قیصرو کسریٰ قسط(89)

342

عاصم ایک ثانیہ کے لیے اُن کے قریب رُکا اور پھر دوسرے لوگوں کی طرح بے پروائی سے آگے چل دیا۔ لیکن تھوڑی دُور آگے جانے کے بعد اُس نے مُڑ کر دیکھا تو بورھا زمین پر بیٹھا ہوا تھا اور لڑکی اُس کا بازو کھینچ کر اُتھانے کی کوشش کررہی تھی، بوڑھا بادل ناخواستہ اُٹھا، لیکن اُس کی ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ عاصم چند ثانیے تذبذب کی حالت میں کھڑا رہا، پھر اچانک بھاگ کر اُن کے قریب پہنچا۔ ’’میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں‘‘۔ اُس نے کہا۔ اور پیشتر اِس کے کہ وہ کوئی جواب دے سکتے اُس نے عمر رسیدہ آدمی کو اُٹھا کر اپنے کندھے پر ڈال لیا… کچھ دیر بھاگنے کے بعد وہ ایک تھکے ہوئے گھوڑے کی طرح ہانپ رہا تھا اور اُس کا چہرہ پسینے سے شرابور ہوچکا تھا۔ تاہم اُس کی رفتار ایسی تھی کہ لڑکی بڑی مشکل سے اُس کا ساتھ دے رہی تھی۔

پھر جب وہ شہر سے کوئی دو سو قدم کے فاصلے پر تھے تو پیچھے آنے والوں کی چیخیں سنائی دینے لگیں۔ عاصم نے مڑ کر کر دیکھا تو اُسے سیتھین سواروں کی ایک ٹولی دکھائی دی۔ وہ اپنی رہی سہی قوت بروئے کار لاتے ہوئے بھاگا۔ دروازے کے سامنے اور فصیل کے اوپر چند سپاہی شور مچا رہے تھے، سیتھین آگئے، بھاگو! جلدی کرو!!

دروازے میں داخل ہوتے وقت عاصم اپنے پیچھے آنے والوں کی چیخوں کے ساتھ گھوڑوں کی ٹاپ سن رہا تھا۔ اُس نے جلدی سے بوڑھے کو نیچے اُتارا اور نڈھال سا ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ عاصم کے بعد پچاس ساٹھ افراد سے زیادہ اندر داخل نہ ہوسکے۔ اس کے بعد دشمنوں کے سوار اِس قدر قریب آچکے تھے کہ پہریدار دروازہ بند کرنے پر مجبور ہوگئے۔

عاصم چند ثانیے ستانے کے بعد اپنا پسینہ پونچھتا ہوا اُٹھا اور کسی توقف کے بغیر فصیل کے زینے پر چڑھنے لگا۔ اوپر جا کر اُس نے ایک دلخراش منظر دیکھا۔ سیتھین سوار جن کی تعداد پچاس ساٹھ سے زیادہ نہ تھی دروازے کے آس پاس لاشوں کے انبار لگانے کے بعد قیدیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے واپس جارہے تھے۔ اُس نے ایک نوجوان سے جو پہریداروں کا افسر معلوم ہوتا تھا مخاطب ہو کر کہا۔ ’’اگر تم لوگ اپنے تیروں کے استعمال میں بخل سے کام نہ لیتے تو کئی اور آدمیوں کی جان بچ سکتی تھی۔ اور تمہیں دروازہ بند کرنے کی بھی ضرورت نہ تھی، یہاں سے دس اچھے تیر انداز اُس کی پیش قدمی روکنے کے لیے کافی تھے‘‘۔

’’آپ کون ہیں‘‘۔ رومی افسر نے سوال کیا۔
’’میں ایک اجنبی ہوں‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر نیچے اُترا آیا۔

عمر رسیدہ آدمی نے اُسے دیکھتے ہی کہا۔ ’’اگر میری نگاہیں مجھے دھوکا نہیں دیتیں تو تم وہی ہو، جس نے قیصر کو اِس حملے کے متعلق خبردار کرنے کی کوشش کی تھی‘‘۔

’’جی ہاں میں وہی ہوں،‘‘ عاصم نے مغموم لہجے میں جواب دیا۔
پہریداروں کا افسر فصیل کے زینے سے نمودار ہوا اور اُس نے بوڑھے کو ادب سے سلام کرتے ہوئے کہا۔ ’’جناب مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن نے شہر پر حملہ کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا ہے لیکن جو بدنصیب شہر سے باہر ہیں اُن میں سے شاید ایک بھی زندہ واپس نہ آسکے۔ انہیں ٹھکانے لگانے کے بعد شاید سیتھین پوری قوت کے ساتھ شہر پر حملہ کریں گے‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’ایک اجنبی کو آپ کے معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ خاقان کے لشکر کی منزل قسطنطنیہ ہے، یہ شہر نہیں۔ اگر اِس شہر پر قبضہ کرنے کی خواہش ہوتی تو اِس طرف صرف پچاس، ساٹھ سوار بھیجنے پر اکتفا نہ کرتا‘‘۔

