امجد اسلام امجد : ایک عہد جو تمام ہوا

687

اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر
تمہارے قدموں میں آ گرے
تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آئے
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں، اوس قطروں میں، خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا، میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا

کے خالق معروف شاعر، ادیب، نقاد، ڈراما نویس، مدرس اور کالم نویس امجد اسلام امجد بھی اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ آپ کی وفات79برس کی عمر میں حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے 10 فروری 2023ء کو ہوئی۔ یہ ایک اچانک اور دلخراش خبر تھی، جب ٹیلی ویژن اسکرین پر پٹی چلی تو شروع میں یقین ہی نہیں آیا۔

امجد اسلام امجد ادبی دنیا کے بہت بڑے آدمی تھے۔ ان کا شمار صدی کے اردو زبان کے بڑے اور اہم شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کے لکھنے کا ایک منفرد اسلوب تھا جس کی خصوصیت استعاروں، علامتوں اور اشارے کے استعمال سے سامنے آتی ہے۔ ان کی نظمیں زندگی کی جدوجہد اور دکھوں کو دیانت داری اور خلوص کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ آپ نے رحلت سے دوچار دن قبل ہی عمرے کی سعادت حاصل کی تھی۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ ابھی چند دن پہلے ہی اُن سے فون پر بات ہوئی تھی۔ دھیما مزاج، نرمی اور مٹھاس، ان کی مسکراہٹ، ان کی شائستگی اُن کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ جب بھی ملے بہت محبت اور اپنائیت کے ساتھ ملے، اور یہ ان کا ہر ایک سے معاملہ تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں ان کی رحلت پر گہرے رنج و غم کا اظہار سامنے آیا ہے۔ امجد اسلام امجد خاصے مقبول شاعر تھے اور ان کی بے پناہ مقبولیت کا اصل سبب یوں تو ان کام ہی ہے جس نے باذوق دنیا کو ان کا گرویدہ بنایا ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کی خوبی بھی تھی، اور ان کی شخصیت اور کام پر بہت کچھ لکھا اور کہا جارہا ہے۔
امجد اسلام امجد کی وفات پر پاکستان میں سوشل میڈیا پر گہرے دکھ کا اظہار کیا گیا اور لوگوں نے اپنے تعلق اور محبت کو بیان کیا، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
امجد اسلام امجد 4 اگست 1944ء کو لاہور میں پیدا ہوے، والد کا نام محمد اسلام تھا، خاندانی کام دست کاری اور دکان داری تھا۔ لیکن آپ بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا بہت شوق رکھتے تھے اور مرزا غالب، میر تقی میر اور علامہ اقبال جیسے نامور شاعروں کی تخلیقات سے بہت متاثر تھے۔ وہ ان شاعروں کے کام اور ان کی شاعری میں انسانی جذبات کے اظہار کی اہمیت و صلاحیت کو بچپن سے محسوس کرتے تھے۔ وہ غیر ملکی شاعروں جیسے شیکسپیئر، ورڈز ورتھ اور ٹی ایس ایلیٹ سے بھی متاثر تھے۔
امجد اسلام امجد کے ادبی سفر میں پڑوسی آغا بیدار بخت کے کتب خانے کا اہم کردار رہا ہے۔ نویں جماعت میں تھے تو اسکول کے رسالے کے مدیر بن گئے تھے، اور اُسی زمانے میں شعر کہنا شروع کردیے تھے۔ کرکٹ کا بھی شوق ہوا۔ اپنی درس گاہ اسلامیہ کالج کی کرکٹ ٹیم میں منتخب ہوئے جس نے گورنمنٹ کالج کی ٹیم کو شکست سے دوچار کیا۔ اُس زمانے میں قومی ٹیم کے 11 کھلاڑیوں میں سے چھ سات کا تعلق گورنمنٹ کالج سے ہوا کرتا تھا۔ کھیل سے دلچسپی تھی اور کرکٹ کا بہت شوق تھا۔ محقق و مورخ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کے مطابق ”کرکٹ کا سفر آگے بڑھا تو اسلامیہ کالج 12 سال بعد چیمپئن بنا جس میں امجد اسلام امجد کی کارکردگی بہت عمدہ تھی، مگر ان کی جگہ قومی ٹیم میں ایک بیوروکریٹ کے بیٹے کو منتخب کرلیا گیا اور امجد اسلام امجد کو ریزرو کھلاڑیوں میں رکھا گیا۔ یہ امجد اسلام امجد کی زندگی کا بہت بڑا شاک تھا۔ انھوں نے غصے میں اپنا بلا توڑ دیا۔ لیکن کرکٹ ٹیم میں منتخب نہ ہونا ان کے لیے بہت فائدے مند ثابت ہوا۔ وہ خود کہتے تھے کہ اگر میں کرکٹ کھیلتا رہتا تو 1965-66ء میں شروع کرکے 1971-72ء تک فارغ ہوچکا ہوتا“۔ اس طرح ادبی دنیا میں ان کی جو شناخت بنی وہ اس سے محروم رہتے۔“
