گھروندوں کی ٹھنڈی چھائو

315

عالیہ: ’’بھابھی آپ تو آتی ہی نہیں ہیں میں نے سوچا میں ہی چکر لگائوں‘‘۔
بھابھی: ’’بہت خوشی ہوئی اور سنائو سب گھر والے کیسے ہیں، بہوئیں اور بچے سب ٹھیک ہیں، نئی بہو کیسی ہے؟‘‘
عالیہ: (منہ بناتے ہوئے) ’’معلوم نہیں۔ ہمیں کیا پتا؟‘‘
بھابھی: معلوم نہیں؟ ’’کیا مطلب… وہ تو آپ کے ساتھ ہی رہتی ہے‘‘۔
عالیہ: ’’ساتھ رہتی ہے تو کیا ہوا… ہم سے اس کا کیا واسطہ؟ (روتے ہوئے) صبح ملازمت پر چلی جاتی ہے شام کو دیر سے آتی ہے ہ کسی سے بات کرتی ہے نہ ہمارے ساتھ بیٹھتی ہے، سیدھے اوپر اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے، مجھ جاہل سے تو وہ یوں کتراتی ہے کہ جیسے… مجھ سے بڑی غلطی ہوگئی کہ اتنی پڑھی لکھی اور ملازمت پیشہ بہو لے کر آئی ہمیں تو وہ اپنے برابر سمجھتی ہی نہیں ہے‘‘۔
بھابھی: ’’عالیہ آپ پریشان نہ ہوں ابھی شادی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا، آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔
عالیہ: ’’پانچ مہینے سے زیادہ ہوگئے ہیں اور … اور میں تو اس کے کسی معاملے میں مداخلت بھی نہیں کرتی، اسے میری کوئی بات اچھی نہیں لگتی، حالانکہ آپ کو معلوم ہے بڑی بہو ان کے بچے سب مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ کوئی بھی پریشانی ہوتی ہے نائمہ (بڑی بہو) کو فوراً مجھ سے مشورہ کرتی ہے‘‘۔
بھابھی: ’’جی یہ تو درست ہے کہ گھر میں بڑے موجود ہوں تو بڑا سہارا ملتا ہے، یاد ہے آپ کو ہماری ساس جب ہمیں کوئی ٹوٹکے بتاتی تو ہم کتنے غور سے سنتے تھے پھر اس پر عمل بھی کرتے۔ ویسے عالیہ تم اپنا مثبت کردار ادا کرتی رہو ان شا اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا اور کبھی کبھار تم اوپر جاکر اس کی خیریت وغیرہ معلوم کرتی رہا کرو‘‘۔
……٭٭٭……
بابا: ’’راشد بیٹا آپ کا رویہ اپنی بیوی کے ساتھ درست نہیں ہے ہر وقت اتنے غصے میں رہتے ہو، آرام سے بات کیا کرو اس کے ساتھ۔ اور اب تو وہ تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہے اس کا خیال رکھا کرو‘‘۔
……٭٭٭……
ثمینہ: (بہو سے)’’ کام تو ہوتا رہے گا بیٹا… ذرا منے کو بھی وقت دو، اسے دیکھو کیوں رو رہا ہے، پہلے اس کو دودھ وغیرہ پلائو پھر کچن کو دیکھ لینا۔ اس طرح تو بچے رونے کے عادی ہوجاتے ہیں اور ہاں بیٹا آج کچھ ٹھنڈ بھی ہے۔ ذرا خود بھی موٹے کپڑے پہن لو اور منے کو بھی ٹوپی وغیرہ پہنا لینا‘‘۔
بہو نے ساس کی بات پر منہ ٹیڑھا کیا یہ تو ہر بات میں ضرور بولیں گی، کیا میں جاہل ہوں اس سے زیادہ پڑھی لکھی ہوں کیا مجھے نہیں معلوم مجھے کیا کرنا ہے کیا نہیں۔
ثمینہ کی بہو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی اگرچہ اس کی ساس بھی ان پڑھ نہ تھی لیکن وہ ساس کی کسی بات کو اہمیت نہ دیتی… آج بھی اس نے اپنے معمول کے مطابق ساس کی بات کو سنی ان سنی کرکے چلی گئی… شام تک ٹھنڈ بھی بڑھ گئی۔ ثمینہ نے پوتے کو دیکھا تو وہ بخار میں تپ رہا تھا، اسے حیرانی ہوئی کہ اتنی سردی میں دونوں ماں بیٹوں نے گرم کپڑے بھی نہیں پہنے ہوئے تھے۔
……٭٭٭……
