ترکیہ و شام زلزلہ: دہشت کے 60 سیکنڈ

315

ترکیہ اور شام میں آنے والے دو تباہ کن زلزلوں سے اب تک18ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ دونوں ممالک میں اس صدی کا سب سے خطرناک زلزلہ ہے جو 7.8 شدت کا تھا۔ عالمی ادارئہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ متاثرین کی تعداد 23 ملین یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ زلزلے کے زوردار جھٹکوں سے کم از کم 10 ترک اور 5 سے زیادہ شامی شہروں میں تباہی ہوئی ہے۔ ترک ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی کا کہنا ہے کہ زلزلے کے بعد اب تک 78 آفٹر شاکس محسوس کیے گئے ہیں۔ امریکی ایجنسی کے مطابق زلزلہ مقامی وقت کے مطابق صبح 4 بج کر 17 منٹ پر آیا اور اس کی گہرائی تقریباً17.9 کلومیٹر تھی۔ زلزلے کے بعد ہر طرف آہیں اور سسکیاں ہیں، موت اور تباہی ہے… اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ابھی بھی لاشیں نکالی جارہی ہیں اور کئی معجزات رونما ہوئے ہیں۔ زمیں بوس ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے اب بھی متعدد افراد دبے ہوئے ہیں جن کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔

”الجزیرہ“ کے سوشل میڈیا پیج سے ملبے میں پھنسی زندہ خاتون کی سامنے آنے والی ویڈیو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے، ان خاتون نے ملبے میں دبے ہونے کے باوجود اپنی جان بچانے کی غرض سے ویڈیو بناکر اپنی بہن کو بھیجی تھی۔ ان خاتون نے ویڈیو میں مدد کے لیے پکارتے ہوئے کہا کہ ”بہن ہم بہت مشکل صورت حال میں ہیں، ہمارے اوپر چھت دیکھو، پائپ لائنیں ہمارے اوپر ہیں، سب کچھ ہمارے اوپر ہے“۔ اسی طرح ایک اور ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں ملبے میں پھنسے ایک بچے کا لاچار باپ ملبے سے باہر کھڑے کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ”ہاتھ دکھاؤ ہم تمہیں بچالیں گے، تم ٹھیک ہو نا، ہم تمہیں بچا لیں گے“۔ جس کے بعد ویڈیو میں بچے کا ہاتھ واضح ہوتا بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک اور ویڈیو میں ریسکیو اہلکاروں کو کئی گھنٹوں بعد ترکیہ کے صوبے مالاطیہ کی ایک عمارت کے ملبے سے ایک خاندان کے افراد کو زندہ نکالتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ریسکیو اہلکار بچوں کو ملبے سے زندہ نکال رہے ہیں جب کہ ساتھ کھڑے افراد ملبے سے بچوں کے زندہ نکلنے پر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے سنے گئے۔ ویڈیو میں ایک ترک فوجی اہلکار ملبے سے بچی کے زندہ نکالے جانے پر بچی کو چومتے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق شام میں جنگ سے بے گھر ہونے کے بعد احمد ادریس اب شام کے شہر سراقب میں مقیم ہے جو خاندان کے 25 افراد کی لاشیں دیکھ کر صدمے میں ہے۔ غیرملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احمد ادریس نے کہا کہ ہم اپنے اور اپنے بچوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ تلاش کرنے یہاں آئے، لیکن آخر میں یہاں قسمت نے ہمیں کس طرح پکڑ لیا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (آئی او ایم) کی ترجمان اولگا بورزینکووا نے ترکیہ اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلوں کے بعد اپنے تجربات اور اِس وقت جاری ہنگامی امدادی اقدامات کی تفصیل میں بتا یا کہ “جنوب مشرقی ترکیہ میں ہزاروں دیگر لوگوں کی طرح میں بھی اس وقت گہری نیند میں تھی جب زمین ہلنا شروع ہو گئی۔ اس خطے میں اب تک کے اس سب سے بڑے زلزلے کا احوال تو ایک طرف، میں واقعتاً نہیں جانتی کہ کسی ایسے شخص کو یہ صورتحال کیسے سمجھاؤں جسے کبھی کسی زلزلے کا تجربہ نہیں ہوا۔

