قیصرو کسریٰ قسط(88)

251

عاصم اپنے آپ کو سپاہیوں کی گرفت سے آزاد کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ کلاڈیوس نے مڑ کر اُس کی طرف دیکھا اور بلند آواز میں کہا۔ ’’اسے چھوڑ دو‘‘۔

عاصم سپاہیوں کی گرفت سے آزاد ہوتے ہی بھاگتا ہوا، ایرج کی طرف بڑھا اور اُس کے قریب دوزانو ہو کر۔ ’’ایرج! ایرج!‘‘ پکارنے لگا۔ جب ایرج نے کوئی جواب نہ دیا تو سیتھین مطمئن ہو کر وہاں سے کھسکنے لگے۔ عاصم کچھ دیر بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ تھوری دیر بعد ایرج نے آہستہ آہستہ کراہتے ہوئے گردن اُٹھانے کی کوشش کی تو عاصم نے سہارا دے کر اُس کا سر اپنے زانو پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ایرج مجھے افسوس ہے، میں تمہاری جان نہ بچا سکا۔ لیکن تمہاری زبان سے چند الفاظ ہزاروں جانیں بچا سکتے ہیں‘‘۔

ایرج نے ڈوبتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ ’’اب میری باتوں سے کوئی فائدہ نہیںہوگا۔ خاقان کا لشکر یہاں پہنچنے والا ہے۔ تم اپنی جان بچانے کی فکر کرو… یہ عجیب بات ہے کہ اب میں تمہیں جان بچانے کا مشورہ دے رہا ہوں اور تھوڑی دیر قبل میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ تمہیں اپنے ہاتھ سے قتل کروں۔ خاقان کے آدمیوں نے اُسے یقین دلا دیا تھا کہ میں رومیوں کا جاسوس ہوں… وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے… عاصم یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب میں اِس طرف بھاگا تھا تو مجھے یقین تھا کہ تم مجھے پناہ دینے سے انکار نہیں کرو گے… اب تم میری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ اگر تمہیں کوئی تیز رفتار گھوڑا مل سکتا ہے تو یہاں سے نکلنے کی کوشش کرو۔ اگر اپنے لیے نہیں تو فسطینہ کے لیے… میں نے تمہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ ابھی تک تمہاری راہ دیکھ رہی ہے۔ عاصم تم جائو اور اگر قدرت تمہیں وہاں پہنچنے کا موقف دے تو فسطینہ کو اتنا ضرور بتادینا کہ جسے وہ ہمیشہ قابل نفرت سمجھتی تھی مرتے وقت بھی اُس کی یاد سے غافل نہیں تھا…‘‘ ایرج یہاں تک کہہ کر کھانسنے لگا اور اس کے ساتھ ہی اُس کے منہ سے خون جاری ہوگیا۔ چند ثانیے بعد اُس کی سانس اُکھڑ چکی تھی۔

ہرقل اُس کے قریب کھڑا تھا اور شاہی مترجم اُسے عاصم اور ایرج کی گفتگو کا مفہوم بتارہا تھا۔ ایک عمر رسیدہ رومی نے کہا۔ ’’عالیجاہ ایک مرتے ہوئے انسان کی باتیں جھوٹ نہیں ہوسکتیں۔ اگر خاقان واقعی اِس طرف آرہا ہے تو ہمارے لیے قسطنطنیہ کا رُخ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں‘‘۔ لیکن ہرقل قوت فیصلہ جواب دے چکی تھی۔ ایرج نے ایک جھرجھری لے کر دم توڑ دیا اور اس کے ساتھ ہی وہ افراد جنہیں ہرقل نے خاقان کو منانے کے لیے بھیجا تھا، واپس آتے دکھائی دینے لگے۔ سینٹ کا ممتاز رکن قریب پہنچتے ہی رومی سپاہیوں پر برس پڑا۔ ’’تم سب پاگل ہوگئے ہو۔ تمہیں آوار کو ایک ایرانی کا سر قلم کرنے سے روکنے کی ضرورت نہ تھی‘‘۔

سپاہی کوئی جواب دینے کی بجائے مڑ کر قیصر کی طرف دیکھنے لگے تو وہ قدرے نرم ہو کر قیصر سے مخاطب ہوا۔ ’’عالیجاہ یہ معاملہ خطرناک حد تک بگڑ چکا ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ خاقان کے آدمیوں کو جلد اس بات کا پتا چل گیا کہ اُن کے ساتھ ایک ایرانی جاسوس بھی یہاں پہنچ گیا تھا اور اُس کا مقصد اِس کے اور کچھ نہ تھا کہ یہ ملاقات ناکام بنادی جائے‘‘۔

