قیصرو کسریٰ قسط(87)

292

س کے بعد عاصم اپنے دل میں ایک فیصلہ کرچکا تھا، جب رتھیں قریب آنے لگیں تو وہ پوری طاقت سے چند نعرے لگانے کے بعد اچانک کھڑا ہوگیا۔ سیتھین سپاہیوں نے اِس مرتبہ بھی گھٹنوں کے قریب دونوں طرف سے اُس کی قبا پکڑ رکھی تھی، لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ وہ اُٹھنے سے پہلے قبا کا تسمہ کھول چکا ہے۔ جب سب سے آخری رتھ قریب پہنچی تو اُس نے اچانک اپنی قبا کندھوں سے نیچے سرکاتے ہوئے ایک جست لگائی اور اپنے آگے بیٹھے ہوئے آدمیوں کے اُوپر سے کود گیا۔ سیتھین سپاہیوں نے انتہائی قہر و غضب کی حالت میں خالی قبا ایک طرف پھینک کر اُس کا پیچھا کیا، لیکن عاصم آن کی آن میں دو اور صفوں کے اُوپر سے پھاند کر پوری رفتار سے شاہی شامیانے کا رُخ کررہا تھا۔ لیکن ان دو شامیانوں کے درمیان تیس چالیس قدم کا فاصلہ مسلح پہریداروں سے اَٹا ہوا تھا۔ انہوں نے ایک اجنبی کو قیصر کے شامیانے کی طرف بھاگتے دیکھا تو نیزے تان کر اُس کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ عاصم نے ایک طرف سے کترا کر نکلنے کی کوشش کی لیکن قیصر کے محافظ اُسے تنگ گھیرے میں لے چکے تھے۔

عاصم چلایا۔ ’’خدا کے لیے مجھے قیصر کے پاس لے چلو، اُس کی جان خطرے میں ہے، تم سب کی جانیں خطرے میں ہیں‘‘۔ لیکن اُس کی آواز پہریداروں کی چیخ پکار میں دب کر رہ گئی۔ دو رومیوں نے اُسے اپنی گرفت میں لے کر ایک طرف کھڑا کردیا۔ سیتھین جو اُس کا پیچھا کررہے تھے چند قدم دُور رُک گئے۔

ولیریس بھاگتا ہوا آیا اور اُس نے کہا۔ ’’ٹھہرو! اسے چھوڑ دو… سپاہیوں نے اُسے اپنی گرفت سے آزاد کردیا تو وہ چلایا۔ ’’ولیریس مجھے قیصر کے پاس لے چلو!‘‘۔

ولیریس نے جواب دیا۔ ’’اِس وقت قیصر کے سامنے جانا کوئی مذاق نہیں۔ اگر تمہیں کوئی اہم بات معلوم ہوئی تھی تو اِس طرف بھاگنے کی بجائے مجھ سے کہنی چاہیے تھی‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’قیصر کی زندگی خطرے میں ہے، تم اُدھر دیکھو وہ اب میرا پیچھا چھوڑ کر قیصر کے شامیانے کی طرف بھاگ رہے ہیں‘‘۔

عاصم نے جھپٹ کر ایک رومی کے ہاتھ سے نیزہ چھین لیا اور اُن کے پیچھے بھاگنے لگا۔ ولیریس اور دوسرے رومیوں نے اُس کی تقلید کی، لیکن اُن سے پہلے قیصر کے چند حبشی محافظ آوار کے راستے میں حائل ہوچکے تھے۔ انہوں نے مڑ کر عاصم کی طرف دیکھا تو زندگی اور موت سے بے پروا ہو کر اُس پر ٹوٹ پڑے اور وہ اُن کی تلواروں کے وار اپنے نیزے پر روکتا ہوا پیچھے ہٹنے لگا۔ ولیریس اپنی تلوار سونت کر عاصم کے ساتھ کھڑا ہوگیا لیکن اتنی دیر میں کئی اور سیتھین شامیانے سے نکل کر اپنے ساتھیوں کی مدد کے لیے بھاگے آرہے تھے۔ چند ثانیے رومی سپاہیوں کو خاقان کے آدمیوں کے ساتھ لڑنے کا حوصلہ نہ ہوا لیکن جب انہوں نے ولیریس کی چیخ پکار سنی تو وہ بھی بادل ناخواستہ میدان میں آگئے۔ تاہم وہ لڑنے سے زیادہ آوار کو ڈرا دھمکا کر پیچھے ہٹانے پر اکتفا کررہے تھے۔

