ـ5 رروری کی کہی اور ان کہی داستاب

216

یہ مقام حیرت ہے کہ محض ڈھائی عشرے ہونے کوہیں کہ نوجوان نسل کے ذہنوں سے یہ بات محو ہو چکی ہے کہ آخر پانچ فروری کو ہوا کیا تھا؟پانچ فروری کسی داستان فتح کی یاد ہے یا کسی شکست کے جشن کا دن ؟ کشمیریوں ،پاکستان اور بھارت میں سے کس فریق نے پانچ فروری کو کسی فریق مخالف کو پچھاڑا تھا؟ پانچ فروری کے بارے میں ان لوگوں کااستفہامیہ انداز کسی حد قابل قبول ہوتا ہے جو1990کے بعد سنِ شعور کو پہنچے مگر جو لوگ پہلے احتجاج میں شریک تھے ،وہ بھی اس دن کے پس منظر کو بھول بھال چکے ہیں۔ستر اور اسی کی دہائیاں کشمیر میں امید اور مایوسی سے عبارت ہیں ۔ان دونوں دہائیوں میں گرد وپیش میں اور خود کشمیر کے اندر پیش آنے والے کچھ سیاسی واقعات نے کشمیریوں کو پہلے مایوسی کی گہرائیوں میں دھکیلا پھر یکایک وہ امید کی کہکشاوں میں سفر کرنے لگے ۔ستر کی دہائی میں سقوط ڈھاکہ نے کشمیریوں کے اعصاب شل کرنے اور انہیں گر دوپیش اور مستقبل سے مایوس کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس مایوسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیریوں کے سب سے مقبول اور سربرآوردہ لیڈر شیخ عبداﷲ اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد ترک کرکے نئی دہلی کے ساتھ شراکت اقتدار کا فارمولہ طے کرنے پر مجبور ہو گئے ۔انہوں نے حق خود ارادیت کا موقف ترک کے کشمیر پر بھارت کے کنٹرول کو ایک حقیقت کے طور تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔یہ کشمیریوں کی مایوسی کا ایک اہم مقام تھا جب انہیں یہ یقین ہو گیا کہ اب پاکستان ان کی مدد کی پوزیشن میں نہیں رہا اس لیے انہیں دہلی کے ساتھ کشمکش کے ماحول کی بجائے تسلیم ورضا کے ساتھ دن گزارنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔اس ماحول میں بھی گو کہ امید پرست طبقہ اپنی جدوجہد جاری رکھا ہوا تھا مگر وہ کشمیری سماج کا مرکزی دھارا نہیں تھا ۔اس سماج کا مرکزی دھارا شیخ عبداﷲ کی ذات اور جماعت تھی جو اب بھارت کے ساتھ صلح کر چکی تھی ۔اسی کی دہائی میں اس مایوسی نے ایک نئے زاویے میں سفر کرنا شروع کیا ۔انقلاب ایران اور جہاد افغانستان وقت کی دو اہم سپر طاقتوں امریکہ اور سوویت یونین کے خلاف برپا ہوئے ۔

