محمد حسن عسکری کل اور آج

219

شمس الرحمٰن فاروقی کی یادگار گفتگو

(ساتویں قسط)

میرے خیال میں محمد حسن عسکری ایسے تنقید نگار ہیں جن کے بارے میں یہ حکم تو لگتا ہی نہیں ہے کہ ان کا کام کہاں زیادہ اچھاہے اور کہاں کم۔ ہم ان سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ مجھے بے شمار جگہ ان سے اختلاف ہے۔ لیکن ان سے ان کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ اور ذاتی طور پر میری رائے یہ ہے کہ ان سے اختلاف کرنے سے پہلے خود کو اچھی طرح دیکھ بھال لینا چاہیے کہ میں جہاں اختلاف کر رہاہوں وہاں میرے اپنے مبلغ علم اور مرتبۂ فکر کا کیا عالم ہے؟ رسل (Bertrand Russell) نے کیمبرج میں اپنے معاصر مفکر اور ماہر اقتصادیات کینز (Keynes) کے بارے میں لکھا ہے کہ بحث میں کینز سے اختلاف کرتے وقت مجھے لگتا تھا کہ میں اپنی جان ہتھیلی پر لیے ہوئے ہوں۔ افسانے کے بارے میں، غزل کے بارے میں، قصیدہ کے بارے میں، بیانیہ کے بارے یں، عسکری کو آپ چاہے جہاں سے شروع کردیجیے اور پھر شگفتگی اور تازہ فکری کی بہار دیکھیے۔ محسن کاکوری پر کتنا اچھا لکھا ہے انہوں نے۔ تو کوئی چیز ان کو بند نہیں کرتی ہے۔ یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔

اب رہا یہ معاملہ کہ اور جو نقاد ہیں ان کے سامنے، ان کے معاصروں میں یا ان کے بعد والوں کے درمیان، ان کا کیا مرتبہ ہے؟ تو میں یہی دیکھتا ہوں کہ ایسا اور کوئی نقاد نہیں ہے جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ ہر طرح کے موضوع پرنظری اور عملی اعتبار سے اس نے جو لکھا ہے وہ سب کے سب اعلیٰ درجہ کا ہے۔ اختلاف کی بات اور ہے۔ اختلاف تو مجھے افلاطون اور ارسطو اور آنند وردھن اور جرجانی اور آئی۔ اے۔ رچرڈس سے بھی ہے، لیکن میں کان پکڑ کر ان کا نام لیتا ہوں۔

سوال: اچھا یہ بتائیے کہ آپ کے تعلق سے جو بات ہوتی ہے کہ آپ نے شاعری کی تنقید زیادہ لکھی ہے اور فکشن کی تنقید کم لکھی ہے تو کہیں محمد حسن عسکری کے اتباع میں تو یہ رویہ نہیں اپنایا آپ نے؟

شمس الرحمٰن فاروقی: بات تو عسکری صاحب کی ہو رہی ہے، اس میں تم خواہ مخواہ مجھے گھسیٹ رہے ہو۔ میں سمجھتا ہوں یہ زیادہ مناسب نہ ہوگا اور موقع بھی نہیں۔ مگر میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی بات مجھ میں اور عسکری صاحب میں مشترک ہے تو شاید یہ کہ موضوعات کا تنوع میرے یہاں بھی بہت ہے۔ بلکہ ایک آدھ موضوع ایسا ہے جو عسکری صاحب سے چھوٹ گیا ہے۔ مثلاً عروض، علم بیان کی بعض باتیں، لغت نویسی کے مسائل، لغت نگاری، پس نو آبادیاتی Post-colonial طرزفکر، وغیرہ۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ان میدانوں میں وہ آتے تو مجھ سے بہت آگے جاتے۔ اب تم نے ذاتی باتیں چھیڑی ہیں تو میں ایک جملہ کہہ دیتا ہوں۔ عسکری صاحب نے ایک خط میں مجھے لکھا تھا، اور وہ چھپ بھی گیا ہے، بہت پہلے چھپاتھا۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ مجھے کم فرصتی ہے، اور اب تو یہ عالم ہے کہ کوئی مشکل کام میرے سامنے آتا ہے تو میرے جی میں آتی ہے کہ فاروقی صاحب اسے کر ڈالتے اور مجھے نہ کرنا پڑتا۔ تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان کی محبت اور خوردنوازی تھی۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ جس طرح کا تنوع انہوں نے اختیار کیا اس کی کچھ جھلک آپ شاید میرے یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

