علوم دینیہ:اہمیت ،نفوذ ،اثرات جامعۃالحرمین کا اہم مشن

554

ہر سال رجب و شعبان میں ملک بھر کے دینی مدارس میں درسی سال کی تکمیل ہوتی ہے اور متعلقہ تدریس یعنی ناظرہ، حفظ ، درس نظامی ، تخصص، ختم بخاری و دیگر کی تقاریب اسناد اور دستار بندی منعقد ہوتی ہیں۔ ان تقریبات کو اسکولوں، یونیورسٹیوں کی کسی فیئر ویل یا سالانہ فنکشن یا کانووکیشن سے جوڑنا درست نہیں ہوگا کہ دونوں میں کافی تہذیبی اور جوہری فرق ہوتا ہے۔ ان تقاریب کو حقیقی معنوں میں ’’روح پرور‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جوہری اعتبار سے دیکھا جائے تو اسکول،کالج ، جامعات کی تدریس کے پیچھے مادیت، پروفیشنل ازم، معاش، کیرئیر، نوکری، کاروبار، دنیا پرستی کا تصور جڑا ہوتا ہے۔ دوسری جانب دینی مدارس کی سند کے پیچھے حصول علم بطور دینی فرض کی ادائیگی مطلب رضائے اِلٰہی یا حفظ قرآن و ناظرہ قرآن کے پیچھے صرف اور صرف رضائے رب کا غیر مادّی ، غیر دنیاوی، اُخروی فلاح سے وابستہ ہوتا ہے۔ ہماری دینی و تہذیبی روایات کو فروغ دیتی یہ تقریبات صرف سند کے حصول کے لیے نہیں ہوتی۔ویسے اساتذہ سے تدریس کی سند کا تعلق اہل حق میں روایتی طور پر موجود رہا ہے اور غلبہ باطل میں یہ اداروں کو منتقل ہوا ہے،مگر اس عمل نے ابھی زیادہ بڑی ضرب نہیں لگائی ہے۔

ایسی ہی ایک تقریب کراچی کے علاقے پی ای سی ایچ ایس بلاک 6 میں واقع جامعۃ الحرمین میں منعقد ہوئی۔ مدیر جامعہ‘ شیخ الحدیث مولانا عطاء الرحمن نے خوب صورت ، باوقار دعوت نامے بھیج کر مہمانوں کو مدعو کیا۔ تقریب کی صدارت شیخ الحدیث و صدر رابطہ المدارس مولانا عبدالمالک نے کی۔ ان کے ساتھ صدر حرمین مساجد و مدارس سیف الدین ایڈووکیٹ بھی موجود تھے۔ تقریب میں شریک مہمان مدیر جامعہ اسلامیہ مینگل آباد ،شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل اور مولانا صفی اللہ مدیر جامعہ پنج گور سے بھی شریک تھے۔ دینی مدارس کی روایتی تقریب کے حوالے سے مولانا محمد اسماعیل نے بتایا کہ اُن کی جامعہ میں بھی اس ہفتے سالانہ تقریب ہے، جس میں مقامی طلبہ کے علاوہ سابق طلبہ کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے جو 2006 سے اب تک فارغ ہوئے ہیں۔ صرف سابق طلبہ خود ہی نہیں بلکہ اپنے والد ، بھائیوں کو بھی ساتھ لاتے ہیں۔ یہ صرف اُن طلبہ کی اپنی درس گاہ سے محبت، اساتذہ سے بے لوث عقیدت ہوتی ہے کہ وہ اپنی مصروفیت کے باوجود سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے شرکت کے لیے آتے ہیں۔ مولانا اسماعیل نے بتایا کہ اب ان سابقین کی تعداد اتنی ہو چکی ہے کہ ایک دن قبل سابقین کے لیے الگ پروگرام کرنا پڑتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہ مدارس ہیں جن کے بارے میں لبرل و ماڈرنسٹ لابیاں کہتی ہیں کہ ان کا طریقہ تدریس ’’وحشیانہ اور پُرتشدد ‘‘ہوتا ہے۔ مگر حیرت انگیز بات ہے کہ اتنے ’’تشدد‘‘کے بعد بھی وہ طلبہ د س‘ دس سال بعد بھی حفظ مراتب کا سبق دہراتے ہوئے استاد کے سامنے سر جھکائے نظر آتے ہیں۔ یہ ہے اقداری علم کے اثرات۔ دوسری جانب ’اقتداری علم‘ کا کمال یہ ہے کہ وہاں کے سابق طلبہ بعد میں اِدارے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔

جامعہ الحرمین مقامی آبادی یعنی پی ای سی ایچ ایس کے بچوں کو قرآن مجید کے حفظ و ناظرہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک الگ شعبہ تربیت بھی رکھتی ہے جہاں ہر ہفتہ شعبہ حفظ کے طلبہ کے لیے قرآن فہمی و دین فہمی کے لیے خصوصی کلاسز و سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ دو سال کا یہ تخصص ہوتا ہے جس میں پہلے سال تدریس ہوتی ہے دوسرے سال تحقیقی مقالہ جمع کرانا ہوتا ہے۔ تخصص کے اساتذہ میں مولانا زرمحمد، علامہ وسیم رضا ماتریدی، ڈاکٹرحیات محمد، مفتی مصباح اللہ صابر، کاشف شیخ، مولانا عطا الرحمن شامل ہیں جو اِفتاء، فقہ، حدیث، تفسیر، تقابل اَدیان، تفہیمِ مغرب، علم میراث، علم کلام اور عقائد سے متعلق اپنا علم منتقل کرتے ہیں۔