دونوں تحریکوں نے کشمیریوں کی مایوسی کو نئی امید میں بدل دیا ۔اس سے پہلے کشمیر پر فلسطین کی جدوجہد کے اثرات تھے ۔محمد مقبول بٹ اور ان کے ساتھی کشمیری نیشنل ازم کی بنیاد پر یاسر عرفات ،بن بیلا وغیرہ کو آئیڈیلائز کر رہے تھے ۔ایران اور افغانستان کی تحریکوں کے بعد کشمیر میں اسلامی سوچ کی بنا پر جدوجہد کا نیا ڈھنگ اختیار کرنے کی سوچ اُبھرتی چلی گئی ۔اسی کی دہائی کے وسط میں کشمیر کی ایک اہم طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ جس کی قیادت شیخ تجمل الاسلام (حال ڈائریکٹر کشمیر میڈیا سروس اسلام آباد) کر رہے تھےایرانی انقلاب کے اثرات کی زد میں آچکی تھی ۔شیخ تجمل کی قیادت میں اس طلبہ تنظیم نے کشمیر میں ایرانی طرز کا انقلاب برپا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک عالمی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا ۔واضح رہے کہ اس وقت ایران میں بھی انقلاب کو برآمد کرنے کی سوچ تقویت پکڑ رہی تھی ۔جو ایران سے باہر اپنے اثرات ظاہر کرنے لگی تھی۔بھارت نے اس کانفرنس کوبزور طاقت روک دیا اور یوں شیخ تجمل اور ان کے کچھ ساتھی گرفتار ہوئے ،کچھ جلاوطن اور کچھ زیر زمین چلے گئے ۔اسی دوران ایک سرگرم سیاسی کارکن عبدالمجید ڈار نے 1982میں ہی افغان جہادی گروپ حزب اسلامی کی پیروی کرتے ہوئے حز ب اسلامی کشمیر کے نام سے ایک زیر زمین گروپ تشکیل دے کر اخبارات کو بیان جاری کرنا شروع کئے ۔یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ کشمیریوں کا ایک طبقہ آہستہ روی کے ساتھ افغان جہاد کے اثرات کو قبول کرتا جا رہا ہے ۔یہ مجید ڈار وہی تھے جو بعد ازاں حزب المجاہدین کے چیف کمانڈر بنے اور 2000میں انہوں نے بھارت کے ساتھ یک طرف جنگ بندی کا اعلان کرکے عالمگیر شہرت حاصل کی ۔اُدھر محمد مقبول بٹ اور ان کے ساتھی مائو،چی گویرا،بن بیلا اور یاسر عرفات ، عمرمختار،لیلیٰ خالد سمیت اس دور کی مقبول تحریکوں کو آئیڈیلائز کرتے اور انہی کے اثرات کے تحت اپنے راستے پر کاربند تھے ۔

یہ سارے حالات و واقعات کشمیر میں ذہنوں اور دلوں پر اپنے اثرات مرتب کر رہے تھے۔جس طرح ستر کی دہائی میں سقوط ڈھاکہ اور اندرا عبداﷲ ایکارڈ نے کشمیریوں کی مایوسی کو انتہا پر پہنچا دیا اسی طرح اسی کی دہائی میں مقبول بٹ کی پھانسی اور مسلم متحدہ محاذ کے قیام کے دو اہم واقعات نے کشمیریوں کو امید کے نئے راستوں پر ڈال دیا ۔انہیں انداز ہ ہوا کہ وہ وقت اور حالات کا دھارا بدل سکتے ہیں کیونکہ بھارت سوویت یونین اور امریکہ سے بڑی طاقت نہیں۔جس طرح اندرا عبداﷲایکارڈ سقوط ڈھاکہ کا ہی نتیجہ تھا بالکل اسی طرح مسلم متحدہ کا قیام مقبول بٹ کی شہادت کا غیر محسوس نتیجہ تھا ۔وہ سارا غصہ ،سارا انتقام اور ساری مایوسی جو مقبول بٹ کی شہادت سے کشمیریوں کی روح کی گہرائیوں میں اتر گئی تھی مسلم متحدہ محاذ کی صورت میں انڈیل دی گئی اور اس کے بعد سوچوں کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوگیا۔

جنرل ضیاء الحق خطے میں اپنے ایجنڈے پر کاربند تھے ۔وہ افغانستان سے سوویت انخلاء کے بعد ذہن میں اپنا نقشہ سجاے بیٹھے جبکہ امریکیوں کا ایجنڈا اور نقشہ اس سے یکسر جدا تھا۔ بھارت سیاچن پر قبضے کے بعد وولر بیراج سمیت پاکستان کے پانیوں پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے کوشاں تھا ۔اسلام آباد میں بھارت کو سوئی چبھونے کی حکمت عملی اپنائی گئی تھی مگر کشمیر کے سیاسی ماحول کو عسکری میں بدلنا خاصا مشکل تھا۔مسلم متحدہ محاذ کی شکست نے یہ مشکل آسان کر دی ۔یوں کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہو گیا ۔کوئی منظم جماعت اس جدوجہد کی حمایت نہیں کر رہی تھی البتہ نوجوانوں کے غیر منظم اور غیر معروف گروہوں نے جسے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کی چھتری حاصل ہوگئی اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کر لیا۔جنرل ضیاء الحق کا جہاز تباہ ہو گیا۔بھارت نے مسلح جدوجہد کا ابتدائی تانا بانا بکھیر کر رکھ دیا ۔درجنوں نوجوان گرفتار ہوگئے ۔چند ایک کنٹرول لائن عبور کر کے آزادکشمیر آگئے ۔ان میں سے کئی ایک کو آزادکشمیر پولیس نے نظر بند کردیا ۔