تھوڑی دیر میں رتھیں میدان کا چکر پورا کرنے کے بعد قریب آگئیں اور وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ رتھوں کے گزر جانے کے بعد ایک آوار لڑتا بھڑتا قیصر اور خاقان کے سامنے پہنچ گیا اور اُس نے خاقان کو دیکھتے ہی دہائی مچادی۔ خاقان جلدی سے اُٹھ کر آگے بڑھا اور اُس نے ایک ثانیہ کے لیے صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد ہاتھ اُٹھا کر بلند آواز میں کچھ کہا اور سیتھین اُس کے گرد سمٹنے لگے۔ قیصر تذبذب اور پریشانی کی حالت میں کھڑا تھا اور رومی اُس کے گرد جمع ہورہے تھے۔ عاصم بھاگ کر شامیانے کے اندر داخل ہوا اور اُس نے شاہی آداب کا لحاظ کیے بغیر قیصر سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’آپ کی زندگی خطرے میں ہے، آپ یہاں سے بھاگنے کی کوشش کریں‘‘۔

خاقان جو اتنی دیر میں اپنے ساتھیوں سے چند باتیں کرنے کے بعد اپنی بدحواسی پر قابو پاچکا تھا، واپس مڑا اور قیصر کے قریب پہنچ کر بولا۔ ’’میرے آدمی کہتے ہیں کہ یہ پاگل آدمی مجھے قتل کرنے کے ارادے سے اس طرف بھاگا تھا‘‘۔

قیصر نے جواب دیا۔ ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے اِس پاگل کو پہلے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’عالیجاہ اِس آدمی کو میں جانتا ہوں اور یہ پاگل نہیں ہے‘‘۔ پھر وہ آگے بڑھ کر خاقان سے مخاطب ہوا۔ ’’اگر آپ کے آدمی اِس شخص پر الزام لگاتے ہیں تو وہ یقیناً کسی غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں۔ میں اِسے اچھی طرح جانتا ہوں‘‘۔

خاقان نے کہا۔ ’’اگر تم لوگ میرے ساتھیوں پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد کرتے ہو تو میں یہاں بیٹھنا پسند نہیں کروں گا‘‘۔

قیصر نے ملتجی ہو کر کہا۔ ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اِس واقعہ کی پوری چھان بین کی جائے گی۔ اگر یہ آدمی مجرم ثابت ہوا تو ہم اِسے آپ کے حوالے کردیں گے۔ لیکن اُس طرف دیکھیے آپ کے آدمی گھوڑوں سمیت میدان کے اندر آرہے ہیں‘‘۔

خاقان نے جواب دیا۔ ’’وہ احمق شاید یہ سمجھتے ہیں کہ میں کسی خطرے کا سامنا کررہا ہوں۔ لیکن آپ مطمئن رہیں، میں آپ کا یہ شاندار کھیل خراب نہیں ہونے دوں گا‘‘۔

خاقان یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا اور جو سیتھین شامیانوں سے نکل کر اُس کے گرد جمع ہوگئے تھے اُس کے پیچھے ہولیے۔

قیصر نے جھنجھلا کر اپنے مشیروں سے کہا۔ ’’ایک پاگل آدمی نے ہمارے معزز مہمان کو ناراض کردیا ہے۔ خدا کے لیے جائو اور اُسے منانے کی کوشش کرو۔ سینٹ کے چند ارکان خاقان کے پیچھے بھاگنے لگے لیکن اُس نے مڑ کر دیکھنا گوارا نہ کیا۔ میدان میں جمع ہونے والے سیتھین گھوڑے دوڑاتے ہوئے خاقان کی پیشوائی کے لیے بڑھے لیکن خاقان نے ہاتھ بلند کرکے اپنی زبان میں کچھ کہا اور وہ رُک گئے۔

پہلی دوڑ جس میں آٹھ رتھوں نے حصہ لیا تھا، ختم ہوچکی تھی اور دوسری دوڑ میں حصہ لینے والے جوان میدان میں آنے کے لیے قیصر کے حکم کا انتظار کررہے تھے۔ لیکن قیصر رنج و اضطراب اور بے بسی کی حالت میں کھڑا خاقان کی واپسی کا منتظر تھا۔

کلاڈیوس نے عاصم سے چند سوالات پوچھے اور اُس نے جلدی جلدی ایرج کے ساتھ اپنی ملاقات کا واقعہ بیان کردیا۔

کلاڈیوس نے کسی توقف کے بغیر ایک افسر سے کہا۔ ’’تم سپاہیوں کو حکم دو کہ وہ تمام فالتو گھورے شامیانے کے پیچھے لے آئیں‘‘۔

ہرقل نے غضب ناک ہو کر کلادیوس سے کہا۔ ’’کلاڈیوس، تم ہمیں ایک موہوم خطرے سے بھاگنے کا مشورہ نہ دو‘‘۔

