ایک وقت تھا جب گھر کے بڑے آٹے اور چینی کے حصول کے لیے راشن شاپ پر لمبی قطاریں لگایا کرتے۔ ہر علاقے میں ایک یا دو راشن شاپ ہوتے، جہاں عوام کا ایک ہجوم لگا رہتا۔ راشن شاپ مالک کا رویہ عوام کے ساتھ بڑا حاکمانہ ہوا کرتا، جس سے ظاہر ہوتا گویا وہی رزق کا مالک ہے۔ اُس کے نزدیک لوگوں کی پریشانی کی کوئی اہمیت نہ ہوتی۔ لوگ گھنٹوں دھوپ میں کھڑے ہوکر اپنے گھر کا راشن حاصل کرتے۔ جس نے بھی وہ زمانہ دیکھا ہے، یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ راشن شاپ سے آٹے اور چینی کا حصول آسان کام نہ تھا۔ کیونکہ آٹے اور چینی کی تقسیم ایک فارمولے کے تحت ہوتی جس کے لیے عوام کو راشن کارڈ بنا کر دیے گئے تھے۔ راشن کارڈ میں گھرانے کے افراد کی تعداد کے مطابق اشیاء کا کوٹہ درج کیا جاتا۔ یعنی جس کا جتنا کوٹہ بنتا اُسے اتنا ہی راشن دینا ہوتا۔ قانونی طور پر اس فارمولے کو نافذ کرکے اُس وقت کی حکومتوں نے اپنی جانب سے ایک بڑا کارنامہ کردکھایا۔ اور یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ راشن کے حصول کے لیے بنائے گئے کوٹے پر شاید ہی کبھی عمل کیا گیا ہو۔ لوگوں کو دی جانے والی چینی میں تقریباً ہر مرتبہ ہی کٹوتی ہوا کرتی۔ یہ کارروائی خصوصاً عید یا کسی بھی مذہبی تہوار کی آمد پر کی جاتی اور عوام کے کوٹے کی کٹوتی شدہ چینی مہنگے داموں مٹھائی فروشوں کو دے دی جاتی۔ اُس زمانے میں یہ کالا دھندا بڑے زور شور سے کیا جاتا تھا۔ جبکہ آٹے کے نام پر انتہائی ناقص گندم دی جاتی۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق عوام اُس وقت غیر معیاری آٹا کھانے پر مجبور تھے۔ اس نظام کے تحت عوام کو کچھ ملا ہو یا نہ ملا ہو لیکن راشن شاپ مالکان نے وہ لوٹ مار مچائی جسے سوچ کر آج بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھی کوئی تہوار آتا تو ابو جان بجائے گھر کے، راشن کے حصول کی قطار میں کھڑے ہوتے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُس وقت کسی بھی تہوار پر ان اشیاء کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ حکومت بدلی، اور حالات بھی بدلنے لگے۔۔۔ یہ الگ بحث ہے کہ حکومت کس طرح تبدیل ہوئی۔ یہاں میرا نکتہ چونکہ غیر سیاسی ہے اس لیے اشیائے خورو نوش کے حصول سے متعلق ہی بات کروں گا اور اپنی ساری توجہ اس مسئلے پر ہی رکھنا چاہوں گا۔ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی عوام کو آٹا اور چینی بازاروں سے ملنے لگے، اس طرح عوام نے کچھ سُکھ کا سانس لیا اور انہیں راشن کے حصول کے سلسلے میں لگائی جانے والی لمبی قطاروں سے بھی چھٹکارا مل گیا۔