سوال: تنوع کے سلسلے میں بات ہو رہی ہے اور آپ کے یہاں لغت نگاری اور علم لغت کے مسائل سے جو دلچسپی ہے، اس کا بھی ذکر آیا، تو میں چاہتا ہوں کہ انہوں نے زبان کے مسائل پر جو گفتگو کی ہے، صفات کے استعمال یا محاوروں کے تعلق سے، تو اس سلسلے میں آپ کے خیالات معلوم کروں۔

شمس الرحمٰن فاروقی: بھائی میں توسمجھتا ہوں کہ وہ دونوں مضمون جو ہیں صفات والا اور محاوروں والا، یہ ایسے مضمون ہیں کہ میرے بس میں نہیں تھے۔ جس عمر میں انہوں نے لکھا ہے اس عمر میں جب میں تھا تو یہ مضمون میرے بس میں نہیں تھے۔ جو بصیرت انہوں نے ان میں ظاہر کی ہے، خاص کر صفات والے مضمون میں، اور یہ دکھایا ہے کہ صفات کا استعمال دراصل کمزوری کی علامت ہے افسانہ نگار کے لیے، کہ وہ شے کو خود سے نہیں بیان کر سکتا، یہ بصیرت بے مثال ہے۔ مثلاً کوئی لکھے کہ صاحب بڑا گرم پانی تھا، ابلتا ہوا پانی تھا، کھولتا ہوا پانی تھا۔ تو ظاہر بات ہے کہ یہ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کے ناکام ہوجانے کا ثبوت ہے۔ کیونکہ اس طرح گرم پانی ہم تک نہیں پہنچتا، بلکہ ہم اسے محسوس ہی نہیں کرتے، صرف ان صفات کو محسوس کرتے ہیں۔

انہوں نے دکھایا ہے کہ صفات کہاں پر کام آتی ہیں۔ داستانوں میں صفات کا استعمال کس طرح سے کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں، اور وہاں وہ کس قدر اثرانگیز ہوتی ہیں۔ یہ سب ایسی باریکیاں ہیں کہ میں تو وہاں تک پہنچنے کا اہل نہیں تھا اگر میں اس زمانے میں اس طرح کا مضمون لکھنے بیٹھتا۔ اب تو خیر میں نے مضمون پڑھ لیا ہے ان کا، دو تین بار پڑھ چکا ہوں۔ میرے بھی فکر کے انداز آگے چل کر کچھ اس طرح کے ہوگئے کہ اب لکھوں تو شاید ممکن ہے میں بھی ایک آدھ جملہ اس طرح کا کہہ سکوں۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ عسکری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ بطور انسانی کارنامے کے، کہ کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس پر انہوں نے کوئی بات کہی ہو اور جو ہمارے لیے اہمیت نہ رکھتی ہو۔ مثلاً ان کو ایک جملے سے بہت بدنام کیا گیا تھا کہ صاحب میں ترقی پسندوں کا پرچہ کیوں پڑھوں کہ دونی میں تو ننگی تصویروں کا رسالہ بھی ملتا ہے۔ ٹھیک ہے، آپ برا مانیے۔ میں خود تو اس طرح کا جملہ نہ لکھوں گا، لیکن اس کے پیچھے جو تھیوری ہے اس پر کسی کی نظر نہیں گئی۔ تھیوری یہ نہیں ہے کہ ترقی پسند لوگ فحش نگار ہیں۔ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ ترقی پسند حضرات قبل از بلوغ کا ذہن رکھتے ہیں۔ امیر آدمی بہت بے ضمیر ہوتا ہے، غریب آدمی بڑا اچھا ہوتا ہے۔ طوائف بچاری سماج کی ماری ہے، ورنہ دراصل ہر طوائف کے اندر ایک ماں چھپی ہوئی ہے۔ ادیب دراصل انقلابی کارندہ ہے، اس کا سروکار الفاظ سے نہیں، اصلاحات سے ہے۔ اس طرح کے معصومانہ موضوعات پر رطب اللسان ہونے میں ترقی پسندوں کو بہت مزہ آتا تھا۔ جو لذت جو کسی نوبالغ یا نابالغ انسان کو فحش تصویروں سے حاصل ہوتی ہے، اس طرح کی لذت اور دلچسپی ترقی پسندوں کو ان سطحی اور simplistic موضوعات میں حاصل ہوتی ہے گویا ابھی وہ ذہنی طور پر بالغ نہیں ہوئے ہیں۔ عسکری صاحب کے بیان کا مطلب دراصل یہ ہے۔

