برطانوی ماہر قانون کی ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کا احوال

649

ابتدائیہ:
گیبرئیل گارسیا مارکیز کے ناول ’’نو ون رائٹز ٹو کرنل‘‘ (کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا) کی ایک خاتون کردار کرنل سے کہتی ہے کہ ’’تم امید کو نہیں کھا سکتے۔‘‘

اس کو اتفاق کہیے یا زمانے کی ستم ظریفی کہ جس دن دنیا کو انسانی حقوق کے وکیل کلائف اسٹیفورڈ اسمتھ کے ذریعے یہ پتا لگا کہ عافیہ صدیقی امریکا کے ایف ایم سی کارسویل میڈیکل سینٹر میں زندہ اور بہتر حالت میں ہے اُس کے اگلے دن وہ شخص جس نے ہزاروں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کیا تھا‘ دبئی کے ایک اسپتال میں اپنے جرائم کی لمبی فہرست کے ساتھ اِس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

2003ء میں لاہور ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی نے کہا تھا کہ ’’پرویزمشرف نے ڈالروں کی لالچ میں عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کیا‘‘ (یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ فوزیہ صدیقی نے یہ بات اُس وقت کہی جب پرویزمشرف کے پاس اس ملک کا طاقتور عہدہ تھا)۔ سرکردہ صحافی اور اینکر وسعت اللہ خان نے اپنے ٹی وی پروگرام میں بڑے پتے کی بات کی کہ ’’پرویزمشرف وہ شخص تھا جس نے پاکستان میں اس طرز کی جبری گمشدگیاں شروع کروائیں جیسے ستّر اور اسّی کی دہائی میں سی آئی اے لاطینی امریکہ کے ملکوں میں کمیونسٹوں کی گمشدگیاں کروایا کرتی تھی جس میں غائب ہوجانے والوں کے بارے میں برسوں کچھ پتا نہیں لگتا تھا، اور بعض اوقات تو گم شدہ افراد کی لاشیں بھی نہیں ملا کرتی تھیں۔‘‘

یہ سطریں لکھتے وقت وہ دیوانہ انقلابی شاعر حبیب جالب یاد آ رہا ہے جس نے یہ اشعار شاید کسی آمر کے لیے ہی کہے تھے کہ:

تم سے پہلے جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پر اتنا ہی یقیں تھا
آج سوئے ہیں تہِ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ، کوئی شبنم، کوئی مہتابِ جبیں تھا!

مصنف کا تعارف:
کلائف اسٹیفورڈ اسمتھ برطانوی قانون دان ہیں۔ انہوں نے بنیادی انسانی حقوق کے لیے اور سزائے موت کے خلاف امریکا میں بہت سے مقدمات کی پیروی کی اور جیتے ہیں۔ کلائف اسمتھ نے گوانتاناموبے میں زیر حراست 80 سے زائد قیدیوں کا مقدمہ بلا معاوضہ لڑا ہے۔ کلائف اسمتھ نے 2007ء میں اپنی یادداشتوں پرمبنی ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے ’’بیڈ مین: گوانتانامو بے اینڈ دی سیکرٹ پریزنز۔‘‘ اس کتاب میں اُس نے دنیا بھر میں موجود امریکا کی خفیہ جیلوں میں ہونے والے بدترین ٹارچر کے بارے میں بتایا ہے۔