کسی بھی حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے، خاص کر معیاری اشیاء کی فراہمی اس کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس لیے اُس وقت بازاروں سے آٹے اور چینی کا آسانی سے مل جانا ہی عوام کے لیے نئی حکومت کا ایک بڑا کارنامہ تھا جسے عوام نے نہ صرف پسند کیا بلکہ اس فیصلے کے بعد ان چیزوں کا مارکیٹ سے ضرورت کے مطابق مل جانا بڑی تبدیلی سمجھا جانے لگا۔ اس طرح عوام کو اُن جاگیرداروں سے نجات بھی مل گئی جو راشن شاپ مالکان کی صورت میں عوام کے رزق پر قبضہ کیے بیٹھے تھے۔ یوں خوراک کی تقسیم کا وہ فارمولہ بری طرح ناکام ہوگیا جو رشین بلاک سے منسلک ممالک میں رائج تھا۔ کمیونزم نظریات کے مطابق بنائے گئے اس فارمولے کی ناکامی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت لوگوں کو معیاری اشیاء فراہم کرتی۔ لیکن اس کے برعکس ہوا کچھ یوں کہ عوام کو راشن مالکان سے آزادی دلوانے کے بعد بڑے سلیقے سے دکان داروں کے حوالے کردیا گیا۔ یہاں بتاتا چلوں کہ اُس وقت عوام نے حکومتی اقدام کو محض اس لیے پسند کیا تھا کہ وہ راشن شاپ مالکان اور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے انتہائی پریشانی میں مبتلا تھے۔ اس لیے راشن شاپ کا ختم کیا جانا عوام کی جانب سے خاصا سراہا گیا۔ خیر، لوگوں کی ضروریاتِ زندگی کا سامان مارکیٹ سے مل جانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حکومت کا اب کوئی کام باقی نہیں رہا، بلکہ ملک میں سستی اور معیاری چیزوں کی فراہمی کی ذمہ داری بھی حکومت پر عائد ہوتی ہے اور ایسی پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے جن سے ہر شعبے میں عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ شاید اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں یوٹیلٹی اسٹور متعارف کروائے گئے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں اُس وقت یوٹیلٹی اسٹور بنانے کا واحد مقصد مارکیٹوں میں بڑھتی مہنگائی کے مقابلے میں، یا پھر ذخیرہ اندوز دکان داروں سے عوام کو نجات دلانے کے لیے ایک ایسے ادارے کا قیام تھا جہاں عوام کے لیے معیاری اور سستی چیزیں دستیاب ہوں تاکہ انہیں مستقل ریلیف مل سکے۔ خیر اپنے قیام کے ابتدائی برسوں تک یوٹیلٹی اسٹورز پر عوام کو حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈی کے فوائد ملتے رہے اور مختلف بازاروں کی نسبت قیمتوں میں خاصا فرق رہا۔ وقت گزرتا رہا اور حکومتیں آتی جاتی رہیں، اور ہر آنے والی حکومت اپنی پالیسی کے مطابق ان یوٹیلٹی اسٹورز کو چلاتی رہی۔ پھر آہستہ آہستہ یہاں سے قیمتوں میں ملنے والا ریلیف ختم ہونے لگا اور تمام اشیاء غیر معیاری اور انتہائی ناقص ملنے لگیں۔ اگر کچھ اشیاء کی قیمتیں بازار سے کم تھیں بھی تو یہ فرق وقت کے ساتھ ساتھ ایسا ختم ہوا کہ آج مارکیٹ کے مقابلے میں یوٹیلٹی اسٹورز پر زیادہ مہنگی اور غیر معیاری اشیاء فروخت ہورہی ہیں، بلکہ حکومتی عدم توجہ کے باعث ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ در بھی بند ہوتا دکھائی دینے لگا ہے۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے تو دوسری جانب بڑے سرمایہ داروں نے ملک بھر میں یوٹیلٹی اسٹورز کے مقابلے میں سپر اسٹورز کا جال بچھانا شروع کردیا ہے جہاں تمام اشیائے خور ونوش کی قیمتیں یوٹیلٹی اسٹورز پر فروخت ہونے والی اشیاء سے خاصی کم ہیں۔ اگر ہم صرف چاول کی قیمت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں بنائے گئے سپر اسٹورز پر اچھے چاول اور معیاری اشیاء کا کم قیمت پر فروخت ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، جس کو دیکھ کر انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ نجی سپر اسٹورز پر روزمرہ ضروریات کا سامان مارکیٹ ریٹ سے کم فروخت ہوسکتا ہے تو یوٹیلٹی اسٹورز پر اس کی فروخت میں کون سی دیوار حائل ہے؟ ملک بھر میں نجی سپر اسٹورز پر لوگوں کی بڑھتی تعداد بتاتی ہے کہ یہ اسٹورز عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف تو دیتے ہوں گے جس کی بنا پر لوگوں کا ہجوم وہاں کا رخ کررہا ہے۔ میں نے اسی سلسلے میں جب یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کی جانب سے بنائے گئے ایک ویئر ہاؤس کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ایک عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، جہاں انتظامیہ کے ایک افسر نے مجھے اپنا نام صیغۂ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا:
”جس دوران حکومت سبسڈی دیا کرتی تھی تو روزمرہ استعمال کی اشیاء پر خاصا ریلیف ملتا تھا، چونکہ چیزوں کا ریٹ مارکیٹ سے کم ہوتا تھا اس لیے ہمارے افسران یوٹیلٹی اسٹورز کا سامان بازاروں میں سپلائی کردیا کرتے تھے اور عوام کو ان کا کوئی فائدہ نہ ہوتا، جس کے نتیجے میں آئے دن سامان ختم ہوجاتا تھا۔ اب جبکہ حکومت نے سبسڈی ختم کردی ہے اس لیے تمام اشیاء بازار سے زیادہ مہنگی ملتی ہیں۔ ہم مجبور ہیں، حکومت کی طرف سے دی جانے والی پرائس لسٹ کے مطابق ہی سامان دے سکتے ہیں، اگر کسی چیز کو سستا کریں تو حکومت کو اپنی جیب سے پیسے ادا کرنے پڑیں گے، لہٰذا ایسی صورت میں یہاں سے کون خریداری کرے گا، جبکہ یہاں زیادہ تر چیزیں غیر معیاری ہیں!“
نجی سپر اسٹورز پر عوام کی بڑھتی تعداد اور قیمتوں میں فرق کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر اس نے بتایا:
”سپر اسٹورز مختلف کمپنیوں سے سبسڈی لیتے ہیں، زیادہ سامان فروخت کرنے پر اسکیم کے تحت فوائد حاصل کرتے ہیں۔ کسی بھی کمپنی کو اپنا مال فروخت کرنے کے لیے بڑے گروپس کی ضرورت ہوتی ہے، یہ اس کا ہی فائدہ اٹھاتے ہیں، یعنی اسی کلیے کے تحت سپر اسٹور مالکان کمپنیوں سے قیمتوں میں ریلیف حاصل کرلیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہاں سستی چیزیں مل جاتی ہیں۔ نجی کاروبار سے منسلک لوگ تمام تر توجہ اپنے کاروبار پر مرکوز رکھتے ہیں، کبھی اسکیم، تو کبھی بونس کے نام پر فوائد حاصل کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ ہمارے حکمرانوں کے پاس کسی بھی قسم کی ایسی ڈیل کرنے کی فرصت نہیں جس سے عوام کو ریلیف مل سکے۔ ان کا تو کام صرف لیٹر نکالنا ہوتا ہے، انہیں مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کی کیا خبر!“
یہ افسر دورانِ گفتگو مجھے مارکیٹ ریٹ اور یوٹیلٹی اسٹور کی ریٹ لسٹ بھی دکھاتا رہا، جس کے مطابق اُس کی ایک ایک بات بالکل سچ تھی۔ وہ کر بھی کیا سکتا تھا! حکومتی پالیسیوں پر وہ بہت زیادہ نالاں دکھائی دے رہا تھا، اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگا:
