بے حسی اپن جگہ ہے خودکشی اپنا جگہ

588

کل راشد، شارق اور عابد کچہری لگائے بیٹھے تھے، میں بھی ان کے درمیان جا بیٹھا۔ تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ شہزاد صاحب کی آمد بھی ہوگئی، بس پھر کیا تھا، سیاست سے شروع ہونے والی گفتگو ملکی معیشت تک آن پہنچی اور شارق نے مجھ سے حکمرانوں کی بے حسی پر لکھی نظم سننے کی فرمائش کر ڈالی۔ ماحول گرم تھا، ایسے ماحول میں ایک شاعر کو بھلا اور کیا چاہیے تھا! اس لیے میں بھی ”عرض کیا ہے“ کہہ کر شروع ہوگیا:

کل نجی محفل میں بیٹھے شخص نے مجھ سے کہا
زہر کھا کر مر رہی ہے شہر میں خلقِ خدا
اور اس پر دے رہا ہے وقت کا حاکم بیان
”کیا ہوا جو زہر کھا کر مر گئی خلقِ خدا

بے حسی اپنی جگہ ہے خودکشی اپنی جگہ“

ابھی میری نظم شروع ہی ہوئی تھی کہ شہزاد صاحب اپنے مخصوص انداز میں بولے ”واقعی ہمارے حکمران بڑے بے حس ہیں، عوام عجیب صورتِ حال سے دوچار ہیں، ہر چیز مہنگے داموں فروخت ہورہی ہے۔“

جہاں شہزاد صاحب شروع ہوجائیں وہاں کسی اور کی دال کیسے گل سکتی ہے! میری نظم تو ایک طرف رہی سب اُن کی جانب متوجہ ہو گئے۔ وہ بولتے رہے اور ہم سنتے رہے۔ ملک کی معاشی صورتِ حال پر ان کا کہنا تھا:

”بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت شاید ہمارے ملک کی تقدیر کا حصہ ہیں۔ سیاسی اور قانونی بحرانوں کے بعد اب ملک میں حالیہ اقتصادی بحران نے جو شدت اختیار کی ہے اس سے نمٹنا کسی کے بس کی بات نہیں، یا یوں کہیے کہ یہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا مواصلاتی ترقی کا دعویٰ کرنے والے شہباز اسپیڈ، حالات یہ بتاتے ہیں کہ ان کی معاشی پالیسیوں کے باعث نہ صرف روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہوئی ہے بلکہ کمزور مالیاتی اداروں، غیر ملکی قرضوں اور بڑھتے ہوئے حکومتی اخراجات نے ملکی معیشت کو اس حد تک نقصان پہنچایا ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی خطرناک حد تک کم ہوگئے ہیں، جس کے نتیجے میں غربت کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ تیزی سے بگڑتی معاشی صورتِ حال کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ معیشت میں بہتری لانے کی بڑھکیں مارنے والوں کے تمام دعوے سفید جھوٹ ثابت ہوئے ہیں اور ہر آنے والے دن کے ساتھ ملک کو مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبایا جارہا ہے۔ اب تو یہ حالات ہیں کہ اسٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر صرف تین ارب ڈالر رہ گئے ہیں، یعنی مستقبل قریب میں جو قرضے ادا کرنے ہیں ہم اب اس کے بھی اہل نہیں رہے۔ اس پر ظلم یہ کہ آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر مزید قرض لینے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کی جارہی ہیں اور غیر ملکی آقاؤں کے کہنے پر پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کردیا گیا ہے، یعنی عوام کی دہری ہوتی ہوئی کمر پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اصل کہانی تو یہ ہے کہ مہنگائی مکاؤ کا نعرہ مار کر اقتدار میں آنے والوں کی جانب سے بنائی جانے والی پالیسیاں ملک کے طاقتور طبقے کو فائدہ پہنچا رہی ہیں جس کے اثرات براہِ راست غریب عوام پر پڑ رہے ہیں۔ موجودہ حکمران طبقے کی معاشی پالیسیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اقدامات کے نتیجے میں عوام کو کسی قسم کا کوئی بھی ریلیف نہیں مل رہا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کا بااختیار طاقتور طبقہ صرف اپنے مفادات کو ہی مدنظر رکھتا ہے اور اس کے لیے ایسی پالیسیاں بنانے کو ترجیح دیتا ہے جس سے قومی دولت لوٹنے کا موقع مل سکے یا پھر بینکوں سے لیے گئے اپنے ذاتی قرض معاف کروائے جا سکیں اور اس کا بوجھ بائیس کروڑ عوام پر ڈال دیا جائے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر جو کچھ بھی میں کہہ رہا ہوں وہ خیالات نہیں بلکہ اس نے عوام کو کس طرح متاثر کیا ہے اس سے ہر ذی شعور انسان واقف ہے۔ آپ کسی سے بھی رائے لے لیں، وہ یہی کچھ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ غربت نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ سب یہی آہ و فغاں کرتے نظر آئیں گے کہ سمجھ میں نہیں آتا زندہ رہنے کے لیے کیا کیا جائے، کس طرح اپنے اور اپنے خاندان کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کیا جائے! مہنگائی کی وجہ سے لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں، بھوک و افلاس کے ہاتھوں مجبور لوگ خودکشیاں کررہے ہیں اور حکمران سب اچھا ہے کا راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔ ہر شے عوام کی دسترس سے دور ہوتی جارہی ہے، اب تو دالوں اور سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ آلو 50 سے60روپے کلو، پیاز 250روپے کلو، چاول 280روپے جبکہ ہرا مصالحہ بھی دگنے داموں فروخت کیا جارہا ہے، ایک کلو آٹا 120 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ سو ڈیڑھ سو روپے کلو تک فروخت ہونے والا گھی اور آئل ساڑھے5سو روپے فی کلو، چینی100روپے، مرغی کا گوشت 550 روپے سے کم نہیں ملتا، جبکہ دودھ 190 روپے کلو اور دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔یعنی مہنگائی کی شرح 24.5 تک بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں غریب کیسے جیے، کس طرح پورا کرے؟بس اللہ کا ہی آسرا ہے۔ حکومت تو اپنی کرپشن اور لوٹ مار میں لگی ہوئی ہے، حکمرانوں کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔ یہ صرف میرے گھر کا مسئلہ نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، اور اس کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات نہ ہونے کے باعث ملک میں طوائف الملوکی پھیلی ہوئی ہے۔ کروڑوں نفوس پر مشتمل آبادی میری طرح غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔“