قیصر نے جواب دیا۔ ’’ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ اگر ہم یہ بات درست تسلیم کرلیں تو ایرانیوں کا نہیں بلکہ دو جاسوس یہاں موجود ہیں۔ مجھے یہ عرب جسے کاڈیوس اپنا دوست کہتا ہے اِس قتل کرنے والے آدمی سے کہیں زیادہ خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر خاقان کو اطمینان ہوچکا ہے تو وہ ابھی وہاں کیوں کھڑا ہے؟‘‘۔

رومی نے جواب دیا۔ ’’عالیجاہ اُس کے آدمی ہماری نیت پر شک کررہے ہیں اور وہ ان کے شبہات دور کرنے کی کوشش کررہا ہے‘‘۔
قیصر نے کہا۔ ’’کیا سیتھین یہ چاہتے ہیں کہ میں بذاتِ خود وہاں جا کر اُن سے التجا کروں گا؟‘‘
’’نہیں عالیجاہ وہ آجائیں گے‘‘۔

عاصم جو ابھی تک ایرج کے قریب بیٹھا ہوا تھا، اُٹھ کر کلاڈیوس سے مخاطب ہوا۔ ’’یہ شخص واقعی ایرانیوں کا جاسوس تھا لیکن خاقان اسے اپنی کار گزاری دکھانے کے لیے ساتھ لایا تھا۔ اب یہ مررہاہے اور میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے میرے متعلق کیا سوچا ہے؟‘‘۔

کلاڈیوس نے قیصر کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’عالیجاہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شخص کسی سازش کی نیت سے یہاں آیا ہے تو میں بھی اِس کے جُرم میں حصہ دار ہوں۔ اور ہم دونوں کو ایک جیسی سزا ملنی چاہیے لیکن کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ ہمارے متعلق کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے خاقان کے ارادوں کے متعلق اچھی طرح اطمینان حاصل کرلیں‘‘۔

ایک رومی نے کہا۔ ’’عالیجاہ، میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ اِس شخص کو خاقان کے حوالے کردیا جائے۔ سیتھین ایسے آدمی کے منہ سے سچی باتیں اُگلوانے کے طریقے جانتے ہیں‘‘۔

قیصر تذبذب کی حالت میں کھڑا تھا، اچانک میدان کی بائیں جانب ایک سرپٹ گھورے کی ٹاپ سنائی دی… اور کنارے پر جمع ہونے والے لوگوں نے اِدھر اُدھر سمٹ کر آنے والے کے لیے تھوڑی سی جگہ خالی کردی، ایک رومی سوار میدان میں داخل ہوتے ہی دونوں ہاتھ اُٹھا کر بلند آواز میں چلانے لگا۔ ’’ہوشیار! ہوشیار! آوار آرہے ہیں‘‘۔

سیتھین آوار کو دیکھتے ہی اپنے گھوڑوں پر سوار ہوگئے اور پیشتر اِس کے کہ رومی اپنے ہوش و حواس پر قابو پاتے، وہ ایک طرف مار دھاڑ کرتے ہوئے میدان سے باہر نکل گئے۔

رومی سوار اب قیصر کے سامنے رُک کر دہائی دے رہا تھا، لیکن قیصر کی حالت اُس شخص کی سی تھی جسے اچانک سانپ نے ڈس لیا ہو۔ چند اور رومی سوار مختلف سمتوں سے میدان میں داخل ہوئے اور اِن سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا۔ ’’سیتھین آرہے ہیں‘‘۔

اب ہر سمت افراتفری کا عالم تھا۔ مقامی لوگ چیختے چلاتے اپنے گھروں کا رُخ کررہے تھے اور قسطنطنیہ اور دوسرے شہروں سے آنے والے معززین افراتفری کے عالم میں شامیانے کے پیچھے پہنچ کر اپنے گھوڑوں پر سوار ہورہے تھے۔ رومی فوج کے سوار اور پیادہ سپاہی چاروں اطراف سے سمٹ کر قیصر کے گرد صفین باندھنے لگے۔ ایک نوجوان جس نے قیصر کے گھوڑے کی باگ پکڑ رکھی تھی، بھاگتا ہوا، اُس کے سامنے پہنچا اور قیصر جو کسی حد تک اپنی سراسیمگی پر قابو پاچکا تھا کسی توقف کے بغیر گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ کلاڈیوس نے بلند آواز میں کہا۔ ’’عالیجاہ آپ سیدھے قسطنطنیہ کا رُخ کریں، ہم دشمن کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ قیصر نے گھوڑے کو ایڑ لگادی اور اُس کے محافظ سپاہیوں کا ایک دستہ اُس کے ساتھ ہولیا۔ ولیریس اور عاصم کی طرح کلاڈیوس بھی اپنا گھوڑا نوکروں کے پاس چھوڑ آیا تھا لیکن اب اُس کے لیے واپس جانے کا موقع نہ تھا۔ چناں چہ جب ایک سپاہی نے اُسے اپنا گھوڑا پیش کیا تو وہ بلاتوقف اُس پر سوار ہوگیا اور اِدھر اُدھر بھاگ کر سوار اور پیادہ دستوں کو ہدایات دینے لگا۔ تماشائیوں میں سے کئی ایسے تھے جو افراتفری کے باعث اپنے گھوڑوں سے محروم ہوچکے تھے لیکن اُن کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔ ہرقلیہ کے جو نازک مزاج رئوسا پالکیوں پر سوار ہو کر آئے تھے لیکن اب انہیں اُٹھانے والے رفوچکر ہوچکے تھے۔ رتھوں کے سوار خاقان کے لشکر کی آمد کی اطلاع پاتے ہی فرار ہوچکے تھے اور ان کے راستے میں آنے والے کئی آدمی زخمی اور ہلاک ہوچکے تھے۔