اسی طرح، ان کا یہ قول ہے کہ جب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ زندگی سے بیزار ہیں، غم میں ہیں، یاس میں ہیں، تو مجھے افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ بودلیئر (Baudelaire) کو کیوں نہیں پڑھتے؟ اب ظاہر بات ہے کہ جس نے بودلیئر کا نام ہی نہیں سنا تو پڑھے گا کہاں سے؟ اچھا نام سن لیا تو فرانسیسی آتی نہیں، انگریزی میں پڑھنا پڑے گا۔ اور کوئی ضروری نہیں کہ انگریزی ترجمہ، خواہ وہ نہایت مستند ہو، وہی لطف اور بصیرت افروزی رکھتا ہو جو اصل فرانسیسی میں ہے۔ میں اپنی ٹوٹی پھوٹی فرانسیسی کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر سب نہیں تو بعض نظموں کا پورا لطف ترجمے میں نہیں آسکتا، اور میں نے بودلیئر کے کچھ نہیں تو پانچ سات انگریزی ترجمے ضرور پڑھے ہیں۔

لہٰذا ان کا یہ مشورہ بظاہر نرگسیت کا، یا رعب ڈالنے کی خاطر نام لینے (name dropping) کااظہار معلوم ہوتا ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ میں بھی ایسا جملہ نہ لکھتا۔ لیکن یہاں یہ بات تھی کہ اگر کوئی شخص صبر کرکے دس پانچ صفحے بودلیئر کے بارے میں پڑھ لے، یھر ایک دو نظمیں پڑھ لے، پھر عسکری صاحب کا مضمون پڑھ لے تو اسے پتا چلے گا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ مثلاً بنیادی بات وہ یہ بتارہے ہیں کہ بودلیئر کی پوری شاعری کا جوہر اس کشمکش میں ہے کہ اچھائی کیا ہے اور برائی کیا ہے؟ یعنی وہ رومن کیتھولک ہے اور کیتھولک ہونے کی وجہ سے اس کے یہاں بھی، جس طرح ہمارے مذہب میں ہے، بہت صاف صاف حدیں مقرر ہیں۔ حرام کی، حلال کی، مناسب کی نامناسب کی، اچھے کی برے کی، کفر کی اور ایمان کی۔ تو وہ اس تہذیب میں پلا ہوا ہے اور اس کے عقائد اس کی شخصیت میں پیوست ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ یہ اصول اور یہ نظریات ایسے ہیں جن کو بڑی آسانی سے ردکیا جاسکتا ہے۔ یعنی کسی چیز کو آپ اچھا کہہ رہے ہیں لیکن ممکن ہے کہ دراصل وہ اچھی نہ ہو۔ اور جس تقدس کی تلاش میں آپ دنیا اور تاہل کو تج کر رہبانیت اختیار کرتے ہیں، اسی کے نام پر آپ ’’نسلی صفائی‘‘ (ethnic cleansing) بھی کرتے ہیں۔

بوسنیا (Bosnia) میں، کاسوو (Kosovo) میں، فلسطین میں، تزکیہ? نسل (Ethnic cleansing) آخر مذہب ہی کی تو بنیاد پر عمل میں لایا گیا ہے۔ اور ان سے بھی بہت پہلے صلیبی جنگوں میں آپ دیکھ رہے ہیں صلیبیوں کو، کہ وہ مسلمان بچوں کو سنگینوں کی نوک پر رکھ کر ان کو بھون کر کھا رہے ہیں، مفتوح شہر کے شہر تاراج کیے جارہے ہیں، اور ان کے باسیوں میں مسلمان بھی ہیں اور عیسائی بھی۔ جس سچائی کے تحت آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس پر اعتقاد اور عمل کے ذریعہ ہماری زندگی سکون اور اطمینان کے ساتھ گزرسکتی ہے اور ہم مستحق ہوں گے اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کے، اسی سچائی کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ اس کے نام لیوا جب کسی غیرملک میں پہنچتے ہیں اور فتح مند ہوتے ہیں تو وہاں کے بچوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جو میں نے بیان کیا۔