بوڑھے نے کہا۔ ’’اگر ہرقلیہ پر حملہ نہ ہوا تو میں اسے قدرت کا ایک معجزہ سمجھوں گا۔ یہاں اب خالی دیواروں کے سوا اُن کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں۔ نوجوان میں اِس شہر کا منصف ہوں۔ اور تاتاریوں کے خوف سے میرے اپنے نوکر میرا ساتھ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ میں تم سے پوچھ سکتا ہوں، کہ تم نے میری جان بچانے کی کوشش کیوں کی تھی؟‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’مجھے معلوم نہیں، شاید آپ کی بیٹی کی ہمت دیکھ کر میرا ضمیر بیدار ہوگیا تھا‘‘۔

شہر کے حاکم نے کہا۔ ’’اب میں ایک اور سوال پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں تمہاری کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ تمہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اِس شہر کے باشندے زندگی کی نسبت موت سے زیادہ قریب ہیں، تاہم جب تک دشمن کی تلواریں ہماری گردنوں تک نہیں پہنچتیں تم ہمارے مہمان ہو اور ہم اپنی بیچارگی کے احساس کو میزبانی کے فرائض میں حائل نہیں ہونے دیں گے‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’میری منزل مقصود قسطنطنیہ ہے لیکن اپنے گھوڑے سے محروم ہونے کے بعد میں یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ اب اگر آپ میرے لیے ایک گھوڑے کا بندوبست کرسکیں تو میں کسی تاخیر کے بغیر یہاں سے روانہ ہوجائوں گا‘‘۔

’’گھوڑے کے متعلق تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں تمہارے لیے ہرقلیہ کا رُخ کرنا یہاں ٹھہرنے سے کم خطرناک نہیں ہوگا‘‘۔

’’جناب وہاں ایک دوست میرا انتظار کررہا ہے اور مجھے مصیبت کے وقت اُس سے دور رہنا نہیں‘‘۔

’’بہت اچھا تمہارے لیے گھوڑے کا انتظام کردیا جائے گا، لیکن تمہارے لیے دن کی روشنی میں سے رات کی تاریکی میں سفر کرنا زیادہ بہتر ہوگا، کم از کم اچانک کسی گروہ کے ساتھ تصادم کی صورت میں ہمارے بچ کر نکل جانے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ اگر سیتھین لشکر نے پلٹ کر شہر کا محاصرہ نہ کرلیا تو تمہیں رات ہوتے ہی روانہ کردیں گے۔ اور میں یہ کوشش کروں گا کہ کوئی باہمت جوان تمہارا ساتھ دینے پر آمادہ ہوجائے‘‘۔

شہر سے باہر کھیلوں کے میدان کے آس پاس چند شدید جھڑپوں کے بعد رومی دستے پسپا ہوگئے لیکن خاقان نے قیصر کو پکڑنے کی نیت سے اُن کا تعاقب جاری رکھا۔ خاقان کے حکم سے پیچھے رہ جانے والے چند رومیوں نے شہر سے باہر لوٹ مار کرنے اور ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرنے کے بعد ہرقلیہ پر دھاوا بولنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔

غروب آفتاب سے کچھ دیر بعد جب وہ لوگ جو اِدھر اُدھر چھپ کر تاتاریوں کے ہاتھوں قید یا قتل ہونے سے بچ گئے تھے، وہ واپس آرہے تھے تو عاصم اور اُس کے ساتھ ایک رومی گھوڑوں پر سوار ہو کر قسطنطنیہ کی طرف چل پڑے۔

مرقس، کلاڈیوس اور ولیریس مغموم صورتیں بنائے ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جولیا عقبی دروازے سے اندر داخل ہوئی اور اُس نے کہا۔ ’’انطونیہ نے کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اب اُسے تسلی دینا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اگر عاصم کے متعلق کوئی اطلاع مل جاتی تو شاید اُسے تھوڑا بہت قرار آجاتا۔ آج وہ اپنے باپ کی بجائے اُس کے لیے زیادہ روتی ہے۔ میں نے اُسے بہت سمجھایا ہے کہ وہ زندہ ہے، لیکن وہ بار بار یہی کہتی ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتا تو میرے باپ کی قبر پر مٹی ڈالنے کے لیے ضرور پہنچتا۔ آج وہ صرف عاصم کا گھوڑا دیکھنے کے لیے اصطبل تک گئی تھی‘‘۔