”یہ سب کچھ یوں ہی نہیں ہورہا بلکہ اس کے پیچھے بڑی خطرناک سازش رچائی جارہی ہے۔ بات سیدھی سی ہے، جب حکمرانوں کی جانب سے کسی محکمے کو نظرانداز کیا جانے لگے تو سمجھ لو کہ اُس کی بندش کے بارے میں فیصلے کیے جا چکے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز کو بند کرنے کا پروگرام بنالیا ہے، اگر واقعی ایسا ہوگیا تو کئی ہزار گھرانوں کے چولہے ٹھنڈے ہوجائیں گے۔“
میں اس شخص کی باتیں بڑی توجہ کے ساتھ سن رہا تھا۔ اس کی باتیں اپنی جگہ درست ہوسکتی ہیں، لیکن ایک بات جو میرے ذہن میں بار بار آئی، وہ یہ کہ ایک عام شخص کاروبار کرتے ہوئے جب گھی، تیل، صابن اور دوسری اشیائے ضرورت کے لیے مختلف نجی کمپنیوں سے کاروباری ڈیل کرسکتا ہے جس سے عوام کو ریلیف ملے، تو پاکستان میں کاروبار کرنے والی ان کمپنیوں سے حکومت کوئی ڈیل کیوں نہیں کرسکتی؟ میرے نزدیک اگر حکمران اس سلسلے میں کوئی پیکیج لینے کی ذرا سی بھی بات کریں تو یقیناً کسی بھی عام کاروباری شخصیت سے زیادہ ریلیف لے سکتے ہیں، خاص کر اُن شوگر مل مالکان اور سندھ سے تعلق رکھنے والے اُن سیاست دانوں سے جن کی درجنوں شوگر ملیں ہیں۔ اگر حکمران اختیارات ہونے کے باوجود کوئی ایسا قدم جس سے عوام کو ریلیف مل سکے، نہ اٹھائیں تو اس میں دو رائے نہیں کہ حکمرانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں یا وہ دینا ہی نہیں چاہتے۔ میں جب تک اس یوٹیلٹی اسٹور میں رہا میرے سامنے نئے سے نئے حقائق آتے رہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہاں فروخت ہونے والی متعدد اشیائے ضروریہ ایسی تھیں جن کی فروخت کمپنی کی جانب سے تحریر کردہ ریٹ سے کہیں زیادہ پر کی جارہی تھی، اس چور بازاری پر کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ ان حالات میں مجھے اس ویئر ہاؤس اور ساتھ بنے یوٹیلٹی اسٹور کو دیکھ کر بہت افسوس ہورہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کروڑوں روپے مالیت کی چیزیں مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ہونے کی وجہ سے کیسے فروخت کی جا سکتی ہیں؟ کبھی میرے ذہن میں خیال آتا کہ اگر یہی حالت رہی تو یہ ساری چیزیں خراب ہوکر کسی کوڑے دان کی نذر ہوسکتی ہیں۔ میں حکمرانوں کی بے حسی پر انتہائی مایوس تھا، میرے پاس ایسے حکمرانوں کی عقل پر ماتم کرنے کے سوا کچھ نہ تھا جن کی ہٹ دھرمی کے باعث یوٹیلٹی اسٹور کھنڈر بنتے جارہے ہیں۔ میں اور کر بھی کیا سکتا تھا سوائے حکمرانوں سے التجا کرنے کے، کہ خدارا کوئی تو ایسی چیز باقی رہنے دو جس سے غریب عوام کو ریلیف مل سکے۔ میں سوچ رہا تھا کہ آخر کب تک حکومتوں کے مزے لوٹتے سیاست دان غریبوں کو ذلیل و رسوا کرتے رہیں گے۔ وہ کون سا دن ہوگا جب یہاں کے حکمران عوام کی دادرسی کریں گے اور ایسی پالیساں بنائیں گے جن سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اس دور میں غریب عوام کو روزمرہ استعمال کی چیزیں سستی مل سکیں!