توبودلیئر کے یہاں یہ dilemma ہے کہ وہ کس کو اچھا کہے اور کس کو برا کہے؟ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ اچھی چیزیں بھی بری ہوں اور بری چیزیں بھی اچھی ہوں۔ بدصورتی میں بھی حسن ہوسکتا ہے۔ مثلاً وہ زمانہ نسلی امتیاز اور قومی تفوق میں یقین رکھنے کا زمانہ تھا۔ یہ خیال بہت عام تھا کہ کالے لوگ ذہنی طور پر کم تر ہوتے ہیں۔ روحانیت ان میں ہوتی ہی نہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ جانوروں میں نہیں ہوتی ہے تو اسی طرح سارے کالے لوگوں میں نہیں ہوتی ہے۔ لیکن بودلیئر کی معشوقہ کالی ہے، اس کے بارے میں وہ نظم لکھتا ہے اور اس کو بتاتا ہے کہ تو دیونی ہے، قوت اور پناہ کی سرچشمہ ہے، اور میں تیرے سائے میں بیٹھا ہوا ہوں۔ یعنی اس طرح سے وہ اپنے زمانے کی تعصباتی نظر کو مسترد کرکے نئی نظر سے دنیا کو دیکھنا چاہتا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی کشمکش یہی ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس کو ہم برا کہتے ہیں اس میں بھی اچھائی ہو، یا جسے ہم اچھا کہتے ہیں تو اس میں بھی برائی ہو۔ تو اس لیے عسکری صاحب کہتے ہیں کہ جب میں اپنے زمانے کے لوگوں کو یاس و حرماں میں دیکھتا ہوں، زندگی سے بیزار اور گھبرایا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھے افسوس ہوتا ہے کہ لوگ بودلیئر کو نہیں پڑھتے، کیونکہ بودلیئر ان کی اپنی زبان میں گفتگو کرتا ہے اور ان کو بتاتا ہے کہ یہ ہے مسئلہ زندگی کا۔

چنانچہ وہ اپنی مشہور نظم To the Reader میں قاری سے کہتا ہے کہ اے میرے ریاکار قاری، تیری اور میری نوع ایک ہی ہے، تو میرا بھائی ہے،

O hypocritical reader, my fellow-man and brother!

جب شاعر اپنے قاری کو اپنا بھائی بھی بتاتا ہے اور پھر ریاکار بھی کہتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس میں کئی پہلو ہیں کہ میں خود ریاکار ہوں کہ تجھے اپنا بھائی کہہ رہا ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تو میرا بھائی ہے اور میرا قاری ہے۔ یعنی قاری اور شاعر ایک ہی ہیں۔ اور ایک پہلو یہ ہے کہ تو ریاکار ہے جو میری نظم کو اچھا کہہ رہا ہے۔ کیونکہ تو اور میں دونوں ایک ہیں، اچھے بھی ہیں اور برے بھی۔ یا پھر یہ کہ خود پڑھنے کا عمل ایک طرح کی ریاکاری ہے۔ تو یہ سب نکات تھے عسکری صاحب کے جن کی بنا پر انہوں نے کہا کہ کاش لوگ بودلیئر کو پڑھتے۔ اب آپ اسے عسکری صاحب کی کمزوری کہہ سکتے ہیں کہ وہ شاعری، اور خاص کر درون بیں، استعاراتی شاعری کے اس قدر دلدادہ تھے۔ لیکن وہ ایسی بڑی گہری گہری باتیں چلتے پھرتے کہہ دیا کرتے تھے۔ آپ کو اس کے مضمرات معلوم ہیں تو بڑی اچھی بات ہے۔ اگر نہیں معلوم ہے تو ڈھونڈ لیجیے، اگر ڈھونڈ سکتے ہیں۔ لیکن آپ نہ جانیں اور ڈھونڈ بھی نہیں سکتے تو برابھلا ہی کہیں گے کہ صاحب دیکھیے ہم کو مرعوب کر رہے ہیں۔ یہ ایسی باتیں بتارہے ہیں، پتا نہیں کہاں سے ایسی باتیں لاتے ہیں۔

