کے بعد لوگ یہی خبر سنیں گے قیصر نے بالآخر قرطاجنہ میں پناہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’اگر موجودہ حالت میں ایک اجنبی کو قیصر اور سینٹ کے ارکان کے سامنے زبان کھولنے کی اجازت مل سکے تو ممکن ہے کہ میں انہیں کوئی نیک مشورہ دے سکوں‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’جہاں تک قیصر کا تعلق ہے تم اِس وقت بھی اُن کے پاس جا سکتے ہو۔ میں نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے یہاں پہنچتے ہی تمہیں تلاش کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن کل سینٹ میں تمہارا اُن کے سامنے پیش ہونا خلافِ مصلحت ہے۔ وہ میرے خلاف اِس قدر مشتعل ہیں کہ گر تم نے میری حمایت میں کچھ کہنے کی کوشش کی تو میرے ساتھ تم بھی اُن کی ملامت کا ہدف بن جائو گے اور میرے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہوگی۔ میں قیصر کو تمہاری آمد کی اطلاع بھیج دیتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی اولین فرصت میں تمہیں بلالیں گے‘‘۔
’’نہیں کلاڈیوس میں تمہاری موجودگی میں قیصر اور اُس کے مشیروں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ میرا مذاق نہیں اُڑائیں گے‘‘۔
مرقس نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تمہارے ذہن میں ہماری بھلائی کے لیے کوئی معقول تجویز ہے تو میں تمہیں اپنے ساتھ وہاں لے جانے کا ذمہ لیتا ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ جب تم کچھ کہنا چاہو گے تو وہ لوگ جو ہرقلیہ میں تمہاری جرأت دیکھ چکے ہیں تمہارا مذاق اڑانے کی جرأت نہیں کریں گے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’ابھی میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ذہن میں کوئی معقول تجویز ہے۔ بہرحال میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ مجھے دیکھنے کے بعد اُن کی توجہ کلاڈیوس سے ہٹ جائے گی۔ اور میرے دوست کو یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ میری کسی بات سے اُسے ندامت یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
شاہی ایوان، سینٹ کے ارکان اور حکومت کے دوسرے عہدہ داروں سے بھرا ہوا تھا۔ تماشائیوں میں طبقہ اعلیٰ کی وہ خواتین بھی تھیں جن کے باپ، بھائی یا شوہر ہرقلیہ سے بھاگتے وقت آوار کے ہاتھوں قتل یا قید ہوچکے تھے۔ قیصر اور اُس کی نوجوان ملکہ تخت پر رونق افروز تھے اور اُن کے چہروں سے تھکاوٹ، بددلی اور مایوسی مترشح تھی۔ کلاڈیوس تخت کے سامنے چند قدم کے فاصلے پر سرجھکائے کھڑا تھا۔ سینٹ کے بیشتر ارکان اپنی تقریروں میں اُس پر نہایت سنگین الزامات عائد کرچکے تھے۔ چند انصاف پسند ارکان نے پورے جوش و خروش کے ساتھ اُس کی حمایت بھی کی تھی، لیکن اکثریت کی چیخ پکار سے اُن کی تقریروں کا اثر زائل ہوچکا تھا۔ اپنے باپ کی طرح سائمن بھی اُس کا پُرزور حامی تھا لیکن اِس محفل میں وہ بھی اپنی بے بسی کا اعتراف کرچکا تھا۔ جب مرقس کی باری آئی تو اُس کے غم و غصے کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی وکالت کرنے کے بجائے نکتہ چینی کرنے والوں پر برس پڑا اور اُس کی تقریر کا نتیجہ یہ ہوا کہ کلاڈیوس کے مخالفین اور زیادہ مشتعل ہوگئے۔
(جاری ہے)