تمام دوستوں نے شہزاد کی باتیں بڑے تحمل سے سنیں۔ ان کی ایک ایک بات ہمارے معاشرے کی عکاسی کررہی تھی جس کی تائید کرتے ہوئے شارق نے کہا:

”شہزاد نے جو کچھ بھی کہا وہ بالکل ٹھیک ہے۔ ایک طرف یہ صورتِ حال ہے تو دوسری جانب بے روزگاری کے باعث ڈکیتیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ظاہر ہے جس معاشرے میں مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں جرائم کا ہونا فطری ہے۔“ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اس نے کہا: ”یہاں مجھے غلام رسول عرف چھوٹو کی کہانی یاد آگئی۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو اس نام سے ناآشنا ہو۔ کون نہیں جانتا غلام رسول چھوٹو گینگ کا سرغنہ مانا جاتا تھا۔ عدالت نے چھوٹو اور اس کے ساتھیوں کو اٹھارہ بار سزائے موت کا حکم سنایا، حکم سن کر وہ مسکرانے لگا۔ اگر اس کی کہانی سنی جائے تو معلوم ہوگا کہ بھوک اور غربت کی چکی میں پسا یہ شخص کبھی محنت مزدوری کرتا تھا، اس کے بھی بیوی بچے تھے.. والدین اور بہن بھائی تھے جن کی کفالت چھوٹو کی ذمہ داری تھی۔ غربت، بھوک، افلاس سے تنگ چھوٹو نے جرائم کی دنیا میں قدم رکھا۔ وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کسی کو اغوا کرلیتا تو کبھی ڈاکا مارتا، یہاں تک کہ مزاحمت پر کسی کو زخمی یا قتل بھی کردیتا۔ چھوٹو کو سزا تو ہوگئی لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ وہ جرائم کی دنیا میں کیوں کودا؟ وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے وہ ایسی راہوں پر چل نکلا جنہوں نے اسے منوں مٹی تلے پہنچا دیا۔ اس کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ اس کے پیچھے بے روزگاری، بھوک اور فاقہ کشی تھی جنہوں نے نہ جانے کتنے لوگوں کو چھوٹو بنا ڈالا۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے نہ جانے کتنے لوگ جرائم کی دنیا سے منسلک ہورہے ہیں۔ چھوٹو کی کہانی سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ بھوک وافلاس نے ہی اسے غلام رسول سے چھوٹو بنایا۔ خیر اپنے جرائم کی تو اُسے سزا مل گئی لیکن اصل مسئلہ اب بھی اپنی جگہ موجود ہے، اور وہ مسئلہ مہنگائی ہے جس کے بڑھنے سے غربت بڑھتی ہے جو انسان سے اُس کا سب کچھ چھین لیتی ہے۔ بھوک، محرومی، بیماری، بے یقینی، مایوسی، جہالت، ناامیدی… یہ سب غربت کی مختلف جہتیں ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ غربت کے سمندر کی گہرائی کو کوئی نہیں جان سکتا، اس کی کشتی میں ناانصافیوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اس کا سمندر کی سطح پر تیرتے رہنا اور ساحل تک پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔“

اب راشد کی باری تھی، اس بحث میں وہ بھی اپنا حصہ ڈالنے کو بے چین تھا، کہنے لگا:

”درحقیقت ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہ فنا اور بقا کی قوتوں کے درمیان ایک کش مکش سے دوچار ہے۔ ایک جانب پُرشکوہ بنگلے اور قلعہ نما محل نظر آتے ہیں، جہاں ہیٹر بھی جلتے ہیں اور ائیرکنڈیشنڈ بھی چلتے ہیں، اور دوسری جانب خزاں رسیدہ پتّوں کی طرح کچے مکانات اور جھونپڑیوں کی یلغار ہے، جہاں لالٹیں بھی جلتی ہیں اور دل و دماغ بھی۔ جہاں امیروں کا رعب و دبدبہ ہے اور غریبوں کی بے بسی بھی… یہ سارا مسئلہ طبقاتی تفریق کا ہے۔“

آخر میں عابد نے اس بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس انداز میں کیا:

”ہم نے جتنی باتیں کیں وہ حقائق ہیں۔ ہمارے بس میں کچھ نہیں، اس پر ہم صرف احتجاج ہی کرسکتے ہیں۔ ملک کو اس نازک صورتِ حال سے نکالنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ ہم تو مشورہ ہی دے سکتے ہیں، کام اربابِ اختیار کو کرنا ہے۔ لہٰذا ہمارے حکمرانوں کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ ہوسکے۔ ایسی پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی جن سے طبقاتی تفریق، لاقانونیت اور طواف الملوکی سے نجات حاصل ہوسکے۔ یقین کیجیے ایسے اقدامات سے ہی ملک سے بے چینی، افراتفری، بھوک، افلاس، جرائم سمیت بڑھتی ہوئی مہنگائی جیسے عذابوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے، بصورتِ دیگر حالات میں بہتری ناممکن ہے۔“

حصہ