نیا نیا جوش، نئے نئے بزنس

348

آج کل ’اسٹارٹ اپ‘ اور ’شارک ٹینک‘ جیسے ریئلٹی شو نئی نسل کے لیے مستقبل سے متعلق خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے معاملے میں امید کے چراغ کی حیثیت کے حامل ہیں۔ کارکردگی کے حوالے سے اب اسٹارٹ اپ کی اصطلاح کا استعمال فیشن بن چکا ہے۔ ہمارے ہاں ایک زمانے سے چھوٹے اور درمیانی سطح کے کاروبار چلائے جاتے رہے ہیں۔ حالات کے تقاضوں کے مطابق تھوڑی بہت تبدیلیاں بھی کی جاتی رہی ہیں تاکہ اشیاء و خدمات کی فراہمی کے حوالے سے طلب کے مطابق کام کیا جاسکے۔ اُن لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ اسٹارٹ اپ اور شارک ٹینک وغیرہ کیا ہے۔ یہ تصورات اُس وقت تھے ہی نہیں۔ اگر ہوتے تو وہ بھی بیرونی سرمایہ کاری یقینی بنانے کے حوالے سے تجاویز پیش کرتے، مارکیٹ میں نئے آئیڈیاز لاتے اور اپنے آپ کو زیادہ بارآور ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ عالمی رجحانات سے نابلد رہنے، یا پھر منصوبہ سازی کی تکنیک نہ جاننے کے باعث گزرے ہوئے زمانوں کے بہت سے کاروبار یا تو ناکام رہے یا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محدود سے محدود تر ہوتے گئے اور پھر بند ہی ہوگئے۔

اسٹارٹ اپ کی اصطلاح 1976ء میں معروف جریدے ’فوربس‘ اور 1977ء میں معروف جریدے ’بزنس ویک‘ نے عام کی تھی۔ اسٹارٹ اپ سے مراد ایسا کاروبار تھا جس کا خیال پہلے پہل کسی فرد یا گروپ کو آیا ہو اور اُس نے مہم جُوئی کے طور پر کام شروع کیا ہو۔ اسٹارٹ اپ کی اصطلاح ابتدا میں ہر ایسے کاروبار کے لیے استعمال ہوتی تھی جس میں خطرات بھی بہت ہوں اور منافع کمانے کی گنجائش بھی کم نہ ہو۔ ایسے کسی بھی کاروبار میں ٹیکنالوجی کی بھی غیر معمولی اہمیت ہوتی ہے اور جوش و جذبے کی بھی کم وقعت نہیں ہوتی۔ کسی بھی اسٹارٹ اپ بزنس کا پہلا خواب یونی کارن کمپنی میں تبدیل ہونے کا ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک کی نئی نسل، ٹیکنالوجی اور تعلیم کے شعبوں میں برتری کے حوالے سے نئی صدی میں مجموعی کیفیت کیسی ہوگی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اُس ملک میں یونی کارن کمپنیاں کتنی ہیں۔ ایک ارب ڈالر کی مالی وقعت کی حامل کمپنی یونی کارن کہلاتی ہے۔ بارہویں صدی تک یونانی اور فرانسیسی زبانوں کی لغات میں سینگ رکھنے والے ایک قوی الجثہ جانور ’’مونوسیروس‘‘ کو یونی کارن بھی کہا جاتا تھا۔

کیلی فورنیا (امریکا) کے علاقے پالو آلٹو کاؤ بوائے وینچر کمپنی کی وینچر کیپٹلسٹ ایلین لی نے 2013ء میں نئی نسل کو یہ تصور دیا کہ ایک ارب ڈالر کی مالی وقعت رکھنے والی کمپنی قائم کرو اور یونی کارن کہلاؤ۔ ابتدا میں گوگل، فیس بک، ایس بی این بی، وڈیو گیم کمپنی ایپک گیم، فن کمپنی رابن ہڈ وغیرہ یونی کارن تھیں۔ جو اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ نہ ہوں اُن کمپنیوں کو بھی ایک ارب ڈالر کی مالی وقعت کی بنیاد پر یونی کارن کہا گیا۔