یہ چند جھلکیاں جو میں نے اپنے اطراف دیکھیں تو آپ قارئین سے شیئر کیں۔ یقینا ایسی صورت حال کئی مرتبہ آپ کی نظروں کے سامنے سے بھی گزری ہوگی… میں ہمیشہ یہ کہتی ہوں کہ گھر کے بزرگ گھر والوں کے لئے ٹھنڈی چھائوں اور دعا کے دروازے ہوتے ہیں جو پورے گھرانے کو سمیٹ کر رکھتے ہیں۔ بے شک چھوٹی موٹی باتیں بڑوں کی طرف سے بھی اور چھوٹوں کی طرف سے ہوتی رہتی ہیں جو ناگوار بھی ہوتی ہیں لیکن ایک چھت تلے رہنے والے چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے ایک دوسروں کے لئے ٹھنڈک اور سہارا ہوتے ہیں۔ ذرا ان والدین سے پوچھیں جو اپنے بیٹوں اور بہوئوں کے ہوتے ہوئے بھی تنہا زندگی گزارتے ہیں۔ بظاہر ہنستے مسکراتے یہ چہرے لیکن اپنے اندر ضرور تنہائی محسوس کرتے ہیں اور دور ہونے کے باوجود ان کے لبوں پر اپنی اولاد کے لئے دعائیں ہی نکلتی ہیں۔ اسی طرح ایسی اولاد جو والدین کو چھوڑ کر الگ گھر بسالیتے ہیں سمجھیں کہ وہ خود والدین کے سائے سے اپنے آپ کو دور کردیتے ہیں۔ اگر آس پاس نظر دوڑائیں تو یہ بزرگ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنے تجربات اور اپنے علم سے سب کو نوازتے رہتے ہیں، ان کے مشورے، ان کے تجربات اور ان کے ٹوٹکے اکثر و بیشتر آپ کی زندگی کی مشکلات کو کم کرکے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ میں آج بھی بڑے فخر اور فراغ دلی سے یہ اعتراف کرتی ہوں کہ زندگی کی بہت سی باتیں میں نے اپنے بزرگوں سے سیکھیں، اماں کے علاوہ ساس، نانی اور نانی ساس یہ وہ ہستیاں تھیں جنہوں نے مختلف موقعوں پر رہنمائی کی،ان کی کچھ نصیحتیں اور باتیں گرہ میں باندھ لیں جو وقتاً فوقتاً مجھے کام کرتی رہتی ہیں۔ لیکن معذرت کی ساتھ ہی کہوں گی کہ آج کی نئی نسل جو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہے لیکن ان میں سے کچھ نہیں بلکہ بہت سے ایسے ہیں بزرگوں کا احترام بھی کرتے ہیں لیکن ان کے مشوروں پر کام نہیں دھرتے۔ یہ ضروری نہیںکہ اعلیٰ تعلیم یا تعلیمی ادارے اور کتب ہی سے سیکھا جائے، زندگی کے بہت سے ہنر ہم ان بزرگوں سے بھی سیکھتے اور اپناتے ہیں جن سے ہمیں یقینا فائدہ بھی پہنچتا ہے۔ میں یہاں اپنی والدہ کی مثال ضرور دوں گی، اماں گرچہ پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن انہوں نے اپنے بزرگوں اور زمانے سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ آخری سانس تک انہوں نے مثبت طریقے سے اپنے پورے کنبے کو سمیٹے رکھا، ہم شادی شدہ بہنیں اگر ایک دن سے زیادہ اماں کے گھر رہتے تو مثبت طریقے سے ہمیں سسرال کی اہمیت سمجھاتی۔ اسی طرح ان کا اپنی بہوئوں کے ساتھ مثبت رویہ رہتا، اگر انہیں کوئی بات سمجھانی ہوتی تو ہم بہنوں کو کہتی کہ اس طرح مناسب نہیں اس طرح کرنا چاہئے پھر ہم سے اکیلے میں کہتی کہ ’’کہو بیٹی کو سمجھائو بہو کو‘‘ ماشاء اللہ ان کی بہوئیں بھی سمجھدار تھیںجو نہ صرف ان کی باتوں پر عمل کرتی ان سے سیکھتی آج بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ ہم نے اپنی ساس سے یہ چیز سیکھیں… ویسے میں بار بار ایک بات ضرور دہراتی ہوں اور آج بھی دہرائوں گی کہ ساسوں کو بھی اپنا (تمام بزرگوں کو) اپنا رویہ مثبت رکھنا چاہئے، ’’کڑوی اور کسیلی‘‘ زبان انسان کے رشتوں کو ان سے دور کرکے اس بھری دنیا میں تنہا کردیتی ہے جبکہ توازن کے ساتھ آپ کا رویہ آپ کی نصیحت سامنے والے کو ضرور متاثر کرتی ہے۔ ہاں ایک بات اور اگر بزرگ بڑھاپے کی وجہ سے تلخ ہوجاتے ہیں تو انہیں برانہ سمجھیں یہ تو ان کی عمر کا تقاضا ہے۔اللہ نے والدین کے لئے خود فرمایا کہ ’’انہیں اُف تک نہ کہو‘‘ یہ بات مجھے بچپن میں اتنی سمجھ میں نہیں آئی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا ادراک ہوتا گیا۔ مختصر یہ کہ گھر کے بزرگ ہوں یا جوان یہ ایک دوسرے کے لئے سہارا ہوتے ہیں جن کی اہمیت کا اندازہ کرکے سب کو افہام و تفہیم اور سمجھداری سے اس پیارے بندھن کو تھامے رکھنا چاہئے۔ اسی طرح کوئی بھی مکان ’’گھر‘‘ بن سکتا ہے۔

حصہ