یہ پوری طرح ماورائے حقیقت تجربہ تھا۔ فرش اور دیواریں ہل رہی تھیں، خم کھا رہی تھیں اور ہم بھاگتے ہوئے عمارت کی تین منزلوں سے نیچے اتر کر سڑک پر آ گئے جبکہ ہمارے ذہن میں ایک ہی خیال تھا کہ ہمیں عمارتوں سے دور، بہت دور جانا ہے۔

یہ ساٹھ سیکنڈ میری زندگی کے دہشت ناک ترین لمحات تھے۔ جب ہم قدرے پرسکون ہوئے اور ہمیں احساس ہوا کہ ہم زلزلے میں ہلاک ہونے سے بچ گئے ہیں تو ہمیں یہ اندازہ بھی ہوا کہ اس وقت بارش ہو رہی تھی۔ ہمارے جسم ٹھنڈے تھے اور ٹانگیں جیلی جیسی محسوس ہو رہی تھیں گویا وہ ہمارے جسم کا حصہ نہ ہوں۔ ہمارے ارد گرد ہر شخص دوسروں کو پکار رہا تھا اور چیخ چلا رہا تھا۔”

زلزلے سب سے تباہ کن قدرتی آفات میں سے ایک ہیں، اور ترکیہ کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جو دنیا میں زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ ترکیہ زلزلے کے لحاظ سے ایکٹو زون میں واقع ہے اور اس کی طویل تاریخ تباہ کن زلزلوں سے بھری پڑی ہے۔

کہا یہ جاتا ہے کہ ترکیہ میں زلزلے کا ابتدائی ریکارڈ چوتھی صدی قبلِ مسیح کا ہے۔ اُس وقت ٹرائے کے قدیم شہر میں زلزلے نے شہر کو تباہ کردیا تھا۔ اگرچہ اس زلزلے کی تصدیق نہیں کی جا سکتی، لیکن یہ قدیم یونانی تحریروں میں درج ہے۔ ترکی میں پہلا تصدیق شدہ زلزلہ 654 عیسوی میں آیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے شہر قسطنطنیہ کو جس کا نام اب استنبول ہے، خاصا نقصان پہنچایا۔

16ویں صدی ترکی کے لیے خاص طور پر تباہ کن دور تھا، جس میں کئی بڑے زلزلے آئے۔ 1520ء میں بحیرہ مرمرہ میں آنے والے زلزلے نے استنبول اور خطے کے دیگر شہروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ 1541ء میں اناطولیہ میں آنے والے زلزلے سے ہزاروں افراد ہلاک اور خاصا نقصان ہوا۔

1564ء میں مشرقی بحیرئہ روم میں آنے والے زلزلے نے استنبول کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ اس زلزلے کو ترکی کی تاریخ میں سب سے تباہ کن تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ اس نے بہت سے مکانات اور عمارتیں تباہ کر دی تھیں اور ہزاروں افراد کو ہلاک کیا تھا۔اسی طرح 19ویں صدی میں ترکی میں کئی تباہ کن زلزلے آئے۔ 1851ء میں بحیرئہ ایجیئن میں آنے والے زلزلے نے ازمیر، کیناکلے اور استنبول کے شہروں کو بہت نقصان پہنچایا۔ 1881ء میں اناطولیہ میں آنے والے زلزلے سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور املاک کو خاصا نقصان پہنچا۔

20ویں صدی میں بھی ترکی میں کئی بڑے زلزلے آئے۔ 1939ء میں بحیرئہ مرمرہ میں آنے والے زلزلے سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے اور استنبول، کیناکلے اور ازمیر کے شہروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔

1999ء میں ازمیت میں آنے والے تباہ کن زلزلے کی وجہ سے بہت سی عمارتیں گر گئیں اور استنبول، کیناکلے اور ازمیت کے شہروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔ زلزلے میں 17 ہزار سے زائد افراد اور 50 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔

ترکیہ کی حکومت کے مطابق حالیہ زلزلوں سے صرف ترکیہ میں ہی 5 ہزار 6 سو سے زائد عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق ثقافتی، تاریخی، سائنسی اور دیگر اقسام کی اہمیت کے لیے شناخت کیے گئے متعدد عالمی ثقافتی مقامات کو نقصان پہنچا ہے۔ حالیہ زلزلوں سے جن تاریخی مقامات کو نقصان پہنچا ہے اُن میں ایک گازیانٹیپ کیسل ہے جو شہر گازیانٹیپ کے وسط میں پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔ دوسری صدی عیسوی کے اس مشہور قلعے کو زلزلوں سے شدید نقصان پہنچا ہے، اس کی بہت ساری دیواریں اور واچ ٹاور گرگئے ہیں اور دیگر حصوں کو بھی تقصان پہنچا ہے۔ اس قلعے کی طویل اور بھرپور تاریخ شہر کی قدیم جڑوں اور ترکی کے اس حصے کی طرف آنے والے زائرین اور صدیوں پرانی فاتحین کی بے شمار کامیابیوں کا ثبوت ہے۔ اسی طرح گازیانٹیپ کیسل سے متصل 17ویں صدی کی مسجد کو بھی زلزلوں سے شدید نقصان پہنچا ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق اس مسجد کی مشرقی دیوار اور گنبد جزوی طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ حلب کا قلعہ دنیا کے قدیم ترین قلعوں میں سے ایک ہے جوکہ حالیہ زلزلوں سے تباہ ہوگیا ہے۔

روزنامہ جنگ کے مطابق شام کے نوادرات اور عجائب گھر کے ڈائریکٹوریٹ جنرل نے ایک بیان میں کہا کہ حلب کے قلعے کے اندر عثمانی مل کے کچھ حصے منہدم ہوگئے ہیں جبکہ قلعے کی شمال مشرقی دفاعی دیواروں کے حصے میں شگاف پڑ گئے ہیں۔ مقامی حکّام کا کہنا ہے کہ قلعے کے اندر موجود ایوبی مسجد کے مینار کے گنبد کے کچھ حصے گرگئے، جبکہ قلعے کے داخلی دروازوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، جس میں ’مملوک ٹاور کا داخلی دروازہ‘ بھی شامل ہے۔ اناطولیہ کے علاقے کے قدیم شہر ملاتیا میں بھی 17ویں صدی کی مسجد کو بار بار زلزلوں سے نقصان پہنچا ہے۔ یہ مسجد 1894ء کے زلزلے میں تباہ ہوگئی تھی لیکن پھر اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ 1964ء کے زلزلے میں اسے دوبارہ نقصان پہنچا اور اب حالیہ زلزلوں میں ایک بار پھر اس مسجد کو نقصان پہنچا ہے۔صر ف تاریخی مقامات ہی نہیں  اس کے ساتھ بڑی تعداد میں

وگ تباہ ہو چکے ہیں اسکول سمیت تعلیمی ادارے ختم ہوچکے ہیں ، ہسپتالوں کو نقصان پہنچا ہے ، متاثرہ سڑکوں اور ہوائی اڈوں کو فوری طور پر مرمت کی ضرورت ہے ۔ بہت بڑے پیمانے پر بچاؤ، حفاظتی اقدامات اور بحالی کی کارروائی کا مرحلہ ہے .اس وقت ترکیہ ایک مشکل وقت سے گذر رہا ہے اور عالم اسلام کے ماتھے کا جھومر ہے لوگ ترکوں سے بہت عقیدت رکھتے ہیں ،پاکستانی قوم سے ترک بہت محبت کرتے ہیں اور یہاں کی این جی اوز الخدمت سمیت فوجی رضاکار بھی امدادی کاموں میں موجود ہیں .اور پاکستانی قوم کی دعا ہے کہ ترکیہ اس مشکل وقت سے جلد باہر آئےکیونکہ ترکیہ عالم اسلام کی نئی امید بن کرابھرا ہے .

حصہ