70طلبہ نے امسال تخصص مکمل کیا ، اس میں ملک بھر سے کشمیر، وادی نیلم ، پنجا ب، سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے طلبہ کی نمائندگی تھی۔ تخصص کرنے والے مفتیانِ کرام کے لیے صبح11بجے فضلا کانفرنس رکھی گئی جس کی نظامت مفتی مصباح اللہ صابر نے کی۔ مفتیان کرام نے اپنے تعارف و احساسات بتاتے ہوئے شکر اور خوشی کے جذبات کا اظہار کیا۔ نمائندہ جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم معاشرے میں فرقہ بندی، مغربیت کے خاتمے اور علما کے مقام کی بحالی میں اَپنا کردار ادا کریں گے۔ مفتی عطاالرحمن نے ملک بھر سے تخصص کرنے والے طلبہ کی شرکت پر ان کی حوصلہ افزائی کی اور اہم معاشرتی ذمہ داری کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام کو نقطۂ نظر کی بحث میں الجھا کر ہر چیز کو مباحث کا موضوع بنایا جا رہا ہے، جب کہ ہم جانتے ہیں کہ دین میں صرف حکم ہوتا ہے اور پھر عمل ہوتا ہے۔ مغربی جدلیات میں ڈھالنے کے لیے سب کو مباحث، وجوہات ، مسلسل تحقیق اور اسلامی متن کو واقعاتی حقیقت کے تابع کرکے مستقل گمراہ کیا جا رہا ہے۔

تقریب میں 20 حفاظ قرآن بچوں کو 27 ناظرہ قرآن مکمل کرنے والے بچوں میں دستار، جبہ، سند اور شیلڈ بھی تقسیم کی گئیں، جس کا مقصد حوصلہ افزائی یاد دہانی اور پذیرائی ہوتا ہے تاکہ اْن کو اپنے مقام کا احساس رہے۔

سالانہ تقریب کے دیگر مہمانان میں جامعہ مینگل آباد سے مولانا اسماعیل،جامعہ الفلاح سے مفتی علی زمان کا شمیری نے بھی خطاب کیا۔ ان کے علاوہ جامعہ اخوان سے مولانا عبدالوحید، جامعہ حنفیہ سے مفتی معراج ، جامعہ نعمان سے حبیب حنفی سمیت اہل علاقہ کی بڑی تعداد شریک تھی۔ تقریب سے صد ررابطتہ المدارس مولانا عبد المالک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کو اپنا دستور عمل بنانا ہوگا، اپنے شعبہ زندگی میں قرآنی رہنمائی کا علم ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جس طرح ’’دینی متن‘‘ کو ہر چند سال بعد سائنسی بنیادوں، جدید دور کے مطابق من پسند تشریح میں ڈھالا جا رہا ہے تو یہ سوال ازخود پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے کتاب اللہ کی حقانیت کیا باقی رہ جاتی ہے؟جو آپ مستقل بدلے جا رہے ہو۔ کیوں آپ کو مستقل نئی نئی چیزیں دین میں لانی پڑرہی ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے علما کو اس محاذ پر عقیدہ کی پختگی کے ساتھ تیار کیا جائے۔

نائب قیم جماعت اسلامی پاکستان اور ڈائریکٹر ادارہ معارف اسلامی حافظ ساجد انور نے ملک بھر سے آئے مفتیان کرام سے خطاب میں کہا کہ الحادی تصورات کے مقابلے میں اسلامی علمیت کو فروغ دینا ہمارے لیے اہم ترین کام ہے۔ سالانہ تقریب میں شریک امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی نے کہا کہ ترک قرآن سے پوری امت جن مسائل کا شکار ہے، اس کا حل بھی قرآن سے جڑنے میں ہے۔ معیشت کی تباہی کی وجوہات کا ذکر کتاب اللہ میں ہماری رہنمائی اور عبرت کے لیے ہے۔ سودی معیشت اور باطل نظام سے نکلنے کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مغرب کو اسلامائز کرنے کے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے علمائے حق کی تیاری ہمارا اوّلین مقصد ہونا چاہیے۔

امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبد الحق بلوچ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ختم قرآن کی تقریبات خود ایک معجزہ کے مانند ہیں کہ ہر سال ملک بھر میں لاکھوں بچے دلوںمیں اللہ کا کلام محفوظ کرتے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی ضلع قائدین سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ نئی نسل کو فرقہ پرستی سے بچا کر قرآن مجید سے جوڑنا اس کی تعلیمات کے مطابق فیصلے کرنا ہی ہمارا مشن ہے۔ مولانا شمشیر شاہد، منتظم اعلیٰ جمعیت طلبہ عربیہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دین کا اصل مقصد ہدایت ہے، اسلامی علمیت میں علما کا قول و عمل اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ امت کی تقدیر اِن سے بگڑتی و سنورتی ہے۔ استعماری دور علما وقاضی حضرات کا مقام چھین کرمغربی علمیت کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل کرنے کا خطرناک کام کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جدیدیت کے فتنے کو سمجھ کراپنے منہج میں اس کا رد کریں ۔

حصہ