تو یہ معاملہ تھا دراصل کہ عسکری صاحب کا کوئی جملہ ایسا نہیں ہے جس میں کوئی باریک فکر نہ ہو۔ مثلاً انہوں نے مجھے ایک خط میں لکھا کہ بھائی اب تک بیدل کی دوغزلیں میرے پلے پڑی ہیں۔ اب بتائیے، فارسی آپ خوب پڑھے ہوئے ہیں۔ عربی آپ جانتے ہیں۔ فرنچ آپ بے حد و حساب جانتے ہیں، انگریزی کے آپ عالم ہیں، اور اردو کے تو خیر آپ بڑے نقاد ہیں ہی۔ اب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ بیدل کی دو ہی غزلیں میری سمجھ میں اب تک آئی ہیں۔ تو آپ محض نقش مار رہے ہیں، یا پھر ظاہر ہے کہ کوئی نکتہ ہے اس بات میں۔ لیکن نقش مارنے کا فیصلہ کرنے کے پہلو غور کرلیں کہ کوئی نکتہ تو اس بات میں پوشیدہ نہیں ہے؟

اب غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ نکتہ یہی ہے کہ جو شخص مشرقی تصورات عشق اور تصوف اور شعریات سے پورے طور پر واقف نہ ہو، اسے صحیح معنی میں بیدل کا شارح نہیں کہہ سکتے۔ یوں تو بیدل کا کوئی شعر آپ لے لیجیے، مطلب میں بتادیتا ہوں آپ کو۔ لیکن اس کے پیچھے جو نظام فکر ہے، اس نظام فکر کو پورے طور سے سمجھنا چیزے دیگراست۔ اچھا اس سے پہلے عسکری صاحب کہہ چکے ہیں کہ والیری کی ایک نظم اور ملارمے کی دولائنیں ہی میری سمجھ میں آسکی ہیں۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ اس شاعری کے پیچھے جو تہذیبی اور علامتی نظام ہے، اس نظام کو پہلے سمجھوں تب جاکر میں سمجھوں گا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔

لیکن ہم اردو کے نقادوں کا رنگ ہی دیگر ہے۔ ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے عام طور پر کہ جب تنقید لکھنے بیٹھیے تو تعریف کیجیے کہ شعر کیا ہے۔ اس کے لیے ایک قول کہیں سے لے آئے، ایک اور کہیں سے۔ اس میں یہ نہیں دیکھا کہ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا تو نہیں ہو رہا ہے؟ کوئی اس میں فرانسیسی ہے، کوئی روسی ہے، کوئی انگریز ہے۔ سب کو ملاکر رکھ دیا کہ فلاں یہ کہہ رہا ہے، فلاں یہ کہہ رہا ہے۔ بغیر ان میں کسی قسم کا تقابل قائم کیے یا یہ دیکھے بغیر کہ کون کس فکر کے نظام سے کہہ رہا ہے۔ اب جس چیز کو ارسطو بیان کر رہا ہے یہ وہ چیز نہیں ہے جس کو مثلاً الیٹ بیان کرتا ہے۔ دونوں کو اکٹھا کردینا اور ان کا فرق نہ بیان کرنا دانش مندی نہیں۔ آپ فرق واضح نہیں کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ دونوں سے بے خبر ہیں۔ نہ الیٹ کو سمجھتے ہیں نہ ارسطو کو۔ ہمارے یہاں کی نظری تنقید اکثر و بیشتر صرف قینچی اور گوند (cutting and pasting) کا معاملہ ہے۔ داخلی ربط تو بڑی بات ہے، ظاہری ربط بھی مفقود ہوتا ہے۔ اور جب نظریہ درست نہ ہوگا، Theory ہی درست نہ ہوگی تو تنقید کیا ہوگی، ٹیڑھی میڑھی، کانی بوچی ہی تو ہوگی۔ تو عسکری صاحب ان سب معنوں میں کہا کرتے تھے کہ میں سمجھا نہیں ہوں ابھی، سمجھنے کی منزل میں ہوں۔ یعنی میں ابھی اس پورے نظام فکر اور شعریات کو سمجھنے کی فکر میں ہوں، سمجھ لوں تب جاکر اس شاعری کی فہم کا حق ادا ہوگا۔ (جاری ہے)

حصہ