ابتدائی تعلیم مقامی کالج سے حاصل کی، 1967ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادب میں ایم اے کی ڈگری لی۔ آپ ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ اردو میں ایسوسی ایٹ پروفیسر رہے۔ 23 مارچ 1975ء آپ کے رشتہ ازدواج میں بندھنے کی تاریخ ہے۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ایک بیٹی معروف مزاح گو شاعر انور مسعود کی بہو ہیں۔
آپ ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے، 1975ء سے 1979ء تک پاکستان ٹیلی وژن سے بطور ڈائریکٹر منسلک رہے۔ اس کے علاوہ آپ چلڈرن لائبریری کمپلیکس اور اردو سائنس بورڈ سمیت متعدد سرکاری اداروں میں سرکردہ عہدوں پر ذمے داریاں نبھاتے رہے۔آپ نے مختلف ادبی جرائد کے لیےلکھا اور نظموں کا پہلا مجموعہ 1967ء میں شائع ہوا۔ آپ کے مشہور ڈراموں میں وارث، دن اور فشار شامل ہیں۔ ان کے ڈرامے ”وارث“ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس وقت اسے دیکھنے کے لیے ملک کی سڑکیں سنسان ہوجایا کرتی تھیں۔
امجد اسلام امجد کا شعری مجموعہ ”برزخ“ اورجدیدعربی نظموں کےتراجم ”عکس“ کےنام سے شائع ہوئے،اس کے علاوہ افریقی شعراکی نظموں کا ترجمہ ”کالے لوگوں کی روشن نظمیں“ کےنام سےشائع ہوا۔ نظم و نثر میں آپ کی 40 سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ آپ کے کالم روزنامہ جنگ میں شائع ہوتے تھے۔امجد اسلام امجد کی تخلیقات کا انگریزی اور جرمن سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ انہیں متعدد ادبی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں صدارتی تمغۂ حسنِ کارکردگی اورستارہ امتیازکے علاوہ پانچ مرتبہ ٹیلی وژن کے بہترین رائٹر، 16گریجویٹ ایوارڈ شامل ہیں ۔ انہیں 1991ء میں اردو ادب میں ان کی خدمات پر یونیسکو انعام برائے ادب سے بھی نوازا گیا۔امجد اسلام امجد کی تخلیقات لازوال ہیں اور ادب اور اردو زبان سے ان کی وابستگی بے مثال رہی ہے۔
ادبی و ثقافتی اداروں اور جامعات میں بھی خاصے سرگرم رہے۔ جہاں وہ ہمارے دور کے مشہور شاعروں میں سے ایک ہیں، وہیں ان کی سماجی کاموں میں دلچسپی اور حصہ لینا بھی اہم ہے۔ وہ الخدمت فائونڈیشن کے ساتھ بھی خاصے متحرک اور نیکی کے کاموں میں پیش پیش رہے۔بہترین خیالات و افکار رکھنے والے، بہترین شاعری کرنے والے باکمال شاعرامجد اسلام امجد کی وفات معاصر اردو ادب کے لیے بڑا سانحہ ہے۔ آپ کو صرف ادبی دنیا میں ہی نہیں بلکہ سماج کے بڑے طبقے میں بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ان کے جانے سے یقیناً ادبی دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے، اور یہ خلا کئی سمتوں میں محسوس کیا جائے گا۔ آپ کے اشعار پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپ عصری حقائق اور سچائیوں کو بھی شعری پیرائے میں بیان کرنے پر مکمل قدرت رکھتے تھے اور کمال کے اشعار کہتے تھے۔
بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے
جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی
اس کے لہجے میں برف تھی لیکن
چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے
۔۔
جیسے بارش سے دھلے صحنِ گلستاں امجدؔ
آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرا چمکا
۔۔
زندگی درد بھی دوا بھی تھی
ہم سفر بھی گریز پا بھی تھی
۔۔
حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے
۔۔
عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے
۔۔
سائے ڈھلنے، چراغ جلنے لگے
لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے
۔۔
سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت، سو ہم
تمہارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں

حصہ