یقین

301

سردی کا موسم ختم اور موسمِ گرما کی شروعات ہو تو پہاڑی علاقوں میں یہ وقت موسمِ بہار کا ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی برف سورج کا چہرہ دیکھتے ہی پگھل کر ندی نالوں میں بہنا شروع کردیتی ہے۔ جہاں کہیں مٹی کے ذرات بھی پڑے ہوں وہاں پر سبزہ اُگنا شروع ہوجاتا ہے۔ تاحدِّ نگاہ پہاڑوں پر سبز قالین بچھ جاتے ہیں، ان پہاڑوں پہ بنے گھر دور سے گڑیا کے خوب صورت سے گھر معلوم ہوتے ہیں۔ اس حُسن کی وجہ سے ہی تو شاعروں نے کشمیر کو ’’جنت نظیر‘‘ کا نام دیا ہے۔

اس حسین وادی کے ایک گھر میں ایک سترہ سالہ لڑکی فاطمہ بے چینی سے اِدھر اُدھر ٹہل رہی تھی۔ کسی بات نے اُسے بے سکون کر رکھا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ جی بھر کے روئے اور اپنے اندر کی ساری اداسی آنسوؤں کے ساتھ باہر انڈیل دے۔ وہ بات بھی کرے تو کس سے کرے؟ اپنے اندر کا لاوا کس کے سامنے اُگلے؟ ماں پہلے ہی دشمن کی اندھی گولی کا شکار ہوکر جامِ شہادت نوش کرچکی تھی۔ ماں کے بعد بابا بھی زیادہ تر چپ ہی رہنے لگے، اور بھائی اپنے کاموں میں مصروف رہتا۔ وہ کہاں سے آتا اور کہاں جاتا ہے، سوائے بابا کے کسی کو معلوم نہیں تھا۔

بابا بھی اس وقت اپنے حساب کتاب کی کاپیاں لے کر بیٹھا تھا اور اپنے کام میں مگن تھا۔ ارد گرد کے ماحول کی دل کشی بھی اس کی توجہ اپنے کام سے نہ ہٹا رہی تھی۔ وہ اگر کبھی ان خوب صورت نظاروں کو غور سے دیکھتا بھی تو اُن کا حسن اپنے اندر جذب کرنے کے لیے نہیں بلکہ خالی خولی نظروں سے دیکھتا۔ چہرے پر دل کش مسکراہٹ کے بجائے اندر کا کرب پھیل رہا ہوتا۔ اس کے حالات نے اس سے زندگی کا حُسن ہی چھین لیا تھا۔ اب زندگی اس کے لیے محض ایک مقررہ مدت پوری کرنے کا نام رہ گئی تھی۔ بیوی کی شہادت کے بعد وہ اپنے بچوں کے لیے ماں کا کردار بھی ادا کررہا تھا لیکن جانتا تھا کہ وہ بچوں کو جتنی مرضی محبت و شفقت دے دے، ان کی ماں کا خلا کبھی پُر نہیں کرسکتا۔

اس وقت بھی وہ یہاں بیٹھا بظاہر اپنے کام میں مگن تھا لیکن سوچوں کے پرندے نہ جانے کہاں سے کہاں پرواز کررہے تھے۔ پھر یہ تسلسل فاطمہ کی آواز سے ٹوٹا جو اس کے پاس بیٹھ کر بے چینی سے پوچھنے لگی:

’’بابا! میں اس قید والی زندگی سے تنگ آگئی ہوں۔ یہ لاک ڈاؤن اور محاصرے کب ختم ہوں گے؟ پیدا ہونے سے لے کر آج تک ہم نے کبھی چین و سکون نہیں دیکھا۔ ہم اپنے گھروں اور زمینوں کے مالک ہوتے ہوئے بھی محض قیدی ہیں۔ نہ جانے ہمیں آزادی اور سکون بھری زندگی کب نصیب ہوگی! ہم بھارت کے تسلط سے کب آزاد ہوں گے؟ کاش! یہ پیارا دن میں بھی اپنی زندگی میں دیکھ لوں۔‘‘

فاطمہ کی گفتگو سن کر بابا نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنا دستِ شفقت تسلی آمیز انداز میں اس کے سر پر رکھا اور کہا ’’اِن شاء اللہ یہ خوشیوں والا دن تم ضرور دیکھو گی میری بیٹی۔‘‘