آج دنیا بھر میں دو ہزار سے زائد یونی کارن کمپنیاں ہیں جو منفرد آئیڈیاز کے ساتھ دنیا کو اکیسویں صدی کے اختتام تک اتنا بدل دینا چاہتی ہیں کہ لوگ پہچان کر بھی نہ پہچان پائیں۔ ان کمپنیوں کو غیر معمولی سرمایہ کاری کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مستقبل سے متعلق خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے عزم کے ساتھ میدان میں اُترنے والی ان کمپنیوں میں بیشتر ابتدائی مرحلے میں یا تو بالکل منافع نہیں کما پاتیں یا پھر برائے نام منافع کماتی ہیں۔ پنپنے کے عمل میں غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔

فیس بک اور اوبر بالکل الگ شعبوں کے کاروبار ہیں، تاہم اِن کا ماڈل ایک تھا۔ آپ ریسٹورنٹ یا ٹرانسپورٹ کا دھندا کریں تو یہ اسٹارٹ اپ نہیں، لیکن اگر بیس پچیس سال بعد کی ضرورتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کاروبار کا خاکہ تیار کریں اور متوقع سرمایہ کاروں کے سامنے رکھیں تو اِسے کہا جائے گا اسٹارٹ اپ۔

پیٹرول کا متبادل الیکٹرک بیٹری، بجلی کے گرڈ کی ناکامی کی صورت میں نعم البدل ایتھر، مویشیوں کے گوشت کا نعم البدل بیونڈ میٹ یا لیب میٹ، بائیو ٹیکنالوجی، مصنوعی کھیتی باڑی، روبوٹ، دوسرے سیاروں پر آباد کاری، وہاں پانی اور معدنیات کی تلاش، ہائپر لُوپ ٹرانسپورٹ، ہیکنگ، سائبر کرائم، مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے حملوں سے انسانوں کو محفوظ رکھنے یا مشکل سے نکالنے والی ٹیکنالوجی، نیٹ کنیکٹیویٹی کی نئی دنیا، مستقبل کے آلات، تفریحِ طبع، اشیائے خور و نوش، دوائیں… یہ سبھی کچھ اس وقت تحقیق اور بزنس ماڈل کے دائرے میں ہے۔ بیشتر اسٹارٹ اپ کمپنیاں مستقبل کی ممکنہ طرزِ زندگی کو ذہن نشین رکھتے ہوئے مصروفِ عمل ہیں۔ کسی کے پاس ٹیکنالوجی ہے اور کسی کے پاس منصوبہ۔ بیشتر کے پاس مطلوب تناسب سے فنڈنگ نہیں۔ اسٹاک ایکسچینج سے بھی اِنہیں کچھ خاص مدد نہیں ملتی کیونکہ لوگ بیشتر معاملات کو ہوائی قلعے جیسا خیال کرتے ہیں۔ دس ارب ڈالر سے زائد کی مالی وقعت کی حامل کمپنیوں کو ڈیکا کارن کہا جاتا ہے۔ امریکا میں سب سے زیادہ 704 یونی کارن کمپنیاں ہیں۔ ان میں اسپیسیکس، اسٹرائپ اور انسٹا کارٹ نمایاں ترین ہیں۔ چین میں 243، جبکہ بھارت میں 85 یونی کارن کمپنیاں ہیں۔ برطانیہ میں 56، جرمنی میں 36، جبکہ فرانس میں 27 یونی کارن کمپنیاں ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جاپان کو الیکٹرانکس کے معاملے میں امریکا پر برتری حاصل تھی۔ آج وہاں صرف 11 یونی کارن کمپنیاں ہیں۔ بھارت میں میک مائی ٹرپ، انموبی، فلپ کارٹ، موسِگما، زوماٹو، اولا، رینیو پاور، بِل ڈیسک، پالیسی بازار، بیجو، سویگی، پے ٹی ایم، اویو، اڑان، ڈریم الیون، بگ باسکیٹ وغیرہ یونی کارن اسٹارٹ اپ کمپنیاں ہیں۔ اس وقت امریکا میں 76 ہزار سے زائد، جبکہ بھارت میں 26 ہزار اسٹارٹ اپ کمپنیاں ہیں۔ چین میں یہ تعداد صرف 643 ہے۔ بھارت اس حوالے سے زیادہ پرجوش و سرگرم ہے۔ بھارتی حکومت بھی اسٹارٹ اپس کو فروغ دینے میں غیر معمولی دلچسپی لیتی ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ سرمایہ ملے۔ حکومتی سرپرستی کی بدولت اسٹارٹ اپس تیزی سے فروغ پا رہے ہیں۔ بجٹ میں فنڈز رکھے گئے ہیں اور اسٹارٹ اپس کے ساتھ خود انحصاری کا تصور بھی پھیلایا گیا ہے۔