ولیریس نے کلاڈیوس سے مخاطب ہو کرکہا۔ ’’اگر وہ واپس نہ آیا تو میں مرتے دم تک اپنے آپ کو قابل معافی نہیں سمجھوں گا۔ وہ یقیناً اپنے گھوڑے کی تلاش میں گیا ہوگا اور جب اُسے یہ پتا چلا ہوگا کہ میں اُس کا گھوڑا لے گیا ہوں تو اُس نے یہی سمجھا ہوگا کہ میں اُسے موت کے منہ میں چھوڑ کر بھاگ گیا ہوں۔ وہ اُن آدمیوں میں سے نہیں تھا جو موت سے ڈرتے ہیں۔ اُس نے یقیناً ایک بہادر آدمی کی طرح جان دی ہوگی۔ لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر میں اُس کی جگہ ہوتا تو اُس بے بسی کی حالت میں میرے دل پر کیا گزرتی۔ کلاڈیوس، تمہیں یقین نہیں آئے گا، لیکن میں نے آخری وقت تک اُسے تلاش کیا تھا۔ میں نے بھاگنے سے قبل دوبارہ اپنے خیمے کا رُخ کیا تو مجھے اس بات کی پروا نہ تھی کہ دشمن کا ایک دستہ میرے پیچھے ہے۔ پھر چاروں طرف سے مایوس ہو کر جب میں اپنا گھوڑا چھوڑ کر اُس کے گھوڑے پر سوار ہوا تھا تو اُس وقت بھی میری نیت یہی تھی کہ اگر وہ مجھے کسی جگہ نظر آگیا تو میں بلاتوقف اُس کا گھوڑا اُس کے حوالے کردوں گا، لیکن اب شاید کوئی اِس بات پر یقین نہ کرے۔ اب اگر عاصم بھی زندہ واپس آجائے تو وہ بھی شاید یہی کہے گا کہ میں نے اپنی جان بچانے کے لیے ایک دوست کا تیز رفتار گھوڑا ہتھیا لیا‘‘۔

مرقس نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا وہ ایک شریف آدمی تھی اور ایک شریف آدمی بدترین حالات میں بھی اپنے دوستوں کے متعلق اِس قسم کی بدگمانیاں نہیں کیا کرتا۔ تم سے یہ غلطی ضرور ہوئی کہ تم اُسے بتائے بغیر اُس کا گھوڑا لانے چلے گئے تھے لیکن اِس قسم کی غلطیاں ہم سب کرتے ہیں۔ جب قیصر یہاں سے روانہ ہوا تھا تو یہ کون کہہ سکتا تھا کہ خاقان کے ساتھ اُس کی ملاقات کے بعد ہم ہرقلیہ سے لے کر قسطنطنیہ کی چار دیواری تک رومیوں کی لاشوں کے انبار دیکھیں گے اور وہ ہماری لاکھوں (گبن کے بیان کے مطابق آوار قبائل قسطنطنیہ کی چار دیواری تک مار دھاڑ کرنے کے بعد دو لاکھ ستر ہزار رومیوں کو غلام بنا کر دریائے ڈمینوب کے پار لے گئے تھے۔) عورتوں اور بچوں کو غلام بنا کر لے جائیں گے۔ ہم امن کے متعلق کبھی اتنے پُراُمید نہیں ہوئے تھے اور ہم نے کبھی اس قدر تباہی کا سامنا نہیں کیا تھا۔ اگر ہم تمہاری طرح سوچیں تو ہرقل سے کہیں زیادہ مجھے اور میرے بیٹے کو اِس تباہی کی ذمہ داری قبول کرنی پڑے گی۔ اگر کلاڈیوس خاقان کے پاس نیک توقعات لے کر نہ جاتا تو ہم پر یہ مصیبت نہ آتی، اگر میں قسطنطنیہ کے اکابر اور سینٹ کے ارکان کو ہرقلیہ جانے کی ترغیب نہ دیتا تو وہ اس طرح ہلاک نہ ہوتے، لیکن کوئی انصاف پسند آدمی ہم پر بدنیتی کا الزام عائد نہیں کرسکتا‘‘۔

کلاڈیوس نے مغموم لہجے میں کہا۔ ’’لیکن ابا جان ہمارا معاملہ ولیریس سے مختلف ہے۔ آج قسطنطنیہ کا کوئی آدمی ایسا نہیں جو مجھے اِس تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتا۔ کل سینٹ کا اجلاس ہورہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہاں سب سے زیادہ نکتہ چینی مجھ پر ہوگی۔ قیصر نے وہاں مجھے انعام دینے کے لیے نہیں بلایا، بلکہ اُن لوگوں کی گالیاں سننے کی دعوت دی ہے جو کل تک مجھے اپنا محسن سمجھتے تھے۔ ابا جان میں مستعفی ہونے کا فیصلہ کرچکا ہوں۔ اب میرے لیے قیصر کے سامنے یہ اعلان کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا کہ میں کسی ذمے داری کا بوجھ اُٹھانے کا اہل نہیں ہوں‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