…٭…

ایف ایم سی کارس ویل ایک وفاقی میڈیکل سینٹر ہے جو ٹیکساس میں واقع ہے۔ اس سینٹر کو جادوئی انداز میں اس طرح بنایا گیا ہے کہ جہاں ایک ’’منظم نرمی‘‘ سے مریض کا درجۂ حرارت لیا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ ایک جیل ہے۔ میں پچھلے 40 سال سے امریکی جیلوں میں جا رہا ہوں اور وہ سب کی سب بہت خوف ناک ہیں، حتیٰ کہ خواتین کی جیلیں بھی جرائم پیشہ گروہ چلاتے اور کنٹرول کرتے ہیں جہاں پر جنسی زیادتیاں ایک رواج ہے۔ مگر کچھ جیلیں دوسروں سے اور بھی زیادہ بری ہیں۔ ایف ایم سی ایک ہائی سیکورٹی جیل ہے اور عافیہ کے بارے میں یہ طے کیا جا چکا ہے کہ وہ اپنی بقیہ زندگی یہیں گزارے گی۔ امریکی قانون کے مطابق اگر وہ سو سال سے زیادہ زندہ رہے تو اس بات کی اہل ہوگی کہ اس جیل سے رہائی پا سکے۔ امریکی جیلوں میں قیدیوں کی متوقع عمر 60 سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔

ایف ایم سی صرف ایک جیل نہیں۔ یہ جیل ایک بہت بڑے امریکی ملٹری بیس سے صرف ایک میل کے فاصلے پر ہے۔ 19 جنوری کو میری عافیہ کے ساتھ ایک قانونی ملاقات تھی۔ یہ ملاقات گوانتانامو بے میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد عمل میں آئی تو میں امریکی فوج کی ’’شاندار نااہلی‘‘ کے لیے پہلے سے تیار تھا۔ اس لیے میں بالکل بھی حیران نہیں ہوا جب مجھے اس سینٹر کے اندر داخل ہونے میں تقریباً 3 گھنٹے لگے۔ مجھے اس بات پر شدید کوفت تھی کہ اس تاخیر کی وجہ سے میری عافیہ سے ملاقات صرف 80 منٹ کے لیے ہی کرائی گئی۔ عافیہ صدیقی کی المیہ داستان سے سب اچھی طرح واقف ہیں۔ اس کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ اس نے کسی کو زخمی کیا، اور زیادہ تر شواہد یا اعترافات اس پر اور دوسرے قیدیوں پر تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے۔ یہ خیال ہی مزاحیہ سا ہے کہ عافیہ سے منسلک امریکی فوجیوں کو اس سے شدید خطرات تھے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے ساتھ کس قدر تشدد کیا گیا۔ امریکا اس بات کا اعتراف کرچکا ہے کہ جب وہ حراست میں ہی تھی اس کو گولی ماری گئی تھی، اس کو بار بار مارا پیٹا گیا، ایسے ہی ایک واقعے میں اس کے منہ پر لات ماری گئی جس کے نتیجے میں اس کے سامنے کے دانت ٹوٹ گئے تھے۔ عافیہ اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ وہ واحد عورت ہے جو امریکی سی آئی اے کے ’’مفروری سے تشدد‘‘ تک کے پروگرام میں گرفتار ہوئی۔ آخر میں اس کو افغانستان کی بگرام جیل سے امریکا کے حوالے کیا گیا جہاں اسے 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ عافیہ امریکا کی خفیہ جیلوں کے نظام میں روزانہ بدسلوکی کا سامنا کرتی، اور اس کو یہ بدسلوکی سال 2094ء تک سہنا ہوگی۔ وقتاً فوقتاً یہ افواہیں چلتی رہی ہیں کہ عافیہ مر چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا اور پاکسان کے بہت سے اہلکاروں کی یہ ’’خفیہ خواہش‘‘ رہی کہ یہ بات سچ ہوجائے۔ میں اب یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک ’’فیک نیوز‘‘ ہے۔ دانتوں کے کام کے سوا ایک پچاس سالہ عورت اور وہ بھی جس نے اس قدر تشدد سہا ہو‘ مجھے ’’بہتر حالت‘‘ میں دکھائی دی۔ مجھے اس بات پر یقین ہے کہ اسے قدرتی موت جلدی آنے والی نہیں۔