ترقی پذیر دنیا میں اسٹارٹ اپس کی زیادہ ضرورت ہے۔ نئی نسل میں غیر معمولی جوش و خروش ہے۔ بہت کچھ کرنے کی خواہش نئی نسل کے دلوں میں انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ یہ سب کچھ بہت خوش آئند ہے۔ حکومتوں کو اس طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ نئی نسل کو راہ نمائی اور تحریک کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں طرزِ زندگی بدلتی جارہی ہے۔ پچاس سال بعد طرزِ زندگی کیا ہوگی یا کیا ہوسکتی ہے اس کا اندازہ لگانے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ماہرین اس حوالے سے بہت کچھ دیکھتے، جانچتے اور بیان کرتے ہیں۔ اُن کی دی ہوئی معلومات اور تجزیے کی روشنی میں تحقیق کرنے کی صورت میں بہت سے نئے کاروباری ادارے بھی قائم کیے جاسکتے ہیں اور انہیں ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل بنانے کی کامیاب کوشش بھی کی جاسکتی ہے۔

اسٹارٹ اپس میں ریس نام کی کوئی چیز نہیں۔ نمبر کا کھیل بھی یہاں نہیں۔ ہاں، یہ ضرور دیکھا جاتا ہے کہ کون سی اسٹارٹ اپ کمپنی ٹیکنالوجی کے حوالے سے بلند ہے اور بہتر امکانات کی حامل ہے۔ اس حوالے سے امریکا، برطانیہ، چین، جاپان، اسرائیل اور کینیڈا کی اسٹارٹ اپ کمپنیاں بہتر اور روشن تر امکانات کی حامل ہیں۔

چین اسٹارٹ اپ اور یونی کارن کمپنیوں کے معاملے میں پیچھے ہے مگر پھر بھی وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ چینی قیادت مستقبل کے حوالے سے تمام امکانات اور مواقع کو چھپاکر رکھتی ہے۔ کوئی بھی ملک کچھ اندازہ نہیں لگا پاتا کہ چین کب کیا کرے گا۔ کوئی بھی ملک کوئی نئی پروڈکٹ یا ٹیکنالوجی مارکیٹ میں جیسے ہی لاتا ہے چین اُس کی جامع نقل اتنی تیزی سے مارکیٹ میں لے آتا ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے اور متعلقہ کمپنی کے لیے امکانات دم توڑ دیتے ہیں۔

آج کل بھارت میں ’’شارک ٹینک انڈیا‘‘ کے نام سے ایک ریئلٹی شو بہت مقبول ہے۔ یہ شو 2011ء میں امریکا میں شروع ہوا تھا۔ اس شو کا آئیڈیا دراصل جاپان کے ایک ٹی وی شو ’’ٹائگرز‘‘ سے لیا گیا تھا۔ شارک ٹینک ریئلٹی شو کے ذریعے نئی نسل کو کاروباری رجحان کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں کوششیں کی جانی چاہئیں تاکہ نئی نسل نوکری کی ذہنیت ترک کرکے اپنے پیروں پر کھڑی ہو، اپنا کام کرکے کمانا سیکھے۔ یہ دنیا اُن کے لیے ہے جو اپنے آپ کو بہترین کے لیے تیار کرتے ہیں۔