اُس نے جواب دیا۔ ’’نہیں عالیجاہ میں صرف احتیاط کرنا چاہتا ہوں‘‘۔

ہرقل اور زیادہ غضب ناک ہو کر چلایا۔ ’’اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ یہ مٹھی بھر سیتھین ہمارے لشکر کو نگل جائیں گے تو میں قسطنطنیہ کے تخت پر بیٹھنے کی بجائے خاقان کے گھوڑوں کی رکھوالی کرنا زیادہ باعزت سمجھتا ہوں۔ تم نے اِس جگہ ہماری رسوائی کے سامان پیدا کیے ہیں اور اگر ہمیں یہ پتا چلا کہ اِس پاگل آدمی نے تمہاری شہ پر یہ بدمزگی پیدا کی ہے تو ہم تمہیں معاف نہیں کریں گے‘‘۔

کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’عالیجاہ آپ اسے نہیں جانتے، اِس نے کسریٰ کی فوج میں ایک بہت بڑا عہدہ چھوڑ کر ہمارے پاس پناہ لی ہے، اور یہ وہی ہے جس نے بابلیون میں مجھے ایرانیوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچایا تھا‘‘۔

ہرقل نے کہا۔ ’’اگر کسریٰ کی فوج کے کسی افسر نے یہاں بدمزگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ بات ہماری سمجھ میں آسکتی ہے۔ بیوقوف تم نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ ایرانی اِس ملاقات کو ناکام بنانے کے لیے ایک کامیاب سازش کرچکے ہیں۔ اسے گرفتار کرلو اور خاقان سے کہو کہ ہم انہیں اس کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے ہیں‘‘۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’عالیجاہ اِس شخص کے متعلق فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیجیے، میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ ہمارا دشمن نہیں اور اگر میرا یہ دعویٰ غلط ثابت ہو تو میں اس کے بدلے بری سے بڑی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔

قیصر نے کہا۔ ’’تم خاموش رہو۔ ہم تمہاری کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘‘۔

سپاہیوں نے عاصم کو بازوئوں سے پکڑ کر شامیانے سے ایک طرف کھڑا کردیا۔ وہ کچھ دیر بے بسی اور اضطراب، غصے اور نفرت کے ملے جُلے جذبات کے ساتھ اِدھر اُدھر دیکھتا رہا اور پھر قیصر اور دوسرے رومیوں کی طرح اُس کی نگاہیں بھی سامنے میدان میں جمع ہونے والوں کی طرف مرکوز ہو کر رہ گئیں۔ اچانک وہاں سے ایک آدمی نکلا اور پوری رفتار سے قیصر کے شامیانے کی طرف بھاگنے لگا۔ پھر چند ثانیے بعد کئی سیتھین شور مچاتے ہوئے اُسکا پیچھا کررہے تھے۔ جب وہ شامیانے سے کوئی سوگز کے فاصلے پر تھا، عاصم اچانک بلند آواز میں چلانے لگا۔ ’’اُسے بچائو! اُس کی مدد کرو! سیتھین اُسے زندہ نہیں چھوریں گے۔ اور وہ صرف اِس لیے مارا جائے گا کہ خاقان کے آدمیوں نے اُسے میرے ساتھ باتیں کرتے دیکھ لیا تھا۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُس نے خاقان کی سازش کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے‘‘۔

بھاگنے والے کی رفتار پیچھا کرنے والوں سے زیادہ تھی اور دیکھنے والوں کو اُس کا شامیانے کے قریب پہنچ جانا یقینی نظر آتا تھا۔ لیکن اب چند سوار بھی اُس کا پیچھا کررہے تھے، اور وہ آن کی آن میں اُس کے قریب پہنچ گئے۔ سب سے اگلے سوار نے جھک کر اُس پر اپنی تلوار سے وار کیا، لیکن وہ اچانک کترا کر ایک طرف نکل گیا۔ دوسرے سوار نے اُسے اپنے نیزے کی زد میں لینے کی کوشش کی لیکن اُس نے اچانک منہ کے بل گر کر اپنی جان بچالی۔ جب اُس نے دوبارہ اُٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی تو تیسرے سوار نے بھاگتے ہوئے گھورے سے نیزہ پھینکا۔ ایرج ایک جگر دوز چیخ کے ساتھ گرا، اُٹھا اور چند قدم لڑکھڑانے کے بعد دوبارہ منہ کے بل گرپڑا، ایک اور سوار نے گھوڑے سے کود کر اُس کا سر قلم کرنے کی کوشش کی، لیکن اتنی دیر میں کلاڈیوس اور چند سپاہی اُس کی مدد کے لیے پہنچ چکے تھے۔ ایک نوجوان نے سیتھین کا وار اپنی تلوار پر روکا اور دوسرے نے اپنا نیزہ دکھا کر اُسے پیچھے دھکیل دیا اور باقی چند قدم دور رُک کر اپنی زبان میں غم و غصے کا اظہار کرنے لگے۔ تاہم انہوں نے زخمی ہونے والے کی موت یقینی سمجھ کر رومیوں کے ساتھ اُلجھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
(جاری ہے)

حصہ