پاکستان کے کارپردازان یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ جنرل ضیاء اور اختر عبدالرحمان کے بوئے گئے اس بیج سے جو کونپل پھوٹی ہے اس کے ساتھ کیا رویہ اپنایا جائے ؟ ایک سوچ یہ تھی کہ بدلے ہوئے حالات کے مطابق اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور دوسری سوچ یہ کہ اس کی آبیاری کی جائے ۔صدر غلام اسحاق خان کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو ،جنرل مرزا اسلم بیگ ،اورصدر آزادکشمیر سردار عبدالقیوم خان بھی شامل تھے جہاں اس کونپل کی آبیاری کا فیصلہ اور جنرل ضیا ء کی سرپرستی کو تسلسل دینے کا حتمی فیصلہ ہوا۔یوں کشمیر میں مسلح جدوجہد نے ایک نئی کروٹ لی ۔نوجوانوں کے کئی نئے گروہ عسکری تربیت کے لیے آزادکشمیر کارخ کرنے لگے ۔ نہ صرف یہ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ سرگرمیوں مین شدت آگئی بلکہ کئی نئے عسکری گروپ بھی قائم ہونے لگے ۔اس دوران اسٹوڈنٹس لبریشن فرنٹ نے اس دور کے بھارتی وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی ڈاکٹر ربیعہ سعید کو سر ی نگر کے صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سے اغوا کرکے سوپور کے ایک گھر میں چھپا دیا ۔سرد موسم تھا اور کشمیر کے پہاڑ برف سے ڈھک چکے تھے ۔

مرکزی وزیر داخلہ کی بیٹی کا اغوا بھارت کے قومی وجود اور انا کے لیے ایک چیلنج تھا ۔بھارت نے ڈاکٹر ربیعہ کی رہائی کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا جن میں سب سے اہم طریقہ لوگوں کو گھروں سے نکال کر خانہ تلاشی کا عمل تھا۔عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو برفانی راتوں اور برفانی راستوں میں کھڑا کر کے ان کی انا کو زخمی کیا جاتا ۔کشمیریوں کی اس زخمی انا نے جب ردعمل کا روپ دھارا تو ان دریائی جلوسوں میں ڈھل گیا ۔ یوں کشمیریوں کی مجروح انا نے ایک باقاعدہ مزاحمت اور سول نافرمانی کی تحریک کا روپ دھارا۔ہر نوجوان انتقام میں بندوق کا متلاشی ہوگیا ۔ادھر آزادکشمیر ریڈیو ’’ سرحد پار جائیں گے ،کلاشنکوف لائیں گے‘‘ جیسے انقلاب آفرین ترانوں سے ردعمل کے شعلوں کو فلک بوس بنا رہا تھا۔اس ماحول میں ہزاروں نوجوانوں نے جذبات سے مغلوب ،غصے اور انتقام میں کنٹرول لائن عبور کرکے آزادکشمیر پہنچنا شروع کردیا۔ریاستی اداروں کی احتیاطی تدابیر دھری کی دھری رہ گئیں۔کشمیری نوجوانوں کا خون تیزی سے بہہ رہا تھا ۔