فاطمہ کا بھائی طلحہ زبیر‘ اس وقت ایک کونے میں بیٹھا اپنی پستول صاف کررہا تھا‘ کیونکہ وہ اپنی سب چیزوں سے زیادہ اپنی پستول کا خیال رکھتا تھا جس کے بارے میں وہ کہتا تھا کہ اسے میں اپنے ساتھ کافر کے ظلم کا نوالہ بننے سے بچنے کے لیے رکھتا ہوں۔ وہ بہن کی بات سن کر مسکرانے لگا اور کہا:

’’میری بہنا اِن شاء اللہ بہت جلد ایسا ہوگا۔ ہوسکتا ہے چند ماہ میں ہی تمہیں کشمیر کی فضائیں جابر دشمن کے تسلط سے آزاد مل جائیں۔‘‘

طلحہ کی پُریقین لہجے میں کہی گئی بات سن کر بابا نے اس کی طرف دیکھا اور زیرِ لب ’’اِن شاء اللہ‘‘ کہا۔ رات بھر جاگنے کی وجہ سے طلحہ کا سر اب درد سے پھٹ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر سونا چاہتا تھا۔ طلحہ ایک جہادی تنظیم کا سرگرم رکن تھا۔ اس کا یہ جہاد ابھی دنیا کی نظر سے اوجھل تھا۔ سوائے بابا کے اور کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ رات کے اندھیرے میں گھر سے نکلتا اور فجر سے پہلے پہلے واپس آجاتا۔ کبھی چند دنوں کے لیے وہاں رک بھی جاتا، لیکن اس کا آنا جانا دن کی روشنی میں نہیں تھا۔ دن کے وقت وہ اپنے بابا کی دکان ہی چلاتا۔ وہ سونے کے لیے ابھی لیٹا ہی تھا کہ کمرے کی کھڑکی سے باہر پہاڑ پر تنکے اکٹھی کرتی ہوئی خالہ کوثر خالہ نظر آئی۔ خالہ کوثر اچھے بھلے کھاتے پیتے اور مضبوط گھرانے کی عورت تھی۔ وہ مجاہدوں کی ماں تھی جسے دو جوان بیٹوں کی شہادت تو نہ لرزا سکی البتہ بھارتی فوجیوں کے بیٹی کی عصمت دری کے بعد اسے قتل کرنے پر وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی تھی کیوں کہ یہ بھیانک صدمہ اس کی برداشت سے باہر تھا۔

خالہ کوثر کا غم یاد آتے ہی طلحہ کا خون کھول اٹھا۔ وہ غصے سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے اپنے آپ کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگا تاکہ تھوڑی دیر سو سکے۔

…٭…
رات کا دوسرا پہر ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ دھماکوں اور گولیوں کی آوازوں سے پوری وادی لرز اٹھی، لیکن یہ کشت و خون اب مسلمانوں کا نہیں بلکہ غاصبوں کا تھا۔ حکومتِ پاکستان نے کشمیر میں جہاد کی اجازت دے دی تھی جس کی وجہ سے مجاہدین اور پاکستانی آرمی کی بڑی تعداد بھیس بدل کر کشمیر پہنچ چکی تھی۔ مقامی مجاہدین بھی ان کے شانہ بشانہ تھے۔ انہوں نے سب کچھ رازداری سے کیا اور دشمن کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ انہوں نے دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لیا۔ پھر یک لخت حملہ کرکے تمام بھارتی فوجی چوکیوں پر کنٹرول سنبھال لیا۔ کچھ دشمن مارے گئے اور کچھ قیدی بن گئے۔ سارا کشمیر اب آزاد تھا اور کشمیری عوام سربسجود تھے۔ اب صرف کشمیر کی حکومت سازی کے لیے باہمی مشورہ درکار تھا۔ اتنے میں طلحہ زبیر کی آنکھ کھل گئی۔ لب پر تبسم، دل خوشی سے معمور اور پُرجوش تھا۔ زبان پر ’’عنقریب، اِن شاء اللہ ایسا ہی ہوگا‘‘کے الفاظ تھے۔

حصہ