دوسری طرف اس پر بار بار تشدد اور بدسلوکی اس حکمت عملی کے تحت کی جاتی رہی کہ اس کی ہمت کو توڑا جائے۔ میرے ملک پر یہ ایک دھبہ ہے کہ جنسی تشدد، سونے نہ دینا اور دوسرے ٹارچر کیے جاتے رہے۔ نفسیاتی طور پر عافیہ ٹھیک نہیں ہے۔ اُن 87 قیدیوں سے، جن سے میں گوانتاناموبے میں ملتا رہا ہوںکسی کو بھی اس طرح کا نفسیاتی صدمہ نہیں ہوا جیسا عافیہ کو ہوا۔ اب وہ ایک ایسے ادارے میں ہے جس کا کام اس نفسیاتی تباہی کو درست کرنا ہے، لیکن اس کے برعکس یہ ادارہ اُس کے بھیانک خواب کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ آخر میں تو یہ حکومتِ پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہے۔ یقینا میں حکومتِ پاکستان کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کروں گا اور جواب میں مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ میں جلد پاکستان کا دورہ کروںگا اور گوانتاناموبے میں قید رہنے والے اپنے پاکستانی دوستوں سے بھی ملوں گا، اور مجھے امید ہے کہ شاید مجھے پھر پاکستانی ذمے دار اہلکاروں سے بھی ملنے کا موقع ملے گا۔ عافیہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس وقت ایک امریکی جیل میں بے اختیار عورت ہے جس کے بارے میں جیل حکام کی ممکنہ کوشش یہ ہے کہ اس کے لیے کچھ بھی اچھا نہ ہوسکے۔

اس سلسلے میں اگر پاکستانی حکومت کی ذمہ داری کسی کو جاننی ہو تو وہ عافیہ کے پاسپورٹ کے اندرونی صفحے پر یہ لکھا پڑھ سکتا ہے کہ:

’’وزارتِ داخلہ، حکومتِ پاکستان، بتوسط صدرِ پاکستان آپ سے درخواست کرتی ہے کہ اس پاسپورٹ کے حامل فرد کو اجازت دی جائے کہ وہ بنا رکاوٹ گزر سکے، اور اس پاسپورٹ کے حامل فرد کو ہر ممکن مدد اور تحفظ فراہم کیا جائے۔‘‘

عافیہ کو بہت معمولی مدد فراہم کی گئی اور اس کے تحفظ کے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ یہ اب بدلنا چاہیے۔ اس قید کے دوران وہ بلا رکاوٹ اور آسانی سے گزر کر باتھ روم تک نہیں جاسکتی تو اس بات کو رہنے ہی دیں کہ وہ اپنے گھر کراچی واپس جاسکے گی۔ اس مسئلے کا قابل عملِ حل تلاش کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، اور یہ دونوں ملکوںکے لیے ’’فتح جیسی صورت حال‘‘ ظاہر کرے گا۔ مثال کے طور پر عافیہ کو شکیل آفریدی کے بدلے واپس کیا جاسکتا ہے، حالانکہ میں کسی بھی صورتِ حال میں قتل کرنے کے خلاف ہوں لیکن ہمیں ان کو سمجھنا چاہیے جو یہ فیصلے کرتے ہیں۔ امریکی میڈیا اس کو ایسے دکھائے گا کہ امریکا نے ایک ایسے انسان کو آزادی دلائی جس نے امریکا کو اسامہ بن لادن کو قتل کرنے میں مدد دی تھی۔ دوسری جانب پاکسان ایک ایسی عورت کو گھر واپس لائے گا جس کی بری حالت ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں ہونے والی زیادتیوں کو ظاہر کرچکی ہے۔

میرا خیال ہے کہ میں امریکی حکومت کو اس فیصلے پر راغب کرسکتا ہوں، لیکن پتا نہیں کون پاکستان میں اس حل کے راستے میں کھڑا ہے۔ آیئے اس سے گزرتے ہیں اور یہ کام کردیتے ہیں۔

حصہ