عاصم اپنا گھوڑا لینے کے لیے بھاگا، لیکن راستے میں چیختے چلاتے بدحواس لوگ ایک دوسرے کے اوپر گر رہے تھے اور کئی عورتیں اور بچے اُن کے پائوں تلے روندے جارہے تھے۔ ایک خیمے کے قریب دو مضبوط آدمی ایک گھوڑے پر قبضہ جمانے کے لیے زور آزمائی کررہے تھے اور ایک بوڑھا دہائی مچا رہا تھا۔ ’’مجھے ان ڈاکوئوں سے بچائو، میری مدد کرو، یہ گھوڑا میرا ہے‘‘۔

اپنے آگے اور پیچھے لوگوں کے بے پناہ ہجوم کے باعث عاصم کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ کس سمت بھاگ رہا ہے۔ تھوڑی دیر اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بعد اُسے آس پاس ہزاروں گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دینے لگی۔ پھر اچانک ایک خیمے کے قریب اُسے کلاڈیوس کا ایک عمر رسیدہ غلام دکھائی دیا۔

’’میرا گھوڑا کہاں ہے؟‘‘۔ ’’عاصم نے اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد بدحواس سا ہو کر پوچھا۔

غلام نے جواب دیا۔ ولیریس آپ سے نہیں ملا، وہ ابھی تینوں گھوڑے لے گیا ہے۔ وہ یہ کہتا تھا کہ میرے آقا واپس نہیں آئیں گے۔ اور اُن کے دو نوکر بھی ولیریس کے ساتھ چلے گئے ہیں، اور میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔

’’اگر تمہیں قتل ہونا پسند نہیں تو یہاں سے بھاگ جائو، ورنہ کسی ایسی جگہ چھپ جائو، جہاں دشمن کی نگاہ نہ پہنچ سکے‘‘۔
عاصم یہ کہہ کر واپس مڑا تو میدان کی طرف نعروں اور چیخوں سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ سیتھین حملہ کرچکے ہیں۔ کچھ دیر وہ یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ اُسے کیا کرنا چاہیے، آوار کے ہاتھوں گرفتار ہونے کی صورت میں اُس کی موت یقینی تھی۔ لیکن پیدل بھاگنے کی صورت میں بھی اُسے قسطنطنیہ پہنچ جانا بعید ازقیاس معلوم ہوتا تھا۔ کچھ دیر تذبذب اور پریشانی کی حالت میں اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد وہ ہرقلیہ کی طرف بھاگنے والوں کا ساتھ دے رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ خالی تھے اور یہ پہلا موقع تھا کہ وہ صرف اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔ تھوری دیر بعد موسم سرما کی خنک ہوا کے باوجود اُسے پسینہ آرہا تھا۔ جب سانس پھول گئی تو اُس نے اپنی رفتار ذرا کم کردی۔ لیکن تھوڑی دیر بعد پھر زندگی کی خواہش جسمانی تھکاوٹ پر غالب آنے لگی اور اُس نے اپنی رفتار تیز کردی، شہر سے کوئی آدھ میل کے فاصلے پر اُسے ایک نوجوان لڑکی دکھائی دی، جس نے ایک عمر رسیدہ نحیف اور لاغر آدمی کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ یہ بوڑھا جو اپنے لباس سے طبقہ اعلیٰ کا فرد معلوم ہوتا تھا، چلّاچلّا کر لڑکی سے کہہ رہا تھا۔ ’’بیٹی اب میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا، خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو اور اپنی جان بچانے کی کوشش کرو۔ ہماری فوج دشمن کو زیادہ دیر نہیں روک سکے گی‘‘۔

اور نو عمر لڑکی جو اِس بے بسی کے عالم میں بھی ایک شہزادی معلوم ہوتی تھی، یہ کہہ رہی تھی۔ ’’ابا جان ذرا ہمت سے کام لیجیے، وہ دیکھیے شہر کا دروازہ یہاں سے زیادہ دُور نہیں‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