پاکستان بھی اسٹارٹ اپ اور یونی کارن کی دنیا میں اپنے لیے غیر معمولی امکانات پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے لیے غیر معمولی اور جامع منصوبہ سازی و حکمتِ عملی درکار ہوگی۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بیرونِ ملک امکانات کی تلاش میں اُن سے اشتراکِ عمل لازم ہے۔ پاکستان کی نئی نسل باصلاحیت ضرور ہے مگر اُس کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور سنوارنے کی ضرورت ہے۔ جن شعبوں میں زیادہ سے تیزی سے فروغ کی گنجائش ہے اُن میں زیادہ اور جامع تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک طرف تو ’’برین ڈرین‘‘ کا سنگین معاملہ ہے، یعنی ہمارے باصلاحیت اور پُرعزم نوجوان بہت بڑی تعداد میں اور تیزی سے بیرونِ ملک جارہے ہیں۔ ملک میں باصلاحیت نوجوانوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں مختلف اہم کاروباری شعبوں کی کارکردگی کا گراف تیزی سے گر رہا ہے۔ غیر معمولی صلاحیت کے تربیت یافتہ نوجوانوں کو وطن واپس لاکر نئے سرے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کو غیر معمولی بصیرت کے ساتھ کلیدی اور قائدانہ کردار ادا کرنا ہے۔

آج کا پاکستان بہت سے معاملات میں الجھا ہوا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ جاب مارکیٹ کا بھی ہے۔ جاب مارکیٹ سکڑتی جارہی ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ بدلتی ہوئی دنیا کو ذہن نشین رکھتے ہوئے کچھ سوچا جائے۔ دنیا بھر میں معاشی معاملات کی درستی کے لیے تجربے کیے جارہے ہیں۔ سیلف ایمپلائمنٹ کا تصور نیا نہیں مگر اِس تصور کو نئے پہلو دیے جارہے ہیں، اِن پہلوؤں کو تراشا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے بھی ہے۔ ہمیں بھی تو سوچنا ہے اور کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ دنیا کو دیکھتے رہنا زندگی نہیں۔ بدلتی ہوئی دنیا میں کچھ ایسا کرنا ہوگا جو ہماری بقاء کا سامان بھی کرے اور زندگی کا معیار بلند کرنے میں معاون ثابت ہو۔

کاروباری دنیا میں مسابقت بڑھتی جارہی ہے۔ جس میں زیادہ صلاحیت ہے وہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ یہی حال جاب مارکیٹ کا بھی ہے۔ جو ہنرمند ہیں وہی ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ نئی نسل کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق مارکیٹ کے لیے تیار کرنا ناگزیر ہے۔ ہمارے انتہائی باصلاحیت نوجوان باہر جارہے ہیں۔ اس عمل اور رجحان کو روکنا ہوگا۔ اپنے ہاں ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو باہر بسے ہوئے پاکستانیوں کو وطن واپس آکر کچھ کرنے کی تحریک دے۔ ’’برین ڈرین‘‘ کو بھارت اور چین میں غیر معمولی سنجیدگی سے لیا گیا اور ایسا ماحول پیدا کیا گیا جس میں بیرونِ ملک مقیم چینی اور بھارتی باشندے وطن واپس آکر زیادہ کمائیں۔

نئی نسل میں ایسے رجحانات کو فروغ دینا ہے جن میں مستقبل کو کلیدی حیثیت حاصل ہو۔ آنے والے زمانے میں جس نوعیت کی طرزِ زندگی ہوگی اُس کے لیے نوجوانوں کو تیار کرنا ہمارے لیے اوّلین ترجیح کا درجہ رکھتا ہے۔ ساری تیاری وسیع البنیاد اور طویل المیعاد ہونی چاہیے۔

حصہ