سیکڑوں افراد کے قافلے یا تو کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کے ساتھ مڈ بھیڑ کے نتیجے میں لٹ پٹ کر مظفر آباد پہنچتے ان میں اگر کوئی قافلہ بہ حفاظت بھی پہنچتا تو اسے خوراک اور لباس کی ضرورت ہوتی ۔آزادکشمیر حکومت اس صورت حال سے قطعی لاتعلق تھی ۔جن ریاستی اداروں نے یہ کام اپنے ذمے لے رکھا تھا ان کی تیاریاں بھی محدود تھیں ۔وہ کشمیر کے برف زاروں میں چھپے آتش فشاں کی شدت اور سنگینی سے بے خبر تھے۔انہیں انداز ہ ہی نہیں تھا کہ کشمیری اس قدر قوت سے اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔اس لیے ان کا ’’حسن ِانتظام ‘‘بھی اس نئی صورت حال میں جواب دے رہا تھا ۔ایسے میں قاضی حسین احمد مرحوم نے ملتان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ مقبوضہ کشمیر سے ہزاروں افراد بھارتی مظالم سے تنگ آکر آزادکشمیر پہنچ رہے ہیں۔حکومتیں ان کی مدد نہیں کررہیں ،قوم آگے بڑھ کران کی مدد کرے ۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے عام ہڑتال کی اپیل کی ۔اس ہڑتال پر کشمیر سے پہلا ردعمل ایک معروف کمانڈر محمد احسن ڈار کی طرف سے آیا جنہوں نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں کیوںکہ ہمیں سرحد پار سے اخلاقی مدد ملنا شروع ہو گئی ہے ۔اس کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف اور بعد ازاں وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو نے بھی اس ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا ۔اس طرح پانچ فروری کشمیریوں کی جدید تحریک سے یک جہتی کے لیے ایک رسم و ریت کی شکل اختیار کر گیاہے ۔لیکن دنیا میں آنے والی ٹیکنالوجی کی تبدیلیوں اور ترقی نے عوام کی سطح ِ شعور خاصی بلند کی ہے ۔

کشمیری یوں بھی مزاجاََ جذباتی سہی مگر شعور اور آگہی میں دنیا کی کسی بھی ذہین قوم کے قوم ہم پلہ ہیں ۔نابغہَ روزگار حضرت علامہ اقبال نے یوں بے سبب اس قوم کو ’’قومِ نجیب و چرب ودست و تر ماغ ‘‘ نہیں کہا تھا ۔یہ اس قوم کو علامہ کا خراج تحسین اور اس کی ذہانت کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے مترادف تھا۔اس لیے ایسی قوم کو طفل تسلیوں سے زیادہ عرصہ تک بہلایا نہیں جا سکتا ۔اس وقت ریاست پاکستان کی پالیسی بھارت نوازی سے لچکی ہوئی شاخ کی مانند ہے اور بھارت کی بجائے حکومت پاکستان کو للکارنے اور جگانے کی زیادہ ضرورت ہے ۔کیونکہ کشمیریوں کا بھارت سے گلے شکووں کا کوئی رشتہ وتعلق ہی قائم نہیں۔وادی کشمیر کا عام مسلمان بھارت کو غاصب سمجھتا تھا اور سمجھتا رہے گا۔وہ اپنے اس ’’فہمِ بھارت ‘‘کی قیمت عشروں سے چکا رہا ہے ۔بھارت اسے لاکھ اپنا کہے ،اٹوٹ انگ سمجھے ،اس کی جیب میں گاندھی جی کی تصویروں والے نوٹ اور ہاتھ میں ری پبلک آف انڈیا نام کا سیاہ پاسپورٹ زبردستی تھما دے مگر کشمیریوں کا دل ہندوستانی نہیں بن سکتا ۔یہ بات بھارت کو پوری طرح معلوم ہے ۔اس لیے کشمیر کا عام آدمی بھارت کے ساتھ ایک جبری ناتے میں بندھا ہوا ہے مگر کشمیریوں کو پاکستان سے ہر دور میں بے شمار توقعات رہی ہیں۔پاکستان اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت مسئلے کا فریق رہا ہے۔پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کے مذہبی ،سیاسی ،نسلی اور ثقافتی روابط بہت گہرے ہیں۔اس لیے پاکستان کی پالیسیوں سے کشمیری خوش بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی ۔سچ تو یہ ہے آج ایک عام کشمیری نوجوان پاکستان کی ریاستی پالیسیوں سے قطعی ناخوش ہے ۔اس کے خیال میں پاکستان نے امریکی دبائو اور معاشی مفادات کی خاطر کشمیریوں کو ہاتھ پائوں باندھ کر بھارت کے آگے پھینک دیا ہے ۔جنرل مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کے نام پر کشمیر فراموشی کا جو کام شروع کیا تھا جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے باجوہ ڈاکٹرائن کے نام پر اس وقت آگیا بڑھایا جب بھارت پانچ اگست کے فیصلے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی شناخت چھین چکا تھا اور کشمیر یا تو ایک لاک ڈائون کی زد میں تھا یا پھر ایک مقتل کا منظر پیش کررہا تھا ۔باجوہ ڈاکٹرائن کی کہانی اب انجام کو پہنچ چکی ہے اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اپنی کشمیر پالیسی کے نقائص کو

حصہ